موجودہ قسم نماز
سبق: مستحب نمازیں
ایك مسلمان پر دن و رات ملا كر پانچ وقت كی نماز واجب ہے ، اس كے ساتھ ساتھ شریعت مسلمانوں كو مستحب نمازوں كی ادائیگی پر ابھارتی ہے ،تاكہ وہ بندے كے لئے اللہ كی محبت كا سبب بن جائے ،اور فرائض میں واقع ہونے والی كمیوں كو مكمل كردے ، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ نبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إن أول ما يحاسَب الناس به يوم القيامة من أعمالهم الصلاة. قال: يقول ربنا جل وعز لملائكته، وهو أعلم: انظروا في صلاة عبدي، أتمها أم نقصها؟ فإن كانت تامة كتبت له تامة وإن كان انتقص منها شيئا قال: انظروا، هل لعبدي من تطوع؟ فإن كان له تطوع قال: أتموا لعبدي فريضته من تطوعه، ثم تؤخذ الأعمال على ذاكم» (سنن أبي داود 864).(صحیح) ”قیامت کے دن لوگوں سے ان کے اعمال میں سے جس چیز کے بارے میں سب سے پہلے پوچھ تاچھ کی جائے گی وہ نماز ہو گی، ہمارا رب اپنے فرشتوں سے فرمائے گا، حالانکہ وہ خوب جانتا ہے میرے بندے کی نماز کو دیکھو وہ پوری ہے یا اس میں کوئی کمی ہے؟ اگر پوری ہو گی تو پورا ثواب لکھا جائے گا اور اگر کمی ہو گی تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرمائے گا: دیکھو، میرے بندے کے پاس کچھ نفل ہے؟ اگر نفل ہو گی تو فرمائے گا: میرے بندے کے فرض کو اس کی نفلوں سے پورا کرو، پھر تمام اعمال کا یہی حال ہو گا“۔
اور اسی وجہ سے اس كانا ركھا گیا ہے كیونكہ یہ فرائض سے چمٹی اور جڑی ہوتی ہے ، اور اس لئے بھی كہ مسلمان آدمی اس پر ہمیشگی كرتاہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ما من عبد مسلم يصلي لله كل يوم ثنتي عشرة ركعة تطوعاً غير فريضة إلا بنى الله له بيتاً في الجنة" (مسلم 728). (کوئی بندہ مسلمان ایسا نہیں کہ اللہ کے واسطے ہر دن میں بارہ رکعت خوشی سے پڑھے سوائے فرض کے مگر اللہ تعالی اس کے واسطے ایک گھر جنت میں بناتا ہے یا فرمایا اس کے لیے ایک گھر جنت میں بنایا جاتا ہے)
سنن رواتب
اس كا نام اسی وجہ سے ركھا گیا ہے كونكہ اس كی ركعتوں كی تعداد فردی ہے ، اور یہ افضل نوافل میں سے ہے، اللہ كےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "أوتروا يا أهل القرآن" (الترمذي 453، ابن ماجه 1170). (صحیح)( لہٰذا اے قرآن والو! وتر پڑھا کرو)
اور اس كا افضل وقت رات كا آخری حصہ ہے ،اور ایك مسلمان اسے نماز عشاء كے بعد سے لیكر طلوع فجر تك كبھی بھي پڑھ سكتاہے
وتر كی ركعتوں كی تعداد
وتر كی كم سے كم ایك ركعت ہے ، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم كبھی تین ركعت ، كبھی پانچ ركعت ،اور كبھي سات ركعت ، اور كبھي نو ركعت ، اور كبھي گيا رہ ركعت پڑھتے تھے
اقل كمال نماز وتر میں تین ركعت پڑھنا ہے ،تو ایك مسلمان پہلے دو ركعت پڑھ كر سلام پھیر دے ، پھر ایك ركعت پڑھے اور سلام پھيرے ،اور آخری ركعت میں -ركوع سے پہلے یا بعد میں- اپنے دونوں ہاتھوں كو اپنے سینے كے مقابل اٹھائے اور دعائے قنوت پڑھے ، یہ مشروع ہے
جب زمین سوكھ جائے ، اور كم بارش كے سبب لوگوں كو نقصان پہوںچے تو ایسی حالت میں اللہ نے نماز استسقاء كو مشروع كیا ہے ،اور اگر ممكن ہو تو یہ نماز كسی بڑے میدان یا خالی جگہوں میں ادا كی جائے ،اور مسجد میں پڑھنا جائز ہے
مشروع یہ ہے كہ نمازی اللہ سے عاجزی كرتے ہوئے ، لرزتے ہوئے ، اور توبہ كرتے ہوئے نكلیں ، اور وہ اسباب اختیار كریں جو رحمت الہی كو كھینچ لائے ، جیسے استغفار كرنا ، مظالم كے واپس كرنا ، صدقہ دینا ، لوگوں پر احسان كرنا وغیرہ
نماز استسقاء كی كیفیت
نماز استسقاء عید كی نماز كی طرح سے دو ركعت ہے ،امام اس میں بآواز بلندقراءت كرےگا ،اور ہر ركعت كے شروع میں تكبیر زوائد ہیں، پہلی ركعت میں قراءت سے پہلے تكبیر تحریم كے علاوہ چھ تكبیریں كہے گا ، اور دوسری ركعت میں سجدہ سے اٹھنے كے تكبیر كے علاوہ پانچ تكبیریں گہےگا، اس كے بعد دوخطبہ دےگا اور اس میں كثرت سے استغفار كرے گا اور دعا كے ذریعہ اللہ سے عاجزی كرےگا
یہ نماز مسلمان كے لئے مشروع كی گئی ہے جب وہ كسی جائز چیز كا ارادہ كرے اور اسے یہ معلوم نہ ہو كہ اس كےلئے اس میں خیر ہے كہ نہیں ۔
نماز استخارہ كی مشروعیت
جب كوئی مسلمان كسی جائز كام كا ارادہ كرے اور اسےیہ پتہ نہ ہو كہ وہ كام اس كے لئے بہتر ہے كہ نہیں اس وقت اس كےلئے مستحب ہے كہ وہ دوركعت نماز پڑھے ، اور اس كے بعد وہ دعا كرے جس كی تعلیم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپںے صحابہ كو دی تھي ، اور وہ یہ دعا ہے "اللهم إني أستخيرك بعلمك، وأستقدرك بقدرتك، وأسألك من فضلك العظيم، فإنك تقدر ولا أقدر، وتعلم ولا أعلم، وأنت علام الغيوب، اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري -أو قال: في عاجل أمري وآجله- فاقدره لي، وإن كنت تعلم أن هذا الأمر شر لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري -أو قال: في عاجل أمري وآجله- فاصرفه عني واصرفني عنه، واقدر لي الخير حيث كان، ثم رضِّني به، ويسمي حاجته" (البخاري 6382).(اے اللہ! میں بھلائی مانگتا ہوں (استخارہ) تیری بھلائی سے، تو علم والا ہے، مجھے علم نہیں اور تو تمام پوشیدہ باتوں کو جاننے والا ہے، اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے لیے بہتر ہے، میرے دین کے اعتبار سے، میری معاش اور میرے انجام کار کے اعتبار سے یا دعا میں یہ الفاظ کہے «في عاجل أمري وآجله» تو اسے میرے لیے مقدر کر دے اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے لیے برا ہے میرے دین کے لیے، میری زندگی کے لیے اور میرے انجام کار کے لیے یا یہ الفاظ فرمائے «في عاجل أمري وآجله» تو اسے مجھ سے پھیر دے اور مجھے اس سے پھیر دے اور میرے لیے بھلائی مقدر کر دے جہاں کہیں بھی وہ ہو اور پھر مجھے اس سے مطمئن کر دے (یہ دعا کرتے وقت) اپنی ضرورت کا بیان کر دینا چاہئے۔)
یہ مستحب نمازوں میں سے ہے ، جس كی فضیلت میں اجر عظیم كا ذكرہے ،اسكی كم سے كم دوركعت ہے ،اس كا وقت شروق كے بعد سورج كے ایك نیزے كے برابر چڑھنے شروع ہوتا ہے اور زوال شمس سے كچھ پہلے اور ظہر كے وقت كے داخل ہونے تك رہتا ہے ۔
سورج گہن یہ ایك غیر عادی كائنات كی حالت ہے جس میں سورج یا چاند كی مكمل طور پر یا جزئی طور پر روشنی چھپ جاتی ہے ،اور یہ اللہ كی نشانیوں میں سے ایك نشانی ہے جو اللہ كی قدرت اوراس كی بادشاہت كو بتاتی ہے ،انسان كو آگاہ كرتی ہے اور اسے غفلت سے بیدار كرتی ہے ، تاكہ وہ اللہ كے عذاب سے ڈرے اور اس كے ثواب كی امیدیں باندھے ۔
اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "إن الشمس والقمر لا ينكسفان لموت أحد من الناس ولكنهما آيتان من آيات الله فإذا رأيتموهما فقوموا فصلوا" (البخاري 1041).(سورج اور چاند میں گرہن کسی شخص کی موت سے نہیں لگتا۔ یہ دونوں تو اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیاں ہیں۔ اس لیے اسے دیکھتے ہی کھڑے ہو جاؤ اور نماز پڑھو۔)
سورج گہن كی نماز كی كیفیت
سورج گہن كی نماز كی دو ركعت ہے ، لیكن اس میں ركوع كو دوبار ایك ركعت میں كرنی ہے، وہ اس طرح كی نمازی پہلی ركعت میں ركوع سے سر اٹھانے كے بعد دوبارہ سورہ فاتحہ كی قراءت كرےگا اور جتنا ہو سكے گا قرآن پڑھے گا ،پھر ركوع سے سر اٹھائے گا پھر دو سجدے كرےگا، تو یہ ایك كامل ركعت ہوئی ، اور سجدے سے اٹھنے كے بعد جیسے پہلی ركعت میں كیا تھا اسی طرح دوسری ركعت میں كرے گا،