موجودہ قسم روزہ
سبق: عید الفظر و عیدالاضحی
عید الفطر
وہ ماہ شوال كا پہلا دن ہے ، اور اسلامی كیلینڈر كے اعتبار سے دسواں مہینہ ہے ،اور یہ ماہ رمضان كے آخری دن كے ختم ہونے كے بعد آتی ہے ، اسی وجہ سے اسے عیدالفطر كہتے ہیں،اور اس وجہ سےبھی كہ لوگ اس دن افطار كركےاللہ كی عبادت كرتےہیں ، جیسے كہ وہ ماہ رمضان میں روزہ ركھ كر عبادت كرتے تھے ،اوروہ اللہ كی نعمت اوراس كے فضل كی تكمیل پر كہ اس نے ماہ رمضان كے روزوں كی تكمیل كی انہیں توفیق بخشی اسے شكرانے كے طور عید كا جشن مناتےہیں ، اللہ تعالی كا فرمان ہے (وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُون) (البقرة: 185).( تم گنتی پوری کرلو اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی بڑائیاں بیان کرو اور اس کا شکر کرو )
عیدالفطر كے دن كیا مشروع ہے ؟
عید كےدن اور اس كی رات میں جو شخص اپنی ضرورت سے زیادہ كھانے كامالك ہو تو اللہ نے اس پر واجب كیا ہے كہ ایك صاع اپنے شہر كے كھانے میں سے چاول یا گیہوں یاكھجور مسلمان مساكین و فقراء كے لئے نكالے ،یہاں تك كہ عید كے دن كوئی محتاج نہ بچے۔
رمضان كے آخری دن مغرب سے لیكر نماز عید تك ، اور عید سے ایك یا دو دن پہلے ادا كرنا جائز ہے۔
اہل شہر كے خوراك میں سے ایك صاع گیہوں یا چاول یا كھجور وغیرہ ، اور صاع یہ ناپنے كا پیمانہ ہے ،لیكن وزن سے اس كا اندازہ كرنا موجودہ دور كے پیمانوں میں ٹھیك اترنے كے لئے آسان ہے ، اور ایك صاع وزن كے اعتبار سے تقریباتین كلو گرام ہوتا ہے۔
عید كے دن اپنی ضرورت سے زیادہ كھانا ركھنے والوں پر واجب ہے كہ وہ اپنی اور جن كا نفقہ ان پر لازم ہے جیسے بیوی و اولاد ان كی طرف سے صدقہ فطر نكالیں ،اور ماں كے پیٹ میں رہنے والے بچے كی جانب سے نكالنا مستحب ہے ،تو ہر ایك كی جانب سے اپنے كھانے میں سے تین تین كلو نكالے گا
صدقہ فطر كی حكمت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے روزےدار كو بےہودہ باتوں اورفحش كاموں سے پاك كرنے كےلئے فرض كیا ہے ،یعنی خطا و لغزش سے روزے دار كو پاك كرنے ،اورآداب صیام میں واقع ہونے والی كمی كی تكمیل كے لئے فرض كیا ہے ۔
عیدالاضحی مسلمانوں كی دوسری عید ہے ،جو ماہ ذی الحجہ كے دسویں دن ہوتی ہے ،(ماہ ذی الحجہ اسلامی كلینڈر كا بارہواں مہینہ ہے ) اور اس میں بہت سی فضیلتیں جمع كی گئی ہیں ، انہیں میں سے چند یہ ہیں :
1-وه سال كى سب سے افضل ایام ہیں
سال كے افضل ایام ماہ ذی الحجہ كے ابتدائی دس دن ہیں ،جیسا كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «ما من أيام العمل الصالح فيهن أحب إلى الله من هذه الأيام العشر»، فقالوا: يا رسول الله، ولا الجهاد في سبيل الله؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ولا الجهاد في سبيل الله، إلا رجل خرج بنفسه وماله فلم يرجع من ذلك بشيء» (البخاري 969، الترمذي 757 واللفظ له).(ذی الحجہ کے دس دنوں کے مقابلے میں دوسرے کوئی ایام ایسے نہیں جن میں نیک عمل اللہ کو ان دنوں سے زیادہ محبوب ہوں“، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ کی راہ میں جہاد کرنا بھی نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی راہ میں جہاد کرنا بھی نہیں، سوائے اس مجاہد کے جو اپنی جان اور مال دونوں لے کر اللہ کی راہ میں نکلا پھر کسی چیز کے ساتھ واپس نہیں آیا)
اس میں حج كے عظیم ، اہم اور اشرف افعال ہیں ، جیسے طواف كعبہ ، قربانی كا ذبح كرنا ، جمرہ عقبہ پر پتھر مارنا
عیدالاضحی كے دن كون سی چیزیں مشروع ہیں ؟
غیر حاجیوں كے لئے عیدالاضحی كے دن وہ تمام چیزیں مشروع ہیں جو كہ عید الفطرمیں مشروع ہیں ،سوائے صدقہ فطر كے كیونكہ یہ صرف عیدالفطر كے ساتھ خاص ہے ،اور عیدالاضحی اللہ كی تقرب كی خاطر جانور ذبح كرنے كے استحباب كی وجہ سے امتیازی مقام ركھتا ہے۔
وہ عمل یہ ہیں جو اونٹ ، گائے ، یا بكرے نماز عید كے بعد عیدالاضحی كے دن اللہ كی قربت حاصل كرنے كےلئے ذبح كیے جاتےہیں ،اور یہ عمل ذی الحجہ كی تیرہ تاریخ كے دن مغرب تك جاری رہتا ہے ، اللہ تعالی كا ارشاد ہے : (فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ) (الكوثر: 2)(آپ اپنے رب كے لئے نماز پڑھیں اور قربانی كریں)اور اس كی تفسیر نمازعید اور قربانی سے كی گئی ہے ۔
اس كا حكم
اہل استطاعت پر یہ سنت موكدہ ہے ، توایك مسلمان اسےاپنی اوراپنے گھر والوں كی طرف سے قربانی دےگا
جو قربانی دینا چاہے اس كے لئے مشروع ہے كہ وہ ماہ ذی الحجہ كے پہلے دن سے قربانی كا جانور ذبح كرنے تك نہ اپنا بال اور ناخن اور نہ اپنا چمڑہ كاٹے ۔
قربانی دئے جانے والے جانور كی شرطیں
بكری ، یا گآئے یا اونٹ ہیں ،ان كے علاوہ دوسرے جانوروں یا پرندوں كی قربانی جائز نہیں ،بكری یا بھیڑ یہ آدمی كی اور اس كے گھروالوں كی طرف سے كافی ہے ، یا ایك گائے اور ایك اونٹ میں سات آدمی كا شریك ہونا جائزہے۔
ان كا دركار سال تك پہنچنا
دركار سال: بھیڑ چھ ماہ ، بكرا ایك سال ، گائے دو سال ، اور اونٹ پانچ سال ۔
جانور كا ظاہری عیوب سے محفوظ رہنا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "أربعة لا يجزين في الأضاحي: العوراء البين عورها، والمريضة البين مرضها، والعرجاء البين ظلعها، والكسيرة التي لا تنقي (وهي الهزيلة جداً)" (النسائي 4374، الترمذي 1497).(صحیح)(چار طرح کے جانور جائز نہیں: ایک تو کانا جس کا کانا پن صاف معلوم ہو، دوسرا بیمار جس کی بیماری واضح ہو، تیسرا لنگڑا جس کا لنگڑا پن صاف ظاہر ہو، چوتھا وہ دبلا اور کمزور جانور جس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو)