موجودہ قسم نماز
سبق: اذان
نماز كے لئے لوگوں كو پكارنے كے لئے اور اس كے وقت كے داخلے كی خبر دینے كے لئے اللہ نے مسلمانوں كےلئے اذان كو مشروع قرار دیا
نماز كے شروع اور اس كے آغاز كے وقت كو بتانے كے لئے اقامت كو مشروع قرار دیا گیا
اذان كی ابتداء كیسے ہوئی؟
جب مسلمان (ہجرت کر کے) مدینہ پہنچے تو وقت مقرر کر کے نماز کے لیے آتے تھے۔ اس کے لیے اذان نہیں دی جاتی تھی۔ ایک دن اس بارے میں مشورہ ہوا۔ کسی نے کہا نصاریٰ کی طرح ایک گھنٹہ لے لیا جائے اور کسی نے کہا کہ یہودیوں کی طرح نرسنگا (بگل بنا لو، اس کو پھونک دیا کرو) لیکن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کسی شخص کو کیوں نہ بھیج دیا جائے جو نماز کے لیے پکار دیا کرے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (اسی رائے کو پسند فرمایا اور بلال سے) فرمایا کہ بلال! اٹھ اور نماز کے لیے اذان دے۔ (البخاري 604، مسلم 377).
اذان اور اقامت كا حكم
فرد واحد كو چھوڑ كر اذان و اقامت جماعت پر واجب ہے ،اگر لوگوں نے اسے جان بوجھ كر چھوڑدیا تو ان كی نماز گناہ كے ساتھ صحیح ہوجائے گی
خوبصورت بلند آواز میں اذان دینا مشروع ہے ،یہاں تك كہ لوگ اسے سن كر نماز كے لئے آئیں
فجر كی اذان میں موذن (حي على الفلاح) كے بعد یہ اضافہ كرے گا : (الصلاة خير من النوم، الصلاة خير من النوم) (نماز نیند سے بہتر ہے ، نماز نیند سے بہتر ہے )
موذن كے پیچھے جواب دینا
اذان سننے والے كے لئے یہ مستحب كہ موذن كے پیچھے پیچھے ٹھیك وہی دوہراتا رہے جیسے موذن كہتا ہے ، مگر جب موذن : (حي على الصلاة) اور (حي على الفلاح) كہے تو اس كے جواب میں كہے (لا حول ولا قوة إلا بالله) پھر جو اذان كو سنے اوراس كا جواب دے وہ یہ دعا پڑھے (اللهم رب هذه الدعوة التامة والصلاة القائمة آت محمداً الوسيلة والفضيلة وابعثه المقام المحمود الذي وعدته).(” اے اللہ! اس کامل دعا اور ہمیشہ قائم رہنے والی نماز کے رب! محمد a کو وسیلہ اور فضیلہ عطا فرما اور آپ کو مقام محمودپر فائز فرما جس کا تو نے وعدہ فرمایا ہے“ (بخاری :614) ۔