موجودہ قسم مالی لین دین
سبق: امانت ركھنا
دوسرے كے پاس ركھا گیا مال جس كی وہ بغیر عوض حفاظت كرے ،اس طور سے كہ كوئی شخص كسی غیر كے پاس اپنی گھڑی ، یا گاڑی یا كیش بطور امانت ركھ دے ۔
ودیعت (امانت ركھنے ) كا حكم
ودیعت جائز و مباح عقد ہے ، اور دونوں عقد كرنے والوں میں سے ہر ایك كو وہ جب چاہیں عقد ختم كرسكتے ہیں ، اور جب صاحب مال اس كے واپسی كا مطالبہ كرے تو اسے اس كا واپس كرنا واجب ہے ، اور اگر جس كے پاس امانت ركھی ہےوہ صاحب امانت كو واپس كرے تو اسے قبول كرنا اس پرلازم ہے ، اور یہ نیكی اور تقوی پر تعاون كے باب سے ہے ۔
ودیعت كے مشروع ہونے كی حكمت
آدمی پر كچھ ایسے حالات درپیش ہونے ہیں جن كی وجہ سے وہ اپنے مال كی حفاظت پر قادر نہیں ہوتا ،-چاہے وہ مناسب جگہ كا دستیاب نہ ہونا ہو ، یا امكان نہ ہو جیسے نا اہلی ، یا بیماری یا خوف - اور دوسرے كے پاس اس كے مال كی حفاظت كی قدرت و صلاحیت ہو۔
اسی وجہ سے اللہ نے ودیعت كو مباح كیا؛اس میں ایك پہلو مال كی حفاظت كی ہے ، اور جس كے پاس ودیعت ركھی جائے اس كے لئے اجر حاصل ہونا ہے ، اور اس میں لوگوں كے لئے آسانی ہے ، اور لوگوں كی ضرورتوں كو پوری كرنے میں ان كا تعاون و مدد ہے۔
ودیعت مشروع ہے ، اور اس كی مشروعیت كی اصل قرآن ، سنت اور اجماع امت و قیاس ہے ، اللہ تعالی كاارشاد ہے : {إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا} [النساء: 58]. ( بے شک اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حق داروں کو ادا کرو)۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں كہ اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «أَدِّ الْأَمَانَةَ إِلَى مَنِ ائْتَمَنَكَ، وَلَا تَخُنْ مَنْ خَانَكَ» (أبو داود 3535).(جس نے تمہارے پاس امانت رکھی اسے امانت (جب وہ مانگے) لوٹا دو اور جس نے تمہارے ساتھ خیانت (دھوکے بازی) کی ہو تو تم اس کے ساتھ خیانت نہ کرو)۔(حسن صحیح)
ودیعت كے قبول كرنے كا حكم
جس شخص كو یہ علم ہو كہ وہ ودیعت كی حفاظت كرسكتا ہے تو اس كے لئے ودیعت كا قبول كرنا مستحب ہے ، كیونكہ اس میں نیكی اور تقوی پر تعاون ہے ، اور اس كی حفاظت میں اجر و ثواب كا حصول ہے۔
ودیعت كے اركان
وہ حالالت جس میں جس كے پاس ودیعت ركھی گئی ہے وہ ودیعت كا ذمہ دار ہے
ودیعت كی امانت سے ضمانت كی طرف بدلنے كے حالات ۔
اگر جس كے پاس امانت ركھی گئی ہے ان كے پاس وہ بغیر حد سے تجاوز كئے ہوئیے اور بغیر كوتاہی كے ضائع ہو جائے تو وہ اس كا ذمہ دار نہیں ہے ، اور اس كی حفاظت كرنا اسی كے مثل محفوظ مقام میں اس پر لازم ہے ، اگر امانت ركھنے والا جس كے پاس امانت ركھی ہے اس میں اسے تصرف كی اجازت دے دے تو وہ مضمون قرض كے درجہ میں ہو جائے گی ،
جب خوف لاحق ہو اور جس كے پاس امانت ركھی گئی ہے وہ سفر كرنے كا ارادہ كرے تو اس پر صاحب امانت یا اس كے وكیل (اجنٹ) كو اس امانت كا واپس كرنا واجب ہے ، اور اگر ایسا كرنا ممكن نہ ہوا تو اس امانت كو حاكم كے حوالے كردے اگر وہ عادل ہو، اور اگر ایسیا بھی ممكن نہ ہو تو كسی بھروسے مند كے پاس اسے چھوڑ جائے تاكہ وہ صاحب امانت كو واپس كردے ۔
جس كے پاس مال ركھا جائے اور وہ اسے محفوظ مقام سے باہر نكال دے ، یا اسے غیر متمیز كے ساتھ گڈمڈ كردے اور پھر وہ ضائع ہو جائے یا برباد ہو جائے ،تو وہ اس كا ذمہ دار ہو گآ۔
جس كے پاس امانت ركھی جائے وہ امین ہے ، اور وہ جب حد سے تجاوز كرے یا كوتاہی برتے تبہی اس كا ذمہ دار ہے ، اور امانت كی واپسی اور تباہی ، اور عدم كوتاہی میں جس كے پاس امانت ركھی گئی ہے قسم كے ساتھ اس كا قول قبول كیا جائے گا ، جب كہ اس پر كوئی دلیل نہ ہو ۔
ودیعت (امانت) واپس كرنے كا حكم
جس شخص كے پاس امانت ركھی گئی ہے ودیعہ اس كے پاس امانت ہے، صاحب امانت كے مطالبہ كے وقت اسے واپس كرنا واجب ہے ، اور اگر اس نے صاحب امانت كے مطالبے كے بعد بغیر كسی عذر كے واپس نہ كرے اور وہ برباد ہو جائے تو ایسی صورت میں وہ اس كا ذمہ دار ہے ، اللہ تعالی نے فرمایا: {إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا} [النساء: 58].(بے شک اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حق داروں کو ادا کرو)۔
اگر ودیعت (امانت) ایك سے زائد شخص كی ہو ، اور ان میں سے ایك اپنا حصہ طلب كرے ، چاہے وہ ناپ تول یا وزن یا عدد سے ہو تو اسے تقسیم كرے كے اس كے حصے كو دے دیا جائے گا۔