موجودہ قسم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق معلومات
سبق: نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم كے خصائل
نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم كے شمائل
نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم صفات جمیلہ و خصائل حمیدہ والے تھے ، آپ نے باعزت صفات كریمہ اور اخلاق حمیدہ اور بلند و بالا آداب كے مقام پر فائز تھے،جو آپ خصائل و صفات پرغور كرتا تو یہ ماننے پر مجبور ہوجاتا كہ آپ بشریت كی تاریخ میں سب سے عظیم انسان ہیں ،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ كے افضل بندے اورلوگوں میں سب سے محبوب ہیں ،آپ اللہ كے دوست اور اس كے چنے ہوئے مخصوص بندے ہیں ،عبادت الہی میں سب سے اكمل اور اخلاق و عادات میں سب سے پاك باز ،ذاتی طور پر سب سے عمدہ ،اور لوگوں میں سب سے اچھے برتاؤ والے ،سب سے زیادہ اللہ كے پہچاننے والے ،اور اس كی بندگی كو عملی جامہ پہنانے والے بندے ہیں،اللہ نے آپ كو اس لئے منتخب كیا كہ آپ اس كے نبی و رسول بن كراس كی مخلوق كی طرف آئیں ،اور آپ اللہ اور لوگوں كے درمیان واسطہ بن كربھلائی اور ہدایت كی دعوت كی رہنمائی كا كام كریں
بشریت كی تاریخ میں اللہ نے سب سے افضل و خاندانی اعتبار سے عالی النسب كا انتخاب فرمایا،پیدائش و اخلاق دونوں اعتبارسے كامل بشری خوبیوں والے آپ صلی اللہ علیہ وسلم كو اللہ نے خاص كیا ،اور بشاشت كے اعتبار سے بھی آپ كامل ترین تھے ،خوبصورت رونق والے اور روشن چہرے والے ،بلند وبالا صفات كے حامل تھے ،آپ پر اللہ كا درود وسلام ہو،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم كے چند شمائل آنے والے سطور میں ملاحظہ فرمائیں :
1.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے قد كی كیفیت
انس رضی اللہ عنہ نبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم كی صفت بیان كرتے ہوئے فرماتے ہیں : «كان ربعة من القوم ليس بالطويل ولا بالقصير» البخاري (3547).(آپ صلی اللہ علیہ وسلم درمیانہ قد کے تھے۔ نہ بہت لمبے اور نہ چھوٹے قد والے۔)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم كے چہرہ انوركا وصف
آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب س حسین چہرے والے تھے،آپ كا چہرا گول تھا ،لیكن حد درجہ گول نہیں تھا ،بلكہ اس میں نرمی تھی ،انتہائی درجے كا حسن تھا،دور سے اس میں چمك و دمك تھی ،اور وہ ایسے ہی چمكتا تھا جیسے چودہویں كی رات میں چاند كا چہرا چمكتا ہے ،ہر دیكھنے والے كو اپنا گرویدہ بنا لیتا ہے ،خوشی كے وقت چہرے پرلكیریں چمكنےلگتی تھیں یعنی وہی وہ لكیریں جو پیشانی پر نمودار ہوتی ہیں ،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم كامل كان والے تھے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم كے روئے مبارك كے اوصاف
آپ كی داڑھی كے بال گھنے تھے ،كالے اور گول تھے ،ٹڈی اور نچلے ہونٹ كے درمیان نمایا اور اونچی تھی ،اور نچلی ہونٹ كےنیچے بال تھے جوكہ داڑی كے بال كی طرف مائل تھے ،ایسے محسوس ہوتا تھا كہ وہ داڑھی ہی كے بال ہیں
نبی صلی اللہ علیہ وسلم كے چمڑے كی رنگت
آپ صلی اللہ علیہ رنگت كے اعتبار سے لوگوں میں بڑے حیسین تھے ،آپ سفید مائل بسرخ تھے آپ كے چہرے كی چمك روشن سفید تھي ،جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت كرتے ہیں كہ انہوں نے نبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم كا حليه بیان كرتے ہوئے فرماتے ہیں: آپ بڑے سر والے ، گورے سفید سرخی مائل تھے ،بڑی داڑہی والے تھے (مسند أحمد (944)
نبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم كے بال
آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھنے بالوں والےتھے ،كبھي آپ كے بال جب چھوٹے ہوتے تو كان كے آدھے تك پہنچتے ،اور جب لمبے ہوتے اورآپ انہیں چھوڑ دیتے تو وہ دونوں شانوں تك پہنچ جاتے ،نہ سیدھے لٹكتے رہتے اور نہ ہی وہ مڑے ہوتے بلكہ ان دونوں كے بیچ ہوتے۔اور كبھی كبھی آپ انہیں اپنی پیشانی پر چھوڑ دیتے ،اور كبھي بیچ سرسے مانگ نكال لیتے،اور اس میں سے كچھ بھی اپنی پیشانی پر نہیں چھوڑتے۔
قتادہ سے مروی ہے فرماتے ہیں كہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے بال كیسے تھے؟تو انہوں نے فرمایا: آپ کے بال درمیانہ تھے، نہ بالکل سیدھے لٹکے ہوئے اور نہ گھونگھریالے اور وہ کانوں اور مونڈھوں کے بیچ تک تھے(البخاري 5905، ومسلم 2338).
آپ صلی اللہ علیہ وسلم كے سر اور داڑھی ملا كر كل بیس بال تك نہیں پہنچ رہے تھے ،ان میں سے بیشتر آپ كی داڑھی او رنچلےہونٹ كے درمیان میں تھے،اور جوسفید بال آپ كے سرمیں تھے وہ مانگ نكالنے كی جگہ میں تھے
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بالوں میں كنگھا كرتے ، انہیں صاف كرتے اور انہیں خوبصورت بناتے ،لیكن زیادہ ٹھاٹ باٹ نہیں كرے ،اور جب كنگھا كرتے تو دائیں جانب سے كرتے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم كے دونوں كندھوں اور ھتیلیوں اور دونوں ہاتھوں كے حلیے
انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلی سے زیادہ نرم و نازک کوئی حریر و دیباج میرے ہاتھوں نے کبھی چھوا البخاري (3561)، ومسلم (2330).
آپ صلی اللہ علیہ وسلم كے مہر نبوت كی كیفیت
آپ صلی اللہ علیہ وسلم كے بائیں كندھے كے پاس مہر نبوت تھی ،وہ گوشت كا ابھرا ہوا ایك پكڑا تھا جو آپ كے جسم كے چمڑے كے مشابہ تھا ،اور كبوتری كے انڈے كے سائز كاتھا،اور اس كے اردگرد تل تھا اور اس پر چاروں طرف سے بال تھے،
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ پر نبوت کی مہر دیکھی جیسے کبوتر کا انڈا۔وہ آپ كے جسم ك مشابہ تھا (مسلم (2344)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم كے سینے اورپیٹ كا وصف
آپ صلی اللہ علیہ وسلم كی دونوں پنڈلیوں اورپروں كا وصف
آپ كا پسینہ مشك سے بھی زیادہ خوشبودار تھا ،جب آپ سے كو مصافحہ كرلیتا تو پورا دن اس كی خوشبوں محسوس كرتا،اور آپ بیشتراوقات خوشبو استعمال كرتے
انس رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے نہ عنبر نہ مشک نہ اور کوئی خوشبو ایسی سونگھی جیسی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک کی خوشبو تھی،
یہ جامع كلمات ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے مكارم اخلاق كے متعلق
اللہ عزوجل نے فرمایا:( اور بیشک تو بہت بڑے (عمده) اخلاق پر ہے)[القلم: 4] اور جب جبریل علیہ السلام آپ كے پاس پہلی بار آئے ، تو آپ كو خوف لاحق ہوا،اس وقت آپ نے ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا سے فرمایااب کیا ہو گا مجھے تو اپنی جان کا ڈر ہو گیا ہے (پھر آپ نے سارا واقعہ انہیں سنایا)۔ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا ایسا ہرگز نہ ہو گا، آپ کو خوشخبری ہو، اللہ کی قسم! اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا۔ اللہ کی قسم! آپ تو صلہ رحمی کرنے والے ہیں، آپ ہمیشہ سچ بولتے ہیں، آپ کمزور و ناتواں کا بوجھ خود اٹھا لیتے ہیں، جنہیں کہیں سے کچھ نہیں ملتا وہ آپ کے یہاں سے پا لیتے ہیں۔ آپ مہمان نواز ہیں اور حق کے راستے میں پیش آنے والی مصیبتوں پر لوگوں کی مدد کرتے ہیں
1-نبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم كی امانت داری
نبی اكرم كی امانت داری میں بڑی شہرت تھی ،یہاں تك كہ آپ كی قوم نے آپ كا نام نبوت سے پہلے امین ركھآ تھا ،اور نبوت كے بعد لاكھ دشمنی كے باوجود وہ لوگ اپنی امانتیں آپ كے پاس ركھتے تھے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم كی شفقت و مہربانی
نبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت كے حق میں بڑے مہربان و نرم دل تھے ،اللہ تعالی كا ارشاد ہے:( تمہارے پاس ایک ایسے پیغمبر تشریف ﻻئے ہیں جو تمہاری جنس سے ہیں جن کو تمہاری مضرت کی بات نہایت گراں گزرتی ہے جو تمہاری منفعت کے بڑے خواہش مند رہتے ہیں ایمان والوں کے ساتھ بڑے ہی شفیق اور مہربان ہیں)[التوبة: 128] ایك اور مقام پر اللہ نےفرمایا:(پس اللہ کی طرف سے بڑی رحمت ہی کی وجہ سے تو ان کے لیے نرم ہوگیا ہے اور اگر تو بد خلق، سخت دل ہوتا تو یقینا وہ تیرے گرد سے منتشر ہو جاتے، )[آل عمران: 159].
آپ صلی اللہ علیہ وسلم كی معافی و مغفرت
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مكہ میں فاتح بن كر داخل ہوئے تو مكہ كے سردار اور عظیم ہستیاں آپ كے سامنے عاجزی كے ساتھ كھڑے ہوگئے ،جب كہ انہوں نے آپ كی اور آپ كے اصحاب كی اذیت و عداوت كوئی كسر نہ چھوڑی تھی ، اس كے باوجود آپ نے ان صرف یہی كہا :آج كے دن تمہارے لئے كوئی سرزنش نہیں ،جاؤ ،تم سب آزاد ہو
صلی اللہ علیہ وسلم كی لوگوں كی ہدایت كے لئے حرص
آپ لوگوں كی ہدایت كے لئے اس قدر حریص تھے كہ اگر وہ ہدایت نہ لائے تو اس غم آپ اپنی جان ہی دے دیں گے، جیسا كہ اللہ كا ارشاد ہے: (پس شاید تو اپنی جان ان کے پیچھے غم سے ہلاک کر لینے والا ہے، اگر وہ اس بات پر ایمان نہ لائے)[الكهف: 6].
آپ صلی اللہ علیہ وسلم كی قوت و شجاعت
علی رضی اللہ عنہ نبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم كی شجاعت بیان كرتے ہوئے _آپ بہادروں میں بڑے بہادر تھے- فرماتے ہیں:جب گھمسان كی جنگ شروع ہوجاتی ،اور دو دشمن باہم آمنے سامنے ہوجاتے تو ہم رسول اللہ كو آگے بڑھادیتے ،یہاں تك كہ دشمن سے آپ سے زیادہ ہم میں سے كوئی قریب نہ ہوتا(احمد:1347)