موجودہ قسم مسلم فیملی (مسلم خاندان )
سبق: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایك خاوند
اللہ تعالی كی حكمتوں میں سے یہ كہ اس نے اپنے رسولوں كوبشر بنایا ، تاكہ لوگوں کے لیے ان کے نقش قدم پر چلنے اور ان کے اخلاق کو اپنانے اور انہیں جیسے عمل كرنے کے لئے دلیل بن جائیں، اور ایك مسلمان كے دنیا و آخرت كی سعادت مندی اللہ كی كتاب اور اس كے نبی كی سنت كی اتباع میں مضمر ہے ، اس وجہ سے ایك مسلمان كے لئے نبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم كی سیرت اور آپ كی سنت كی معرفت ضروری ہے ،تاكہ وہ آپ كو اپںے لئے ہر حالت میں ان كی روشنی میں آئینہ بنانے كی كوشش كرسكے ۔
نبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم كی اندورن خانہ اور ازواج مطہرات كے ساتھ كی زندگی تمام بشریت كے لئے اعلی مثال ہے ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ آئیڈیل ہیں كہ ہر شوہر جو دنیا میں اپنے خاندان كے لئے پاكیزہ زندگی گذارنا چاہتا ہے اور آخرت میں جنت كی كامیابی كا متمنی ہے وہ انہیں نمونہ بنالے ،اللہ تعالی كا ارشاد ہے : {لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا} [الأحزاب: 21].(یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ میں عمده نمونہ (موجود) ہے، ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعالیٰ کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کی یاد کرتا ہے)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كا اپنی بیویوں كے ساتھ اخلاق عظیم
عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «خيركم خيركم لأهله، وأنا خيركم لأهلي» (الترمذي 3895)(صحیح).(تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو اور میں اپنے گھر والوں کے لیے سب سے بہتر ہوں)، تو نبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم اپںی امت كے مردوں كو یہ حكم فرماتےہیں كہ وہ عورتوں كے ساتھ اچھا برتاؤ كریں ، اور آپ ایسا كرنے والوں كی تعریف فرماتے ہیں ، اس كے بعد آپ یہ بیان فرماتے ہیں كہ وہ ان كےلئے اس بارے میں نمونہ ہیں ۔
نبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم كا عورتوں كو شادی كرانے اور ان كی جائز خواہشات پوری كرنےمیں كافی اہتمام كرتے تھے ،
عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: "رأيت النبي صلى الله عليه وسلم يسترني بردائه، وأنا أنظر إلى الحبشة يلعبون في المسجد، حتى أكون أنا التي أسأم، فاقدروا قدر الجارية الحديثة السن، الحريصة على اللهو" (البخاري 5236، ومسلم 892).( میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے لیے اپنی چادر سے پردہ کئے ہوئے ہیں۔ میں حبشہ کے ان لوگوں کو دیکھ رہی تھی جو مسجد میں (جنگی) کھیل کا مظاہرہ کر رہے تھے، آخر میں ہی اکتا گئی۔ اب تم سمجھ لو ایک کم عمر لڑکی جس کو کھیل تماشہ دیکھنے کا بڑا شوق ہے کتنی دیر تک دیکھتی رہی ہو گی)۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كی اقتدا میں سے ہے كہ شوہر ہوشیار ہو ، اور اپنی بیوی كی خواہشات كا اہتمام كرنے والا ہو، اور اس كی جائز نفسیاتی ضرورتوں كا احترام كرنے والا اور اسے پورا كرنے والا ہو ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد كا اپنی بیوی كے ساتھ كھیلنے كو اجازت شدہ كھیلوں میں سے شمار كیا ہے ، اور اس كے مذموم كھیل ہونے سے نفی كی ہے ، جیسا كہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "كل شيء يلهو به ابن آدم فهو باطل، إلا ثلاثاً: رميَه عن قوسه، وتأديبَه فرسَه، وملاعبتَه أهلَه، فإنهن من الحق" (أحمد 17337).(ہر وہ چیز جس كے ساتھ آدمی كھیلتا ہے وہ باطل ہے ، سوائے تین كھیل كے : اس کا اپنے کمان سے تیر چلانا ، اس کا اپنے گھوڑے کو تربیت دینا، اور اس کا گھر والوں کے ساتھ کھیلنا، کیونکہ وہ حق میں سے ہیں۔
عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ ثابت ہے كہ وہ نبی مكرم صلی اللہ علیہ وسلم كے ساتھ ایك سفر میں تھیں ، انہوں نے فرمایا: فَسَابَقْتُهُ فَسَبَقْتُهُ عَلَى رِجْلَيَّ ، فَلَمَّا حَمَلْتُ اللَّحْمَ سَابَقْتُهُ فَسَبَقَنِي، فَقَالَ: "هَذِهِ بِتِلْكَ السَّبْقَةِ" (أبو داود 2578)(صحیح)،( میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دوڑ کا مقابلہ کیا تو میں جیت گئی، پھر جب میرا بدن بھاری ہو گیا تو میں نے آپ سے (دوبارہ) مقابلہ کیا تو آپ جیت گئے، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ جیت اس جیت کے بدلے ہے)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں كے ساتھ كھیلتیے اور ہنسی مذاق كرتے تھے، تو آپ كی ازدوادجی زندگي نروس اور تھكی تھكی سی نہیں رہتی۔
خاندانی مشكلات سے نمٹنے میں نبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم كی حكمت
گھروں میں سے كوئی ایسا گھر نہیں جس كے افراد كے درمیان مشكلات درپیش نہ ہوں ، اور نبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مشكلات سے نمٹنے كے متعلق لاجواب مثالیں ہمارے لئے بیان فرمائی ہیں ،جیسا كہ انس رضی اللہ عنہ بیان كرتے ہیں : كان النبي ﷺ عند بعض نسائه، فأرسلت إحدى أمهات المؤمنين بصحفة فيها طعام، فضربت التي النبي ﷺ في بيتها يد الخادم، فسقطت الصحفة فانفلقت، فجمع النبي ﷺ فلق الصحفة، ثم جعل يجمع فيها الطعام الذي كان في الصحفة، ويقول: «غارت أمكم» ثم حبس الخادم حتى أتي بصحفة من عند التي هو في بيتها، فدفع الصحفة الصحيحة إلى التي كسرت صحفتها، وأمسك المكسورة في بيت التي كَسَرَت. (البخاري 5225).( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ایک زوجہ (عائشہ رضی اللہ عنہا) کے یہاں تشریف رکھتے تھے۔ اس وقت ایک زوجہ (زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا) نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک پیالے میں کچھ کھانے کی چیز بھیجی جن کے گھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تشریف رکھتے تھے۔ انہوں نے خادم کے ہاتھ پر (غصہ میں) مارا جس کی وجہ سے کٹورہ گر کر ٹوٹ گیا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کٹورا لے کر ٹکڑے جمع کئے اور جو کھانا اس برتن میں تھا اسے بھی جمع کرنے لگے اور (خادم سے) فرمایا کہ تمہاری ماں کو غیرت آ گئی ہے۔ اس کے بعد خادم کو روکے رکھا۔ آخر جن کے گھر میں وہ کٹورہ ٹوٹا تھا ان کی طرف سے نیا کٹورہ منگایا گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ نیا کٹورہ ان زوجہ مطہرہ کو واپس کیا جن کا کٹورہ توڑ دیا گیا تھا اور ٹوٹا ہوا کٹورہ ان کے یہاں رکھ لیا جن کے گھر میں وہ ٹوٹا تھا)۔
نبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم كا سینہ ان تصرفات سے تنگ نہیں ہوتا جو آپ كی ازواج مطہرات یا اہل خانہ كے فطری احساسات كے سبب رونما ہوتے ،اور آپ تمام موقف و حالات سے بڑی حكمت اور مہارت سے ڈٹ كر مقابلہ كرتے ، گرچہ وہ موقف لڑائی اورجھگڑے كا اشارہ دے رہا ہو، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حكمت اور عدم رد عمل و غضبناكی سے اس حالت كو تبدیل كردیتے تھے، اور تناؤ كو ہلكا كر دیتے تھے ، اور ہر فریق كے ساتھ انصاف كرتے تھے ۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبول كرتے كہ آپ كی بیوی آپ سے ناراض ہوگئی اور اس كا اظہار بھی كرتی ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس كامقابلہ حسن سلوك اور شفقت سے كرتے ، عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے انہوں نے كہا «إني لأعلم إذا كنت عني راضية، وإذا كنت علي غضبى» قالت: فقلت: من أين تعرف ذلك؟ فقال: «أما إذا كنت عني راضية، فإنك تقولين: لا ورب محمد، وإذا كنت علي غضبى، قلت: لا ورب إبراهيم قالت: قلت: أجل والله يا رسول الله، ما أهجر إلا اسمك» ( البخاري 5228، ومسلم 2439).(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ میں خوب پہچانتا ہوں کہ کب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو اور کب تم مجھ پر ناراض ہو جاتی ہو۔ بیان کیا کہ اس پر میں نے عرض کیا آپ یہ بات کس طرح سمجھتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو تو کہتی ہو نہیں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے رب کی قسم! اور جب تم مجھ سے ناراض ہوتی ہو تو کہتی ہو نہیں ابراہیم علیہ السلام کے رب کی قسم! بیان کیا کہ میں نے عرض کیا جی ہاں، اللہ کی قسم یا رسول اللہ! (غصے میں) صرف آپ کا نام زبان سے نہیں لیتی)۔
نبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم كی اپنی بیویوں كے ساتھ حسن معاشرت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر کے کاموں میں اپنی بیویوں پرشفقت كھاتے ہوئے اور ان كی آسانی كے لئے مدد کیا کرتے تھے۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم كا یہ اخلاق تھا كہ وہ اپنا مخصوص ذاتی كام خود كیا كرتے تھے ،
عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال كیا گیا كہ نبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم اپںے گھر كے اندر كیا كام كرتے تھے ؟ تو انہوں نے جواب دیا : «كان يكون في مهنة أهله - تعني خدمة أهله - فإذا حضرت الصلاة خرج إلى الصلاة» (البخاري 676)،(نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر کے کام کاج یعنی اپنے گھر والیوں کی خدمت کیا کرتے تھے اور جب نماز کا وقت ہوتا تو فوراً (کام کاج چھوڑ کر) نماز کے لیے چلے جاتے تھے۔)اور ایك دوسری حدیث میں وہ فرماتی ہیں: «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يخصف نعله، ويخيط ثوبه، ويعمل في بيته كما يعمل أحدكم في بيته» (أحمد 25341).( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جوتوں کی مرمت کرتے، کپڑے سیتے اور اپنے گھر میں اس طرح کام کرتے جیسے تم میں سے کوئی اپنے گھر میں کام کرتا ہے)۔
بیویوں سے محبت كرنے كی چند شكلیں
محبت بھرے الفاظ سے بیویوں كو پكارنا ۔
حدیث میں ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: «يا عائش، هذا جبريل يقرئك السلام» (البخاري 3768)(اے عائشہ ! جبریل آپ كو سلام كہتے ہیں ) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم كبھی انہیں حمیرا كہہ كر پكارتے تھے اور یہ لفظ حمراء كی تصغیر ہے ، یعنی بیضا ء ( گوری )۔
خاوند كا اپنی بیوی كو كھانا كھلانا ۔
سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: «وإنك مهما أنفقت من نفقة، فإنها صدقة، حتى اللقمة التي ترفعها إلى فِيِّ امرأتك» (البخاري 2742).( اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جب تم اپنی کوئی چیز (اللہ کے لیے خرچ کرو گے) تو وہ خیرات ہے ‘ یہاں تک کہ وہ لقمہ بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالو گے (وہ بھی خیرات ہے)۔
خاوند اپنی بیوی سے محبت كا اظہار كرنا۔
عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں غزوہ ذات السلاسل کے لیے بھیجا (عمرو رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ) پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے پوچھا کہ سب سے زیادہ محبت آپ کو کس سے ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عائشہ سے)۔
ان كی باتیں عور سے سننا اوراسے اہمیت دینا۔
اور ام زرع كی طویل حدیث اسی بات كی طرف اشارہ كرتی ہے ۔جس میں عائشہ رضی اللہ عنہا نے گیارہ عورتوں كی خبر بیان كیا ۔اس طور سے كہ وہ عورتیں اپنے شوہر وں كی حالتیں بیان كر رہی تھیں ، یہاں تك كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ كی بات برابر سنتے رہے ، یہاں تك كہ انہوں نے كامل طور سے ان كےدرمیان چلنی والی گفتگو كا اختتام كیا ۔
نبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم كا اپنی بیویوں كے لئے زینت اور جمال اختیار كرنا۔
اس طور سے كہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ سوال كیا گیا : "بأَيِّ شيءٍ كانَ يَبْدَأُ النبيُّ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ إذا دَخَلَ بَيْتَهُ؟ قالَتْ: بالسِّواكِ" (مسلم 253)(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب گھر میں آتے تو پہلے کیا کام کرتے، کہا: مسواک کرتے (اس سے معلوم ہوا کہ مسواک کتنی ضروری چیز ہے)۔اور ایك دوسری حدیث میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے ثابت ہے انہوں نے فرمایا: «كنت أطيب النبي صلى الله عليه وسلم بأطيب ما يجد، حتى أجد وبيص الطيب في رأسه ولحيته» (البخاري 5923).( میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے عمدہ خوشبو لگایا کرتی تھی، یہاں تک کہ خوشبو کی چمک میں آپ کے سر اور آپ کی داڑھی میں دیکھتی تھی)۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم كی اپنی بیویوں سے وفاداری
اس وفا كی كچھ روشن شكلیں ، خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے برسوں بعد تك رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال تھا؟اور انہیں میں سے یہ واقعہ بھی ہے كہ نبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم كی بیٹی زینب نے ابوالعاص كو آزاد كرانے كے لئے -ابوالعاص سے ان كی شادی اسلام سے پہلے واقع ہوئی تھی ، اور وہ بدر میں قیدی بناكر لائے گئے تھے - خدیجہ رضی اللہ عنہا كا ہار بھیجا ، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ہار كو دیكھآ تو آپ پر شدید رقت طاری ہوگئی ،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إن رأيتم أن تطلقوا لها أسيرها، وتردوا عليها الذي لها» (أبو داود 2692)(حسن).(اگر تم مناسب سمجھو تو ان کی خاطر و دلداری میں ان کا قیدی چھوڑ دو، اور ان کا مال انہیں لوٹا دو)۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم كی ان سے وفاداری اس حد كو پہنچ گئی تھی كہ عائشہ رضی اللہ عنہا ان سے غیرت كرتی تھيں ، حالانكہ نہ ان سے ملی تھيں اور نہ ہی ان كے ہم عصر تھیں ، جیسا كہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: ما غرت على أحد من نساء النبي صلى الله عليه وسلم، ما غرت على خديجة، وما رأيتها، ولكن كان النبي صلى الله عليه وسلم يكثر ذكرها، وربما ذبح الشاة ثم يقطعها أعضاء، ثم يبعثها في صدائق خديجة، فربما قلت له: كأنه لم يكن في الدنيا امرأة إلا خديجة، فيقول «إنها كانت، وكانت، وكان لي منها ولد» (البخاري 3818، ومسلم 2435).(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام بیویوں میں جتنی غیرت مجھے خدیجہ رضی اللہ عنہا سے آتی تھی اتنی کسی اور سے نہیں آتی تھی حالانکہ انہیں میں نے دیکھا بھی نہیں تھا، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کا ذکر بکثرت فرمایا کرتے تھے اور اگر کوئی بکری ذبح کرتے تو اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے خدیجہ رضی اللہ عنہا کی ملنے والیوں کو بھیجتے تھے۔ میں نے اکثر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا جیسے دنیا میں خدیجہ رضی اللہ عنہا کے سوا کوئی عورت ہے ہی نہیں! اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ وہ ایسی تھیں اور ایسی تھیں اور ان سے میرے اولاد ہے)۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے درمیان عدل و انصاف کے مظاہر۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات كی تكریم اور انہیں مشورہ میں شامل كرنا ۔
اس سے زیادہ اور كیا واضح ہو سكتی ہے جب نبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ كے دن اپنی بیوی ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مشورہ كیا ، جس وقت آپ نے مسلمانوں سے قربانی كرنے اور سرمنڈوانے كا مطالبہ كیا لیكن كسی نے ایسا نہ كیا ،"فدخل على أم سلمة، فذكر لها ما لقي من الناس، فقالت أم سلمة: يا نبي الله، أتحب ذلك؟ اخرج ثم لا تكلم أحداً منهم كلمة، حتى تنحر بُدْنَك، وتدعو حالقك فيحلقك، فخرج فلم يكلم أحداً منهم حتى فعل ذلك؛ نحر بُدْنَه، ودعا حالقه فحلقه، فلما رأوا ذلك قاموا فنحروا، وجعل بعضهم يحلق بعضاً" (البخاري 2731).(جب کوئی نہ اٹھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ام سلمہ کے خیمہ میں گئے اور ان سے لوگوں کے طرز عمل کا ذکر کیا ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا اے اللہ کے نبی! کیا آپ یہ پسند کریں گے کہ باہر تشریف لے جائیں اور کسی سے کچھ نہ کہیں بلکہ اپنا قربانی کا جانور ذبح کر لیں اور اپنے حجام کو بلا لیں جو آپ کے بال مونڈ دے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے۔ کسی سے کچھ نہیں کہا اور سب کچھ کیا ‘ اپنے جانور کی قربانی کر لی اور اپنے حجام کو بلوایا جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مونڈے۔ جب صحابہ نے دیکھا تو وہ بھی ایک دوسرے کے بال مونڈنے لگے )۔