تعلیم كو فالو اپ كریں

اب تك آپ نے انڑی كے لئے رجسٹریشن نہیں كیا
اپنی ترقی كے فالواپ كے لئے اور پوائنٹس اكٹھا كرنے كے لئے ،اور مسابقے میں شركت كے لئے منصہ تاء میں فورا رجسٹریشن كریں ،رجسٹرد ہونے كے بعد جن موضوعات كی آپ تعلیم حاصل كررہے ہیں آپ اس كی الكڑانك سرٹیفیكیٹ حاصل كریں گے

موجودہ قسم زكاۃ

سبق: وہ مال جن میں زكاۃ واجب ہے

اموال میں پاكی كی خاطر مال كے مخصوص قسموں پر زكات فرض كی گئی ہے ،آپ اس درس میں جن مالوں میں زكاۃ واجب ہے اس كے متعلق معلومات حاصل كریں گے

جن مالوں میں زكاۃ واجب ہے ان كی معرفت،

وہ كون سے اموال ہیں جن میں زكاۃ واجب ہے ؟

ان چیزوں میں زكاۃ واجب نہیں جنہیں ایك مسلمان خاص اپنی ذات كے فائدے كے لئے استعمال كرتا ہے ،جیسے وہ مكان جس میں وہ رہتا ہے اس كی قیمت جو بھی ہو ،یا وہ كار جسے وہ استعمال كرتا ہے گرچہ وہ پرتعیش ہو ،اور اسی طریقے سے اس كے كپڑے اور كھانے و پینے كی چیزیں ہیں ۔

اللہ نے مال كی ان قسموں میں زكاۃ واجب كی ہے جن میں نمو و بڑھوتری كی فطرت ہے ، اور وہ یہ ہیں :

1- وہ سونے و چاندی جو لباس میں اور زیور پہننے میں استعمال نہ كئے جاتے ہوں

ان دونوں میں اس وقت تك زكاۃ واجب نہیں جب تك كہ یہ شرعی نصاب كو نہ پہنچ جائیں ، اور اس پر ایك ہجری والا ایك سال نہ گذر جائے، اور اس كی مقدار 354 دن ہے ۔

سونے اور چاندی میں زكاۃ كا نصاب حسب ذیل ہے :

١
سونے كا نصاب تقریبا 85 گرام ہے
٢
چاندی كا نصاب 595 گرام ہے

جس مسلمان كی ملكیت میں اس مقدارمیں یا اس سے زیادہ ہو ، سونے اور چاندی سے ، اور اس پر ایك سال گذر گیا ہو تو اس كی زكاۃ ڈھائی فیصد (2.5% )ان دونوں كی قیمت سے نكالی جائےگی ۔

-

2- اموال

اور كیش مال ان تمام مختلف قسم كی كرنسیوں كو شامل ہے چاہے وہ آپ كے ہاتھ میں ہوں یا پھر بینك میں بیلینس كی شكل میں ہوں

مالوں كی زكاۃ كی كیفیت

مسلمان مال و كرنسی كی زكاۃ كانصاب شمار كرے گا۔ جو سونے كی قیمت كے مقابل ہوں گے ، اگر اس كے پاس اتنا مال ہے جو سونے كی نصاب تقریبا 85 گرام كے برابریا اس سے زیادہ ہے اور وہ زكاۃ كے وقت میں ہے ،اور اس كی ملكیت میں اس پر ایك سال گذر گیا ہے تو اس میں سے ڈھائی فیصد (2.5%) كے اعتبار سے اس مال كی قیمت سے زكاۃ ادا كرے گا۔

مال میں زكاۃ كے نصاب كے حساب كی مثال:

فرض كرو جس وقت زكاۃ ادا كرنا واجب ہو اس وقت ایك گرام سونا 25 ڈالر كے مساوی ہو ، تو مال میں زكاۃ كا نصاب اس طرح سے ہوگا ،تو 25 ڈالر كو 85 ڈالر سے ضرب دے دیں تو حاصل آئے گا 2125 ڈالر ، پھر اس میں ڈھائی پرسینٹ كے اعتبار سے نكالیں تو كل ساڑھے باسٹھ ڈالر بنتا ہے ۔

3- سامان تجارت

اور اس سے مراد جو بنیادی طور پر تجارت كے لئے تیار كیا گیا ہو جیسے ریل اسٹیٹ ، بلڈنگس ،یا سامان تجارت جیسے غذائی سامان، صرف والی چیزیں

سامان تجارت میں زكاۃ نكالنے كی كیفیت

آدمی وہ تمام چیزیں جو اس نے تجارت كے لئے تیار كی ہے اور اس پر ایك سال گذر گیا ہے تو اس كی قیمت كے حساب سے زكاۃ ادا كرے گا، اور جس دن وہ زكاۃ نكالنے كا رادہ كرے اسی دن ماركیٹ ریٹ كا اندازہ لگایا جائے گا، اورجب وہ مال زكاۃ كے نصاب كو پہنچ جائے تو اس میں ڈھائی فیصد (2.5%)كے اعتبار سے اس كی قیمت سے زكاۃ دی جائے گی ۔

4- زمین كی پیداوار ، كھیتی ، پھل ، اور دانے :

اللہ تعالی نے فرمایا:(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُمْ مِنَ الْأَرْض) (البقرة: 267).( اور ان میں سے بھی جو ہم نے تمھارے لیے زمین سے نکالی ہیں )

زمین كی پیداوار میں سے محدود قسموں میں زكاۃ واجب ہے ،اور تمام فصلوں میں نہیں ، اس كے لئے شرط ہے كہ وہ شریعت كے متعین كردہ مقداركو پہنچ جائے

اور جو بارش اور ندیوں سے سیراب كیا گیا ہے اس كے درمیان اور جو خرچے سے سیراب كیا گیا ہے ان دونوں میں فرق كیا جائے گا ، لوگوں كے احوال كی رعایت كرتے ہوئے زكاۃ میں سے واجب مقدار پر عمل ہوگا۔

كھیتی كی پیداوار اور پھلوں میں زكاۃ كے وجوب كی شرطیں

1-جب پیداوار نصاب كو پہنچ جائے

نبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن چیزوں میں زكاۃ واجب ہے ان كے نصاب كی تحدید فرمائی ہے ، اور اس سے كم میں زكاۃ واجب نہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ليس فيما دون خمسة أوسق من التمر صدقة" (البخاري 1459، مسلم 980).(انچ وسق سے کم کھجوروں میں زکوٰۃ نہیں )اور یہ ناپنے كا پیمانہ ہے ، لیكن گیہوں اور چاول كے وزن كا اندازہ 612 كلو گرام سے لگایا جائےگا ،اور اگر اس سے كم ہے تو اس میں زكاۃ نہیں۔

2-ان اصناف كی پیداوار میں سے ہو جن میں زكاۃ واجب ہے ۔

اور زكاۃ انہی كھیتی كے پیداوار میں ہے جنہیں اسٹور كیا جاسكے اور وہ خراب نہ ہوں جیسے گیہوں و جو ، كشمش، كھجور ، چاول ، مكئی ، اور رہی بات پھلوں اور تركاریوں كی جنہیں اسٹور نہیں كیا جا سكتا تو ان میں بعینہ زكاۃ نہیں ہے ،جیسے تربوزہ و خربوزہ ، انار ، خس ، آلو وغیرہ۔

3- جب فصل كاٹ لی جائے

جب پھل اور كھیتیاں كاٹی جائیں تو اس میں زكاۃ واجب ہے ،اور اس كا تعلق سال گذرنے سے نہیں ہے ،اس لئے اگر سال میں دوبار فصل كاٹی جائے تو اس كی ہر فصل پرزكاۃ ہے ، اور جب اس كی زكاۃ نكال دے اور اسے كچھ سالوں كے لئے ذخیرہ كردے تو ان سالوں میں اس پرزكاۃ نہیں ہے ۔

5-جانوروں كی شكل میں مال

اور جانوروں كے مال سے مقصود وہ چوپائے ہیں جس سے انسان فائدہ اٹھاتا ہے ، اوربالخصوص وہ اونٹ ، گائے ، اور بكری ہے،

اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر احسان كرتے ہوئے ان چوپایوں كو پیدا فرمایا تاكہ لوگ ان كے گوشت كھائیں ، ان كے اون سے بنے كپڑے پہنیں ، ان پر سوار ہوں اورسفر و كوچ كے دوران ان پر اپنا سامان لادیں ،اللہ تعالی نے فرمایا: (وَالْأَنْعَامَ خَلَقَهَا لَكُمْ فِيهَا دِفْءٌ وَمَنَافِعُ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ • وَلَكُمْ فِيهَا جَمَالٌ حِينَ تُرِيحُونَ وَحِينَ تَسْرَحُونَ • وَتَحْمِلُ أَثْقَالَكُمْ إِلَى بَلَدٍ لَمْ تَكُونُوا بَالِغِيهِ إِلَّا بِشِقِّ الْأَنْفُسِ إِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ) (النحل: 5-7).(اسی نے چوپائے پیدا کیے جن میں تمہارے لیے گرمی کے لباس ہیں اور بھی بہت سے نفع ہیں اور بعض تمہارے کھانے کے کام آتے ہیں [5] اور ان میں تمہاری رونق بھی ہے جب چرا کر ﻻؤ تب بھی اور جب چرانے لے جاؤ تب بھی [6] اور وه تمہارے بوجھ ان شہروں تک اٹھالے جاتے ہیں جہاں تم بغیر آدھی جان کیے پہنچ ہی نہیں سکتے تھے۔ یقیناً تمہارا رب بڑا ہی شفیق اور نہایت مہربان ہے)

چوپایوں میں زكاۃ كی عام شرطیں

١
چوپایوں میں شرعی نصاب ؛چوپائے جب شرعی نصاب كو پہنچ جائیں ، اور یہ صرف مالداروں پر واجب ہے ، لیكن جن كے پاس تھوڑی تعداد ہو جو ان كی ضرورت بھر كی ہو تو اس میں زكاۃ نہیں ہے ،اونٹ میں نصاب پانچ اونٹ ہے ، بكریوں میں چالیس بكری ، اور گایوں میں تیس گائیں ،اگر ان تعدادوں سے كم ہےتو اس میں زكاۃ نہیں
٢
اور یہ كہ مالك كے پاس ان پر پورے قمری ایك سال گذر جائیں
٣
اوروہ چوپائے چھٹا چرنے والے ہوں ، اور یہ گھاس چرتے ہوں ، اور اس كے مالك پر ان كا چارے كا كوئی بوجھ سال بھر سے زیادہ كا نہ ہو۔
٤
اور وہ جانور كام میں استعمال نہ ہوتے ہوں ،یعنی اس كا مالك اسے زمین كی جوتائی میں استعمال كرتاہو یا سامان ڈھونے میں یا سامان لادنے میں استعمال كرتا ہو تو ان میں كوئی زكاۃ نہیں ہے ۔

كامیابی سے آپ نے درس مكمل كیا


امتحان شروع كریں