تعلیم كو فالو اپ كریں

اب تك آپ نے انڑی كے لئے رجسٹریشن نہیں كیا
اپنی ترقی كے فالواپ كے لئے اور پوائنٹس اكٹھا كرنے كے لئے ،اور مسابقے میں شركت كے لئے منصہ تاء میں فورا رجسٹریشن كریں ،رجسٹرد ہونے كے بعد جن موضوعات كی آپ تعلیم حاصل كررہے ہیں آپ اس كی الكڑانك سرٹیفیكیٹ حاصل كریں گے

موجودہ قسم مسلم فیملی (مسلم خاندان )

سبق: والدین كے حقوق

اس درس میں ہم والدین كے ساتھ نیك برتاؤ اور اسے جڑی بعض چیزوں كے بارے میں علم حاصل كریں گے۔

  • اسلام میں والدین كے عظیم منزلت كا بیان ۔
  • والدین كے ساتھ نیك برتاؤ كرنے كی ترغیب اور ان دونوں كی نافرمانی كرنے پر تنبیہ ۔
  • والدین کے تئیں بچوں کے اہم ترین فرائض کا تعارف۔
  • والدین کے ساتھ حسن سلوک کے کچھ آداب کا بیان۔

اسلام والدین كا مقام و مرتبہ

اسلام نے والدین كی عظیم ترین تكریم فرمائی ہے ، اور اسلام میں عظیم امر كے ساتھ ان دونوں كے حسن سلوك كو شامل كیا ہے ، اور وہ اللہ تعالی كی توحید ہے ، جیسا كہ اللہ تعالی كا فرمان ہے : {وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا} [الإسراء: 23]. ( اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا)اللہ تعالی نے والدین كو بیٹے اور بیٹیویں كے وجود كا سبب قرار دیا ہے ، اولاد جتنی بھی كوشش صرف كرلیں پھر بھی وہ اپنے اوپر والدین كے فضل و احسان كا بدلہ چكانے كی استطاعت نہیں ركھتے ، اور نہ ہی اپنی اولاد كی راحت ، ان كی نگہداشت اور ان پر توجہ كےلئے ان دونوں نے تھكاوٹ ، پریشانی اور اذیت ، بےداری ، قیام ، قلت راحت كا سامنا كیا ہے اس كا بدل دے سكتے ہیں ،

یہ اللہ كا انصاف ہے كہ اس نے والدین كے حقوق كو ان كے بیٹوں پر مقدر كیا ہے ، یہ ان كے لئے اس بدلے كے طور پر ہے جن قابل تعریف كوششوں كو انہوں نے اپنے بچوں كی نگرانی و توجہ پر صرف كی ہے اور برابر كرتے رہتے ہیں ، جیسا كہ اللہ تعالی نے فرمایا : {وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا} [العنكبوت: 8]( اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرنے کی تاکید کی ہے )اور ایك دوسری جگہ اللہ نے یوں فرمایا: {وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا} [لقمان: 15].( ہاں دنیا میں ان کے ساتھ اچھی طرح بسر کرنا ) ایک صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میرے اچھے سلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے؟ فرمایا کہ تمہاری ماں ہے۔ پوچھا اس کے بعد کون ہے؟ فرمایا کہ تمہاری ماں ہے۔ انہوں نے پھر پوچھا اس کے بعد کون؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری ماں ہے۔ انہوں نے پوچھا اس کے بعد کون ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تمہارا باپ ہے)

والدین كے ساتھ حسن سلوك كی فضیلت

ماں باپ كے ساتھ حسن سلوك كرنا اولاد پر واجب اور فرض ہے ، اور ان كی ساتھ اچھے برتاؤ سے پیش آنے كے بڑے اجر اور عظیم ثواب ہے ، اور وہ بركت و رزق اور دنیا میں عام بھلائی كا سبب ہے ، اور آخرت میں جنت میں داخلے كا سبب ہے ، جیسا كہ نبی مكرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "رَغِمَ أنْفُهُ، ثُمَّ رَغِمَ أنْفُهُ، ثُمَّ رَغِمَ أنْفُهُ. قيلَ: مَنْ يا رَسولَ اللهِ؟ قالَ: مَن أدْرَكَ والِدَيْهِ عِنْدَ الكِبَرِ، أحَدَهُما، أوْ كِلَيْهِما، ثُمَّ لَمْ يَدْخُلِ الجَنَّةَ" (مسلم 2551).(خاک آلود ہو ناک اس کی، پھر خاک آلود ہو ناک اس کی، پھر خاک آلود ہو ناک اس کی۔“ کہا گیا کون؟ یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اپنے والدین کو بوڑھا پائے دونوں کو یا ان میں سے ایک کو پھر جنت میں نہ جائے)۔

ماں باپ كے ساتھ حسن سلوك عملوں میں افضل عمل اور اللہ كے نزدیك انتہائی پسندیدہ عمل ہے ، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے نبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: أي العمل أحب إلى الله؟ قال: «الصلاة على وقتها»، قال: ثم أي؟ قال: «ثم بر الوالدين» قال: ثم أي؟ قال: «الجهاد في سبيل الله» (البخاري 527، ومسلم 85).( اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کون سا عمل زیادہ محبوب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز كو اس كے وقت پرپڑھنا، پھر پوچھا، اس کے بعد، فرمایا والدین کے ساتھ نیک معاملہ رکھنا۔ پوچھا اس کے بعد، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا)۔

تو والدین كے ساتھ حسن سلوك نفلی جہاد سے افضل ہے ، ایك شخص نبی مكرم صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس آیا اور عرض كیا : أُجَاهِدُ؟ قالَ: "لكَ أبَوَانِ؟". قالَ: نَعَمْ. قالَ: "فَفِيهِما فَجَاهِدْ" (البخاري 5972، ومسلم 2549).(کیا میں بھی جہاد میں شریک ہو جاؤں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تمہارے ماں باپ موجود ہیں انہوں نے کہا کہ جی ہاں موجود ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر انہیں میں جہاد کرو)۔

والدین كی نافرمانی كرنا

والدین كی نافرمانی كبائر میں سے بڑا اور عظیم گناہ ہے ،جیسا كہ حدیث میں نبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "أكبر الكبائر: الإشراك بالله، وعقوق الوالدين... الحديث" (البخاري 6919، ومسلم 87).(بڑے سے بڑا گناہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا ہے اور ماں باپ کو ستانا (ان کی نافرمانی کرنا.................)۔

والدین كے تئیں اولاد كے فرائض

١
ان دونوں كی فرمانبرداری كرنا ان تمام بھلائی كے كاموں میں جس كا وہ دونوں حكم فرمائیں اور قدرت و استطاعت كے حدود میں ہو، ہاں اگر وہ دونوں كسی معصیت كا حكم دیں تو اس میں ان كی فرمانبرداری نہیں كی جائے گی ، اس لئے كہ خالق كی معصیت میں كسی مخلوق كی فرمانبرداری نہیں ہے ۔
٢
بھلائی كے ساتھ ان كی صحبت میں رہنا گرچہ وہ دونوں بیٹے كے ساتھ برائی سے پیش آئیں ، کیا اس کی دعوت شرک اور جہنم میں ہمیشہ رہنے سے بڑا جرم ہے؟، اس كے باوجود اللہ تعالی نے فرمایا : {وَإِنْ جَاهَدَاكَ عَلَى أَنْ تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا} [لقمان: 15].(اور اگر وه دونوں تجھ پر اس بات کا دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ شریک کرے جس کا تجھے علم نہ ہو تو تو ان کا کہنا نہ ماننا، ہاں دنیا میں ان کے ساتھ اچھی طرح بسر کرنا)
٣
ان دونوں كا اہتمام كرنا اور ان پر احسان كرنا ، اور یہ احسان اور خدمت اور اطاعت كے جملہ اقسام كو مقدم كرنا ہے ،ان سے محبت اور حسن اخلاق و آداب كے ساتھ معاملہ كرنا، اللہ تعالی كا ارشاد ہے :{وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا} [الإسراء: 23].( اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا)۔
٤
انہیں اذیت كے كم سے كم تك بھی ایذا نہ پہنچانا یا ان كے ساتھ برا برتاؤ نہ كرنا ، گرچہ كلمہ اف ہو ، اور بالخصوص ان كے بڑھاپے كی حالت میں ، جیسا كہ اللہ تعالی نے فرمایا: {إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا} [الإسراء: 23].( اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا یہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا )۔
٥
ان كے سامنے تواضع اختیار كرنا اور بازو جھكانا ، جیسا كہ اللہ تعالی نے فرمایا: {وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا} [الإسراء: 24].( اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھے رکھنا اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار! ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے)
٦
ہمیشہ ان كا شكر گذار رہنا اور ان كے فضل و احسان كا معترف رہنا ، جیسا كہ اللہ تعالی كا ارشاد ہے: {وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَى وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ} [لقمان: 14].( ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق نصیحت کی ہے، اس کی ماں نے دکھ پر دکھ اٹھا کر اسے حمل میں رکھا اور اس کی دودھ چھڑائی دو برس میں ہے کہ تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کر، (تم سب کو) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے)۔
٧
بھلائی كے ساتھ ان پر خرچ كرنا ، جیسا كہ نبی مكرم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: «أنت ومالك لوالدك، إن أولادكم من أطيب كسبكم، فكلوا من كسب أولادكم» (أبو داود 3530)(حسن صحیح).(تم اور تمہارا مال تمہارے والد ہی کا ہے (یعنی ان کی خبرگیری تجھ پر لازم ہے) تمہاری اولاد تمہاری پاکیزہ کمائی ہے، تو تم اپنی اولاد کی کمائی میں سے کھاؤ)۔
٨
ان دونوں كی زندگی میں اور ان كے مرنے كے بعد ان كےلئے دعاء خیر كرنا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "إِذَا مَاتَ الإنْسَانُ انْقَطَعَ عنْه عَمَلُهُ إِلَّا مِن ثَلَاثَةٍ: إِلَّا مِن صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو له" ( مسلم 1631).(جب آدمی مر جاتا ہے تو اس کا عمل موقوف ہو جاتا ہے مگر تین چیزوں کا ثواب جاری رہتا ہے۔ ایک صدقہ جاریہ کا۔ دوسرے علم کا جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں۔ تیسرے نیک بخت بچے کا جو اس کے لیےدعا کرے )۔
٩
والدین كے موت كے بعد ان دونوں كے دوستوں كی تكریم كرنا ، اللہ كے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: «إن أبَرَّ البِرِّ صلة الولد أهلَ وُدِّ أبيه» (مسلم 2552).(بڑی نیکی یہ ہے کہ لڑکا اپنے باپ کے دوستوں سے اچھا سلوک کرے)۔

والدین كے ساتھ تعامل میں جو آداب واجب ہیں

١
ان دونوں كی بات اچھی طرح سننا ، اور ان كی گفتگو كو پوری توجہ سے سننا ، اورانہیں چھوڑ كر كسی چیز میں مشغول نہ ہونا جیسے موبائل وغیرہ ۔
٢
ان كے مطالبہ سے پہلے ان كی پسندیدہ چیزوں كو فراہم كرنا ، اور جو چیزیں انہیں دكھ پہنچائے ان دونوں كے پاس پہنچنے سے پہلے ہی اسے ہٹا دینا۔
٣
بلا تاخیر ان كی پكار كو قبول كرنا ، اور قبول كے ساتھ رضامندی كا اظہار كرنا اور تاخیر نہ كرنا ۔
٤
نرمی اور دانشمندی كے ساتھ نصیحت كرنا جب ان دونوں میں سے كسی ایك سے معصیت سرزد ہو جائے ۔
٥
اگر والدین كی جانب سے ظلم یا سختی سرزد ہو جائے تو اس كا مقابلہ صبر ، احسان ، اور عزت كے ساتھ كرنا ،
٦
دشمنی اور چیلنج نہ كرنا ۔
٧
ان دونوں كے چہروں پر خوب مسكراہٹ لانا ۔
٨
ان دونوں سے مشورہ كرنا ، فردی شعبے میں ان دونوں كو شامل كرنا اور ان دونوں كی رائے كا احترام كرنا ،
٩
ان کے ساتھ بات چیت، گفتگو اور کھلے پن کو یقینی بنانا، حتی كی روز مرہ كی زندگی میں اگر یہ چیز ان دونوں كو پسند ہو ۔
١٠
سفر كی وجہ سے جدائی كے حالت میں لڑكے پر ان دونوں سے مسلسل جڑے رہنا اور انكی خیرت دریافت كرتے رہناواجب و ضروری ہے ۔

كامیابی سے آپ نے درس مكمل كیا


امتحان شروع كریں