تعلیم كو فالو اپ كریں

اب تك آپ نے انڑی كے لئے رجسٹریشن نہیں كیا
اپنی ترقی كے فالواپ كے لئے اور پوائنٹس اكٹھا كرنے كے لئے ،اور مسابقے میں شركت كے لئے منصہ تاء میں فورا رجسٹریشن كریں ،رجسٹرد ہونے كے بعد جن موضوعات كی آپ تعلیم حاصل كررہے ہیں آپ اس كی الكڑانك سرٹیفیكیٹ حاصل كریں گے

موجودہ قسم ایمان

سبق: دلوں میں خرافات كی جنگ

اسلام فطرت سلیم اور عقل صحیح كا دین ہے ،اس وجہ سے وہ خرافات اور اوہام كے تمام انواع و اقسام سے جنگ كرتا ہے جو لوگوں كے دین و دنیا كو خراب و برباد كرتے ہیں ،اس سبق میں اسی كے متعلق آپ جانكار حاصل كریں گے

  • خرافات اور اوہام كے متعلق اسلام كے موقف كی جانكاری
  • چند باطل اعتقادات كے بارے میں اسلام كے حكم كی جانكاری

اسلام كی آمدسے پہلے عرب اور عام امتیں قصوں ، خرافات اور اوہام كا یرغمال تھيں اور یہ زمین كے تمام گوشوں میں پھلی تھيں یہاں تك كہ قبیلوں میں سے كوئی قبیلہ اس محفوظ نہیں تھا ،یہاں تك شروع شروع میں عرب نے قرآن كے متعلق یہ گمان كرلیا كہ یہ پرانے لوگوں كے قصے یا جادو كے قبیل سے ہے

جب اسلام اپنے نو ر و ہدایت كے ساتھ سایہ فگن ہوا تو اس نے اوہام و قصے اور خرافات كی بندش اور غلامی سے عقل كو آزادی بخشی ، اور ایسے ضوابط و قوانین فراہم كئے جس نے عقل و روح پاك و صاف كردیا ،اور انہیں سب سے ہٹا كے صرف ایك اللہ سے جوڑدیا ،اور اسی میں سے یہ ہے :‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬

جادو اور جھاڑپھونك سے جنگ:

اسلام نے جادو ،جھاڑو پھونك اور كہانت اور ان كے جملہ انواع و اقسام كو حرام قرار دیا ، اور اسے شرك و گمراہی كی قسمیں قرار دیا،اور اس با ت سے آگاہ كیا كہ جادوگر دنیا و آخرت میں كہیں بھی كامیاب نہیں ہو سكتا، جیسا كہ اللہ تعالی نے فرمایا: (وَلَا يُفْلِحُ السَّاحِرُ حَيْثُ أَتَى) (طه: 69).(اور جادوگر کامیاب نہیں ہوتا جہاں بھی آئے)

اسی طرح سے ایك مسلمان پر جادوگروں ، كاہنوں كے پاس جانے اور ان سے پوچھنے اور شفا یا علاج طلب كرنے اور ان سے مشكلات حل كرانے كو حرام كردیا گیا ہے ،اور كرنے والے كو بتایا ہے كہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل كردہ شریعت كا انكار كرنے والا ہے ،كیونكہ نفع و نقصان اللہ كے ہاتھ میں ہے ،اور غیب كو صرف اللہ ہی جانتا ہے ،جیسا كہ اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «من أتى عرَّافاً أو كاهناً فصدَّقه فيما يقول، فقد كفر بما أُنزِل على محمد صلى الله عليه وسلم» (مستدرك الحاكم: 15).”جو كوئی كسی نجومی یا كاہن كے پاس آئے اور اس كی بات كی تصدیق كرے ،تویقینا اس نے محمد پر نازل كردہ شریعت كا انكار كیا “ ۔

نفع اور نقصان الله سبحانه كے ہاتھ میں ہے

اللہ تعالی نے یہ واضح كیا ہے كہ تمام مخلوقات چاہے وہ انسان ہوں یا جن ،درخت ہوں یا پتھر یا سیارے یہ جتنے بڑے كیوں نہ ہوں سب كے سب اللہ كی ایسی نشانیاں ہیں جواللہ سبحانہ تعالی كے عظمت خلقت پر دلالت كرتی ہیں ،اور كوئی انسان ایسا نہیں ہے جو كائنات میں اثر انداز ہونے والی سپر پاور ركھتا ہو، اس لئے پیدا كرنا، حكم صادر كرنا ، قدرت ، اور تدبیر كرنا یہ سب اللہ كے حكم سے ہے ،جیسا كہ اللہ تعالی نےفرمایا: (أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ تَبَارَكَ اللهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ) (الأعراف: 54).(سن لو! پیدا کرنا اور حکم دینا اسی کا کام ہے، بہت برکت والا ہے اللہ جو سارے جہانوں کا رب ہے)

جوشخص ان مخلوقات كی عظمت اور اس كی كاریگری كی باریكی پر غور كرے گا تو اسے یہ معلوم ہو جائے گا كہ ان سب كا خالق وہی رب ، قادر، اور مدبر ہے جس كے لئےسب كو چھوڑ كر ہر قسم كی عبادتوں كو اسی كی طرق پھیرنا واجب ہے ،تو حقیقت میں وہی خالق ہے اور اس كے سوا جتنے ہیں سب مخلوق ہیں ، جیسا كہ اللہ تعالی نے فرمایا: (وَمِنْ آيَاتِهِ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ) (فصلت: 37).(اور دن رات اور سورج چاند بھی (اسی کی) نشانیوں میں سے ہیں، تم سورج کو سجده نہ کرو نہ چاند کو بلکہ سجده اس اللہ کے لیے کرو جس نے ان سب کو پیدا کیا ہے، اگر تمہیں اس کی عبادت کرنی ہے تو)

غیب كو اور مستقبل كو اللہ كے سوا كوئی نہیں جانتا

اللہ تعالی نے یہ بتایا ہے كہ غیب و مستقبل كا علم صرف اللہ كو ہے ،اور جس نے كاہنوں اور ٹونا كرنے والوں كو غیب داں گمان كیا وہ جھوٹا ہے ، جیسا كہ اللہ كا فرمان ہے : (وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ) (الأنعام: 59).(اور اسی کے پاس غیب کی چابیاں ہیں، انھیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا )

بلكہ مخلوق كے سب سے افضل و اشرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنے نفس كے لئے نفع و نقصان كے مالك نہیں تھے، اور نہ ہی مستقبل اور غیب كے علم داں تھے ، تو بھلا وہ كیسے ہو سكتا ہے جو آپ سے شرف ومنزلت میں كمتر ہو،جیسا كہ اللہ تعالی نے فرمایا:(قُلْ لَا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللهُ وَلَوْ كُنْتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ) (الأعراف: 188).( آپ فرما دیجئے کہ میں خود اپنی ذات خاص کے لیے کسی نفع کا اختیار نہیں رکھتا اور نہ کسی ضرر کا، مگر اتنا ہی کہ جتنا اللہ نے چاہا ہو اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو میں بہت سے منافع حاصل کر لیتا اور کوئی نقصان مجھ کو نہ پہنچتا میں تو محض ڈرانے واﻻ اور بشارت دینے واﻻ ہوں ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہیں)

بدشگونی اور بد فالی كی حرمت

اسلام نے چیزوں سے ، رنگوں سے ، باتوں سے اور اسی جیسی چیزوں سے بدشگونی و بدفالی لینے كو حرام قرار دیا ہے ،اور نیك شگون ، اور مستقبل میں مثبت نظر كو مشروع و جائز كیا ہے

بدشگونی كی مثال:جو اپنے سفر یا ٹرپ سے بد شگونی لے ، اس طرح سے كہ اپنے سفر كے آغاز میں جب وہ پرندوں میں سے كسی قسم كے پرندے كو دیكھے یا اس كی آواز سنے تو سفر سے رك جائے یا اسے كامل نہ كرے،اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان كیا ہے كہ وہ شرك ہے ،آپ نے فرمایا: "الطيرة شرك" (أبو داود 3910، ابن ماجه 3538)(صحیح)(بدشگونی شرک ہے)اس لئے كہ یہ ایك مسلمان كے پختہ ایمان كے مخالف ہے ،كیونكہ اللہ ہی كائنات كا چلانے والا اور تنہا غیب داں ہے ، تو اسلام نے بدشگونی كو حرام قرار دیا ،اور اسے بھي كہ محض دیكھنے سے شرواقع ہو جائے یا پرندوں میں سے كسی خاص نوع كے پرندے كی یا جانوروں كی آواز سننے سے شر واقع ہوجائے یہ سب حرام ہے

بدشگونی كے مقابل میں نیك فال جائزہے ،اور وہ الفاظ جو اس پر دلالت كرتےہیں ،اور بھلائی كی توقع اور اللہ كے ساتھ حسن ظن كو جائز ركھا گیا ہے ، اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرمات تھے : "يُعْجِبُنِي الْفَأْلُ: الْكَلِمَةُ الْحَسَنَةُ، الْكَلِمَةُ الطَّيِّبَةُ" (البخاري: 5776، مسلم: 2224).( البتہ نیک فال مجھے پسند ہے۔ صحابی نے عرض کیا نیک فال کیا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھی بات منہ سے نکالنا یا کسی سے سن لینا)

كامیابی سے آپ نے درس مكمل كیا


امتحان شروع كریں