موجودہ قسم مسلم فیملی (مسلم خاندان )
سبق: طلاق
اسلام خاندانی زندگی کے تحفظ کا متمنی ہے، اور میثاق كے ذریعہ ازدواجی تعلقات كی حفاظت فرمائی ہے، اور قرآن نے اسے غلیظ (پختہ و سخت) كے ساتھ بیان كیا ہے ، اوریہ میثاق غلیظ (پختہ عہدو پیمان)وہی عقد نكاح ہے ۔
ازدواجی تعلقات كے تحفظ پر اسلام نے زور دیا ہے ، اور اس نے شوہروں کو ہدایت کی کہ وہ اپنی بیویوں کو روكے ركھیں اور انہیں طلاق نہ دیں،، گرچہ وہ انہیں نا پسند كریں یا ان كے بعض كاموں كو ناپسند كریں ، جیساكہ اللہ تعالی نے فرمایا: {وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا} [النساء: 19]. ( ان کے ساتھ اچھے طریقے سے بودوباش رکھو، گو تم انہیں ناپسند کرو لیکن بہت ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو برا جانو، اور اللہ تعالیٰ اس میں بہت ہی بھلائی کر دے) یہاں تك كہ یہ پختہ میثاق ٹوٹ پھوٹ كا شكار نہ ہو حائے ، اسلام نے میاں بیوی کے درمیان پھوٹ ڈالنے کی کوشش کے خلاف سختی سے تنبیہ کی ہے، اپنے شوہر كے خلاف بیوی كے فساد برپا كرنے كے ذریعہ ، جیسا كہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «ليس منا من خبَّب امرأة على زوجها» (أبو داود 2175)(صحیح)(جو شخص کسی عورت کو اس کے شوہر سے برگشتہ کرے وہ ہم میں سے نہیں) اور خبب كا معنی دھوكا دینا اور فساد مچانا ہے ۔
اسلام کی حقیقت پسندی
حالانکہ اسلام ازدواجی تعلق کو جاری رکھنے کا خواہاں ہے، تاہم یہ ایك حقیقت پسندانہ دین ہے ، یہ كوئی ایسی چیز نہیں لاتا ہے جو لوگوں كی فطرت كے مخالف ہو ، اور ان كی خواہشات پر زبردستی كرے ،اور انہیں ہراساں كرے ،بلكہ وہ ان كے احوال ، احساسات اور ضروریات كا مكمل خیال ركھتا ہے ۔اللہ عزوجل اس بات كو اچھی طرح جانتا ہے كہ ازدواجی زندگي كا جاری ركھنا بہت سی حالتوں میں اس كے ختم كردینے سے كہیں زیادہ ضرر كا باعث ہوتاہے ،اور اسے اس بات كا بھی علم ہے كہ ممكن ہے كہ طلاق كی حاجت ہو ، بلكہ بعض اوقات اس كی ضرورت ہوتی ہے ۔ اسی وجہ سے طلاق كی اباحت میں عظیم حكمت اور لوگوں پر كشادگي ہے ، باوجود اس كے كہ اس میں شدت اور اذیت ہے ۔
طلاق كی مشروعیت
طلاق كی مشروعیت كے سلسلے میں قرآن كریم اور سنت بنویہ میں متعدد نصوص وارد ہوئے ہیں ۔اور بہت سی آیتیں اور حدیثیں آئی ہیں جو اس كے احكام كو منظم كرتی ہیں اور اس كے آداب كو بیان كرتی ہیں ،بلكہ قرآن كی ایك سورت كا نام ہی سورہ طلاق كے نام سے موسوم ہے ۔
لغت میں طلاق كا معنی
یہ پابندی اور رہائی کا حل ہے
شریعت میں طلاق كا معنی
یہ شادی کے بندھن کو فوری طور پر یا بالآخر ایک مخصوص الفاظ کے ساتھ تحلیل کرنا ہے،اور لفظ مخصوص سے مراد صریح ہے ؛جیسے لفظ طلاق ،اور كنایہ جیسے لفظ بائن ، حرام ، آزاد كرنا وغیرہ ، اور جو لفظ كے قائم مقام ہو :تحریر ، قابل فہم اشارہ ، اور لفظ طلاق سے جڑا ہے لفظ "الخلع" اور قاضی كا قول "فرَّقت"جدائی میں ۔
طلاق كے فوائد
طلاق كے چند نقصانات۔
طلاق كی قسمیں
طلاق رجعی
وہی و طلاق ہے جو شوہر اپنی بیوی كو پہلی مرتبہ یا دوسری مرتبہ دے ، اور دوران عدت اسے واپس لوٹانےكا حق ہو ، اس كی اجازت كے بغیر اور عقد جدید كی بھی كوئی ضرورت نہیں ۔
طلاق بائن بینونہ صغری
وہ جو پہلی بار طلاق دی ہو یا دوسری بار طلاق دی ہو ، اور عدت گذر گئی ہو ، تو اس كےلئے رجوع كرنا حلال نہیں ، لیكن نئے عقد كے ساتھ ۔
طلاق بائن بینونہ كبری
یہ وہ طلاق ہے جس میں كہ شوہر نے اسے تین طلاق دے دی ہو، اور شوہر كو مكیت حاصل نہیں كہ وہ اپںی بیوی كو رجوع كرے ، مگر نئے عقد اور نئے مہر كے ساتھ ، بعد اس كے كہ اس نے كسی دوسرے شوہر سے شادی كر لی ہو اور وہ اسے طلاق دے دے ، - اورپہلے شوہر كے پاس اس كے لوٹانے كے غرض كی سابقہ تدبیر نہ ہو- یا وہ وفات پا گیا ہو ۔
رجعت سے متعلق احکام، اور بینونہ صغری ، اور بینونہ كبری اسلامی شریعت کے محاسن کا واضح مظہر ہیں طلاق آخری مطاف نہیں ہے ۔طلاق رجعی كے وقت یا بینونہ صغری كے وقت میاں و بیوی میں سے ہر ایك كو ایك موقع اور كشادہ وقت حاصل ہوتا ہے تاكہ انجام كے متعلق وہ تامل كریں اور نظر ثانی كریں ، سنجیدگی كے ساتھ اور مشكلات كے دباؤ سے دور رہ كر،اور اسی طریقےسے عورت كے اس كے دوسرے شوہر كے طلاق بینونہ كبری دینے كے بعد دونوں فریق كو یہ حاصل ہے كہ وہ دوبارہ واپس آ جائیں ،اور یہ عمدہ اختیار ہے ، بلکہ اکثر یہ تجربہ شادی كی عمارت کو ٹھوس اور مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کا سبب بنتا ہے۔
عدت
وہ مدت جسے شریعت نے جدائی كے بعد تحدید كی ہے ۔موت یا طلاق كے سبب-اس مدت میں عورت بر بلا شادی كے انتظار كرنا واجب ہے یہاں تك وہ مدت ختم ہو جائے ۔
بیوی كا یہ حق ہے كہ وہ عدت شوہر كے گھر میں گذارے ، اور شوہر پر اس كا نان و نفقہ ہے ،اور ایسے ہی وہ میراث كی حقدار ہے جب عدت میں اس كا شوہر فوت ہو جائے اور اس كی عدت میں مردوں كی جانب سے پیغام نكاح دینا حرام ہے ،