موجودہ قسم ایمان
سبق: آسمانی كتابوں پر ایمان
پختہ تصدیق كہ اللہ كی كتابیں ہیں جنہیں اس نے اپنے رسولوں پر نازل فرمایا ہے تاكہ وہ كتابیں وہ اللہ كےبندوں تك پہونچا دیں ،اور یہ كتابیں كلام الہی ہیں جسے اللہ نے حقیقت میں گفتگو كیا ہے جو اس كے شایان شان ہے ،اور ان كتابوں میں دارین میں لوگوں كے لئے حق ،نور ، ہدایت اور سعادت مندی ہے
كتابوں پر ایمان لانے كی اہمیت
كتابوں پر ایمان اركان ایمان كا ایك ركن ہے ،جیسا كہ اللہ تعالی نے فرمایا: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا آَمِنُوا بِاللهِ وَرَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَى رَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي أَنْزَلَ مِنْ قَبْل)(النساء: 136).(ے لوگو جو ایمان لائے ہو! ایمان لائو اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول پر نازل کی اور اس کتاب پر جو اس نے اس سے پہلے نازل کی )اللہ تعالی نے اپنے اوپر اور اپنے رسول كے اوپر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو كتاب نازل كی گئی ہے یعنی قرآن پرایمان لانے كا حكم دیا ہے ،ایسے ہی جیسے كہ اللہ نے قرآن سے پہلے نازل شدہ كتابوں پر ایمان لانے كا حكم دیا ہے
اور رسول اللہ نے ایمان كے متعلق فرمایا:ایمان یہ ہے کہ تو یقین کرے (دل سے) اللہ پر، فرشتوں پر (کہ وہ اللہ تعالیٰ کے پاک بندے ہیں اور اس کا حکم بجا لاتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کو بڑی طاقت دی ہے) اور اس کے پیغمبروں پر (جن کو اس نے بھیجا خلق کو راہ بتلانے کے لئے) اور پچھلے دن پر (یعنی قیامت کے دن پر جس روز حساب کتاب ہو گا اور اچھے اور برے اعمال کی جانچ پڑتال ہو گی) اور یقین کرے تو تقدیر پر کہ برا اور اچھا سب اللہ پاک کی طرف سے ہے
كتابوں پر ایمان لانا كن چیزوں كو شامل ہے ؟
كتب سابقہ میں جو كچھ ہے اس كے متعلق ہمارا كیا موقف ہے ؟
ایك مسلمان یہ ایمان ركھتا ہے كہ تورات جو موسی علیہ السلام پر اتاری گئی ہے ، اور انجیل جو عیسی علیہ السلام پر اتاری گئی ہے یہ اللہ كی جانب سے برحق ہیں ،اور یہ دونوں احكام ومواعظ ، اور وہ اخبار جس میں ہدایت ہے اور لوگوں كے معاش ، ان كی حیات اور ان كی آخرت كے لئے نور ہے ان سب پر مشتمل ہیي۔لیكن اللہ نے ہمیں قرآن كریم میں بتایا ہے كہ اہل كتاب میں سے یہودونصاری نے اپنی كتابوں میں تحریف كرڈالی ہے، اور اسمیں بڑھایا اور گھٹایا ہے ،اس لئے وہ اللہ كے نازل شدہ انداز میں باقی نہیں بچا
موجودہ تورات ابھي وہ تورات نہیں ہے جسے اللہ نے موسی علیہ السلام پراتارا تھا ،اس لئے كہ یہود نے اس میں تحریف و تبدیل كرڈالی اور اس كے بہت سے احكام سے كھلواڑ كر ڈالی ہے ،جیسا كہ اللہ تعالی كا فرمان ہے : (وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقًا يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتَابِ لِتَحْسَبُوهُ مِنَ الْكِتَابِ وَمَا هُوَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَقُولُونَ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ وَمَا هُوَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ وَيَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَهُمْ يَعْلَمُونَ) (آل عمران:78).( یقیناًان میں ایسا گروه بھی ہے جو کتاب پڑھتے ہوئے اپنی زبان مروڑتا ہے تاکہ تم اسے کتاب ہی کی عبارت خیال کرو حاﻻنکہ دراصل وه کتاب میں سے نہیں، اور یہ کہتے بھی ہیں کہ وه اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے حاﻻنکہ در اصل وه اللہ تعالی کی طرف سے نہیں، وه تو دانستہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولتے ہیں)
اور ایسے ہی موجودہ انجیل وہ انجیل نیہں ہے جسے اللہ نے عیسی علیہ السلام پراتارا تھا ،نصاری نے انجیل میں تحریف كردی ، اور اس كے بہت سے احكام بدل ڈالے ،اللہ تعالی نےنصاری كے متعلق فرمایا: (وَمِنَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَى أَخَذْنَا مِيثَاقَهُمْ فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ فَأَغْرَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَسَوْفَ يُنَبِّئُهُمُ اللَّهُ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ) (المائدة:14).( اور جو اپنے آپ کو نصرانی کہتے ہیں ہم نے ان سے بھی عہد وپیمان لیا، انہوں نے بھی اس کا بڑا حصہ فراموش کر دیا جو انہیں نصیحت کی گئی تھی، تو ہم نے بھی ان کے آپس میں بغض وعداوت ڈال دی جو تاقیامت رہے گی اور جو کچھ یہ کرتے تھے عنقریب اللہ تعالیٰ انہیں سب بتا دے گا)
اسی وجہ سے ہم پاتے ہیں كہ بروقت نصاری كے ہاتھ میں جسے وہ كتاب مقدس كا نام دیتے ہیں اور تورات و انجیل كے جو مضامین ہیں وہ بہت سے فاسد عقائد ، باطل اخبار، اور جھوٹے قصے و حكایات پر مشتمل ہے
ہمارے اس پر ایمان كے باوجود یہ ہے كہ بروقت موجودہ تورات و انجیل كو تحریف و تبدیل لاحق ہوئی ہے ،جیسا كہ قرآن نے خبر دی ہے ،اس كے باوجود ایك مسلمان ان دونوں كا احترام كرتا ہے ،ان كی اہانت نہیں كرتا ہے ،اور نہ ہی ان دونوں كے ناپاك كرتاہے، اس لئے كہ ان دونوں میں ابھی بھي ایسے مضامین ہیں جو اللہ كے كلام كے بچے ہوئے حصے ہیں جن كی تحریف نہیں ہوئی ہے
قرآن كریم كے تئیں ہمارا كیا فرض بنتا ہے؟
جب ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے اخلاق كے بارے میں سوال كیا گیا توانہوں نے فرمایا: "كان خلقه القرآن" (أحمد 24601).(آپ صلی اللہ علیہ وسلم كا اخلاق قرآن ہے )
حدیث كا مطلب:یہ ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی اور اعمال واقوال میں قرآن كے احكام اور اس كی شرائع كے عملی شكل تھے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن كی ہدایت كے كامل اتباع كو ثابت كردكھایا ، اور آپ ہم میں سے ہر شخص كے لئےتہترین نمونہ ہیں جیسا كہ اللہ نے فرمایا : (لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللهَ وَالْيَوْمَ الْآَخِرَ وَذَكَرَ اللهَ كَثِيرًا) (الأحزاب: 21).( یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ میں عمده نمونہ (موجود) ہے، ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعالیٰ کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کی یاد کرتا ہے)
دنیا كے مختلف گوشوں میں حفاظ قرآن كی مختلف زبان و حالات كے الگ الگ ہونے كے باوجود قرآن كریم كی تلاوت اور حفظ كا آسان ہونا اس كتاب عظیم كےمحفوظ كرنے كے بارے میں سب سے بڑی دلیل ہے
قرآن كریم كی خوبیاں و خصوصیات:
قرآن كریم اللہ كا كلام ہے جوہمارے نبی و قدوہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل كی گئی ہے ،یہیں سے یہ ہے كہ مومن اس كتاب كی تعظیم كرتاہے،اوراس كے احكام ، تلاوت اور اس میں تدبر كو تھامنے كی كوشش كرتاہے ،اور ہماری سوچ ہے كہ دنیامیں وہ ہمارا ہادی ہے،اور آخرت میں ہماری كامیابی كا سبب ہے ،اور قرآن كریم بہت سی خوبیاں اور متعدد خصوصیات ہیں جن میں وہ تمام سابقہ آسمانی كتابوں میں منفرد و یگانگہ روزگآرہے، انہیں میں سے چند یہ ہیں :
1-قرآن كریم احكام الہی كو شامل ہے
كتب سابقہ میں ایك اللہ كی عبادت كا جوحكم آیا ہے یہ قرآن آكر اس كی تائید و تصدیق كرتاہے ،جیسا كہ اللہ كا ارشاد ہے : (وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقاً لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ وَمُهَيْمِناً عَلَيْه) (المائدة: 48).( اور ہم نے آپ کی طرف حق کے ساتھ یہ کتاب نازل فرمائی ہے جو اپنے سے اگلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور ان کی محافﻆ ہے) اور آیت (مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَاب)كا مطلب ہے كتب سابقہ میں آئی ہوئی خبروں اور اعتقادات كی موافقت كرنے والا ہے ،اور آیت (وَمُهَيْمِنًا عَلَيْه):كا مطلب ہے امیین و شاہدہے اپنے سے پہلی كتابوں كا
2-مختلف زبان و رنگ و نسل كے باوجود تمام لوگوں كا قرآن پر ایمان لانا واجب ہے
اور اس كے تقاضوں كے مطابق عمل كرنا واجب ہے گرچہ نزول قرآن كے وقت سے ان كے زمانےمیں كافی تاخیر ہو ،كتب سابقہ كے برخلاف كیونكہ وہ ایك متعین وقت اور مخصوص قوم كے لئے نازل كی گئیں تھیں ، اللہ كا ارشاد ہے: (وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَذَا الْقُرْآَنُ لِأُنْذِرَكُمْ بِهِ وَمَنْ بَلَغَ) (الأنعام: 19). (اور میرے پاس یہ قرآن بطور وحی کے بھیجا گیا ہے تاکہ میں اس قرآن کے ذریعے سے تم کو اور جس جس کو یہ قرآن پہنچے ان سب کو ڈراؤں )
3-اللہ تعالی نے قرآن كریم كی حفاظت كی ذمہ داری خود لے لی ہے
قرآن كی طرف تحریف كا ہاتھ نہی دراز ہوا،اور نہ ہی مستقبل میں كبھی دراز ہوگا، جیساكہ اللہ نے فرمایا ہے : (إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ)(الحجر: 9)(ہم نے ہی اس قرآن کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کے محافﻆ ہیں) اور اسی وجہ سے اس كے تمام اخبار صحیح ہیں ، اور واجب التصدیق ہیں