تعلیم كو فالو اپ كریں

اب تك آپ نے انڑی كے لئے رجسٹریشن نہیں كیا
اپنی ترقی كے فالواپ كے لئے اور پوائنٹس اكٹھا كرنے كے لئے ،اور مسابقے میں شركت كے لئے منصہ تاء میں فورا رجسٹریشن كریں ،رجسٹرد ہونے كے بعد جن موضوعات كی آپ تعلیم حاصل كررہے ہیں آپ اس كی الكڑانك سرٹیفیكیٹ حاصل كریں گے

موجودہ قسم موسم سرما (ٹھنڈی )كے احكام

سبق: عام احكام جو بیشتر موسم سرما میں ہوتے ہیں

یہاں ایسے احكام ہیں اكثر جن كی ضرورت موسم سرما میں ہوتی ہے ، اور یہ سبق ان میں سے چند ایك كو بیش كرے گا

ایسے متعدد احكام و آداب كی جانكاری جن كی اكثر موسم سرما میں ضرورت پیش آتی ہے

سونے كے وقت آگ بجھا دینا

ٹھنڈی كے زمانے میں سونے سے پہلے جو آگ عموما جلائی جاتی ہے اس كے بجھانا ضروری ہے ،اور ایسے ہی ان انگیٹھیوں كا بھي جو آگ بھڑكنے كا سبب بنتے ہیں ،ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مدینہ منورہ میں ایک گھر رات کے وقت جل گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق کہا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آگ تمہاری دشمن ہے اس لیے جب سونے لگو تو اسے بجھا دیا کرو۔(البخاري 6294، ومسلم 2016)اور ایك حدیث میں یوں آیا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جب سونے لگو تو گھر میں آگ نہ چھوڑو۔“(البخاري 6293، ومسلم 2015).

تیز ہوا چلنے كے وقت ایك مسلمان كیا كرے؟

1-ہواوں كے چلانے اور اسے پھیرنے میں اللہ كی قدرت كو یاد كرنا،كبھی وہ ہوائیں گرم تو كبھی ٹھںڈ، كبھی نرم تو كبھی سخت، كبھی شمالی تو كبھی جنوبی ،تو كبھي بارش والی ہوائیں تو كبھی بلا بارش والی ہوائیں ،وغیرہ ، اللہ تعالی كا ارشاد ہے :{إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنْزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِنْ مَاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِنْ كُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ} (البقرة: 164).آسمانوں اور زمین کی پیدائش، رات دن کا ہیر پھیر، کشتیوں کا لوگوں کو نفع دینے والی چیزوں کو لئے ہوئے سمندروں میں چلنا، آسمان سے پانی اتار کر، مرده زمین کو زنده کردینا، اس میں ہر قسم کے جانوروں کو پھیلا دینا، ہواؤں کے رخ بدلنا، اور بادل، جو آسمان اور زمین کے درمیان مسخر ہیں، ان میں عقلمندوں کے لئے قدرت الٰہی کی نشانیاں ہیں

2-وہ اس بات سے ڈرے كہ كہیں وہ عذاب الہی نہ ہو ،‏‏‏‏ بی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے کبھی نہ دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قہقہہ مار کر ہنستے ہوئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلق کا کوا نظر آنے لگتا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ عادت تھی کہ مسکراتے تھے اور جب بدلی کو دیکھتے یا آندھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ میں ڈر معلوم ہونے لگتا، سو میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! میں اور لوگوں کو دیکھتی ہوں کہ وہ جب بدلی کو دیکھتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں، اس امید سے کے اس میں پانی ہو گا۔ اور جب آپ بدلی کو دیکھتے تو آپ کے چہرہ پر ناگواری ظاہر ہوتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عائشہ! مجھے خوف رہتا ہے اس کا کہ کہیں اس میں عذاب نہ ہو اس لئے کہ ایک قوم ہوا ہی کے عذاب سے ہلاک ہو چکی ہے اور جب ایک قوم نے عذاب کو دیکھا تو یوں کہا کہ یہ بدلی ہے ہم پر برسنے والی۔“(مسلم 899).

3-اللہ سے اس میں موجود بھلائی كا سوال كریں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ جب جھونکے کی آندھی آتی تو «اللَّهُمَّ إِنِّى أَسْأَلُكَ خَيْرَهَا وَخَيْرَ مَا فِيهَا وَخَيْرَ مَا أُرْسِلَتْ بِهِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّهَا وَشَرِّ مَا فِيهَا وَشَرِّ مَا أُرْسِلَتْ بِهِ» پڑھتے یعنی ”یا اللہ! میں اس ہوا کی بہتری مانگتا ہوں اور جو اس کے اندر ہے اس کی بہتری۔ اور جو اس میں بھیجا گیا ہے اس کی بہتری اور پناہ مانگتا ہوں اس کی برائی سے اور جو اس کے اندر ہے اور اس کی برائی سے اور جو اس کے ساتھ بھیجا گیا ہے اس کی برائی سے۔“ (مسلم 899).

اور اسے گالی دینے سے بچیں عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک آدمی نے ہوا پر لعنت بھیجی تو آپ نے فرمایا: ”ہوا پر لعنت نہ بھیجو اس لیے کہ وہ تو (اللہ کے) حکم کی پابند ہے، اور جس شخص نے کسی ایسی چیز پر لعنت بھیجی جو لعنت کی مستحق نہیں ہے تو لعنت اسی پر لوٹ آتی ہے“۔(الترمذي 1978(صحیح))، اور ایك دوسری حدیث میں یوں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہوا کو گالی مت دو، (الترمذي 2252(صحیح))امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا : ہوا كو گالی دینا كسی كے لئے بھي مناسب نہیں ،كیونكہ وہ اللہ كی فرمانبردار مخلوق ہے ،اور اللہ كے لشكروں میں سے ایك لشكر ہے ،اللہ اسے كبھی چاہتا ہے تو رحمت اور كبھی عذاب بنا دیتاہے

آسمان میں گرج سننے كے وقت ایك مسلمان كیاعمل كرے؟

عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے كہ جب وہ آسمان میں گرجنے كی آواز سنتے تو بات كرنا چھوڑ دیتے ،اور فرماتے: اللہ كی وہ ذات ہے كہ گرج اس کی تسبیح وتعریف کرتی ہے اور فرشتے بھی، اس کے خوف سے اور یہی القاظ قرآن میں بھی ہیں {وَيُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِهِ وَالْمَلَائِكَةُ مِنْ خِيفَتِهِ وَيُرْسِلُ الصَّوَاعِقَ فَيُصِيبُ بِهَا مَنْ يَشَاءُ وَهُمْ يُجَادِلُونَ فِي اللَّهِ وَهُوَ شَدِيدُ الْمِحَالِ} (الرعد: 13).(گرج اس کی تسبیح وتعریف کرتی ہے اور فرشتے بھی، اس کے خوف سے۔ وہی آسمان سے بجلیاں گراتا ہے اور جس پر چاہتا ہے اس پر ڈالتا ہے کفار اللہ کی بابت لڑ جھگڑ رہے ہیں اور اللہ سخت قوت والا ہے)

بارش كے نزول كے وقت ایك مسلمان كیا كرے؟

اللہ نے بارش كی خوبی بیان كی كہ وہ مبارك ہے ، اللہ جل وعلا نے فرمایا:{وَنَزَّلْنَا مِنَ السَّمَاء مَاء مُّبَـارَكاً} (سورة ق: 9)،( اور ہم نے آسمان سے ایک بہت بابرکت پانی اتارا)اور بارش كے نزول كے وقت یہ عمل كیا جائے 1-انسان اپنے بدن كا كچھ حصہ كھول لے تاكہ بارش كا پانی وہاں پہنچ جائے ،سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم پر برسات ہوئی اور ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے سو کھول دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا کپڑا یہاں تک کہ پہنچا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر مینہ اور ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے ایسا کیوں کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس لئے کہ یہ ابھی اپنے پروردگار کے پاس سے آیا ہے۔“(مسلم 898)

2-دعا ، متعدد آثار میں آیا ہے كہ اس جگہ دعا قبول ہوتی ہے

بارش كے نزول كے وقت اور اس كے بعد كی دعائیں

عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بارش ہوتی دیکھتے تو یہ دعا کرتے «صيبا نافعا» اے اللہ! نفع بخشنے والی بارش برسا (البخاري 1032) اور صیب كہتے ہیں موسلا دھار بارش

اور آپ دعا فرماتے كہ وہ بارش نفع بخش ہو، اس لئے كی بارش تو زیادہ ہو سكتی ہے لیكن نفع بخش نیہں ،اس لئے ایك حدیث میں ہے ‏‏‏‏ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قحط یہ نہیں ہے کہ پانی نہ برسے، قحط یہ ہے کہ پانی برسے اور برسے اور زمین سے کچھ نہ اُگے۔“ (مسلم 2904) اور سنۃ كا مطلب شدید قحط سالی ہے

3-اور بارش كو نزول بارش كے وقت رحمت كہنا مسنون ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قاعدہ تھا کہ جب آندھی اور بدلی کا دن ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر خوف معلوم ہوتا (یعنی عذاب الہٰی سے ڈرتے) اور گھڑی آگے جاتے، گھڑی پیچھے۔ پھر اگر مینہ برس گیا تو خوش ہوتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خوف جاتا رہتا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں ڈرتا ہوں کہ شاید یہ کوئی عذاب نہ ہو جو اللہ نے میری امت پر بھیجا ہو۔“ اور جب مینہ دیکھتے تو فرماتے: ”یہ رحمت ہے۔“(مسلم 899).

4- نزول بارش كے وقت اور اس كے بعد یہ كہنا مسنون ہے : (مُطِرنا بفضل الله ورحمته)، ((اللہ كے فضل اور اسكی رحمت سے ہم پر بارش ہوئ)زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حدیبیہ میں صبح کی نماز پڑھائی اور رات کو بارش ہو چکی تھی نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی طرف منہ کیا اور فرمایا معلوم ہے تمہارے رب نے کیا فرمایا ہے۔ لوگوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول خوب جانتے ہیں (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ) تمہارے رب کا ارشاد ہے کہ صبح ہوئی تو میرے کچھ بندے مجھ پر ایمان لائے۔ اور کچھ میرے منکر ہوئے جس نے کہا کہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہمارے لیے بارش ہوئی تو وہ میرا مومن ہے اور ستاروں کا منکر اور جس نے کہا کہ فلاں تارے کے فلانی جگہ پر آنے سے بارش ہوئی وہ میرا منکر ہے اور ستاروں کا مومن۔(البخاري 846، ومسلم 71).

كثرت بارش كی وجہ سے اگر ڈر لاحق ہوجائے تو كیا كرے؟

جب خوب بارش ہو اور اس سے نقصان كا اندیشہ ہو جائے تو اپنے دونوں ہاتھوں كو اٹھا كر دعا كرنا مستحب ہے ، اور انہیں میں سے یہ دعائیں آئی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کی «اللهم حوالينا ولا علينا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ اللهم على الآكام والظراب وبطون الأودية ومنابت الشجر» اے اللہ! ہمارے اطراف میں بارش برسا (جہاں ضرورت ہے) ہم پر نہ برسا۔ اے اللہ! ٹیلوں پہاڑیوں وادیوں اور باغوں کو سیراب کر۔ (البخاري 1014، ومسلم 897).

كامیابی سے آپ نے درس مكمل كیا


امتحان شروع كریں