موجودہ قسم مالی لین دین
سبق: وقف (اصل كو روك لینا اوراس كا فائدہ ثواب كے لئے خیرات كردینا )۔
اہل ثروت میں سے بعض لوگ جنہیں اللہ نے وسعت سے نوازا ہے ان كی خواہش ہوتی ہے كہ وہ اپنے عینی اموال میں سے كچھ وقف كردیں -جس كی اصل باقی رہے اور اس كے منافع جاری رہیں - جس كا منافع نیكی كی راہوں میں صرف كرتے رہیں ،تاكہ اپنی زندگی میں اور مرنے كے بعد اس كے ذریعہ نیكیاں كماتے رہیں ، اور اس وقف سے ضرورت مندوں كو بڑے منافع حاصل ہوتے رہیں ۔
اور وقف كہتے ہیں اصل مال كو روكنا اور اللہ عزوجل كی جانب سے ثواب كے لئے اس كے منافع كو خیرات كردینا۔
وقف كا حكم
وقف مستحب ہے ، اور یہ افضل صدفات میں سے ہے ، اور تقرب ، نیكی ، اور احسان كے عظیم اعمال میں سے ہے ، باعتبار نفع عام اور باعتبارفائدہ بہت ہے ، كیونكہ اس كا ان اعمال سے تعلق ہے جو موت كے بعد ختم ہونے والا نہیں ۔
وقف كی حكمت
وقف كو اللہ نے مشروع كیا كیونكہ اس میں دین و دنیا اورآخرت كے مفادات ہیں ، اس لئے بندہ اللہ كی خوشنودی كی تلاش میں اپنے مال كو وقف كركے اپنے اجر كو بڑھا لیتا ہے ، اور اس كی نیكیاں مرنے كے بعد بھی جاری رہتی ہیں ، اور جس كے نام مال وقف كیا جاتا ہے وہ اس مال سے فائدہ اٹھاتا رہتا ہے ، اور صاحب وقف كےلئے دعائیں دیتا رہتا ہے ، اس سے معاشرہ مزید مربوط ہو جاتا ہے ۔
وہ افضل صدقات میں سے ہے ؛ كیونكہ یہ دائم و ثابت برو احسان كی شكلوں میں سے ایك صدقہ ہے ۔
اللہ تعالی نے فرمایا: {لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ} [آل عمران: 92].( جب تک تم اپنی پسندیده چیز سے اللہ تعالیٰ کی راه میں خرچ نہ کروگے ہرگز بھلائی نہ پاؤ گے، اور تم جو خرچ کرو اسے اللہ تعالیٰ بخوبی جانتا ہے)۔
ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں : أَصَابَ عُمَرُ بِخَيْبَرَ أَرْضًا، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَصَبْتُ أَرْضًا لَمْ أُصِبْ مَالًا قَطُّ أَنْفَسَ مِنْهُ، فَكَيْفَ تَأْمُرُنِي بِهِ؟ قَالَ: «إِنْ شِئْتَ حَبَّسْتَ أَصْلَهَا وَتَصَدَّقْتَ بِهَا»، فَتَصَدَّقَ عُمَرُ أَنَّهُ لاَ يُبَاعُ أَصْلُهَا وَلاَ يُوهَبُ وَلاَ يُورَثُ؛ فِي الفُقَرَاءِ، وَالقُرْبَى، وَالرِّقَابِ، وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَالضَّيْفِ وَابْنِ السَّبِيلِ، لاَ جُنَاحَ عَلَى مَنْ وَلِيَهَا أَنْ يَأْكُلَ مِنْهَا بِالْمَعْرُوفِ، أَوْ يُطْعِمَ صَدِيقًا غَيْرَ مُتَمَوِّلٍ فِيهِ. (البخاري 2772، ومسلم 1632).(عمر رضی اللہ عنہ کو خیبر میں ایک زمین ملی (جس کا نام ثمغ تھا) تو آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ مجھے ایک زمین ملی ہے اور اس سے عمدہ مال مجھے کبھی نہیں ملا تھا ‘ آپ اس کے بارے میں مجھے کیا مشورہ دیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر چاہے تو اصل جائیداد اپنے قبضے میں روک رکھ اور اس کے منافع کو خیرات کر دے۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے اسے اس شرط کے ساتھ صدقہ (وقف) کیا کہ اصل زمین نہ بیچی جائے، نہ ہبہ کی جائے اور نہ وراثت میں کسی کو ملے اور فقراء، رشتہ دار، غلام آزاد کرانے ‘ اللہ کے راستے (کے مجاہدوں) مہمانوں اور مسافروں کے لیے (وقف ہے) جو شخص بھی اس کا متولی ہو اگر دستور کے مطابق اس میں سے کھائے یا اپنے کسی دوست کو کھلائے تو کوئی مضائقہ نہیں بشرطیکہ مال جمع کرنے کا ارادہ نہ ہو)۔
وقف كی قسمیں
گویا كہ كوئی شخص مسجد وقف كرے ، یا طلاب كے لئے مدرسہ وقف كرے ، یا كمزوروں ، محتاجوں ،اور یتیموں اور بیواؤں كے لئے گھر وقف كرے ، یا اسی طرح سے ۔
كوئی گھر بنائے اور اسے اپنے وارثین كے لئے وقف كردے ، یا كوئی مزرعہ (كاشت كی زمین ) وقف كردے اوراس كے غلے كو ان كے لئے وقف كردے۔
دو امر سے وقف لاگو اور صحیح ہو جائے گا
وقف كی شرطیں
اوفاف كے لئے كسی مقدار كی تحدید نیہں ، لیكن یہ لوگوں كی مالداری اور وسعت كی حالت كو دیكھتے ہوئے بدلتا رہے گا ، تو ایسا مالدار جس كا كوئی وارث ہی نہ ہو تو وہ اپنا سارا مال وقف كرسكتا ہے ، اور جو شخص كہ مالدار ہو لیكن اسے ورثہ موجود ہوں تو وہ اپنے مال كا بعض حصہ وقف كرے گا اور باقی ورثہ كے لئے چھوڑ دے گا۔
اوقاف مطلق اور ہمیشہ كےلئے اللہ عزوجل كے لئے ہے ، اور اسی كی مدت كی كوئی حد بندی نہیں ، تو جس نے اللہ كی خاطر زمین یا گھر یا كاشت كی زمین وقف كردی تو وہ اس كے تصرف اور ملكیت سے نكل جاتا ہے ، تو وہ نہ بیچي جاسكتی ہے، اور نہ ہی ہبہ كی جاسكتی ہے، اور نہ ہی اسے وراثت میں دی جاسكتی ہے ، اور نہ ہی اسے واپسی كے لئے مطالبہ كیا جاسكتا ہے ، اور نہ ہی وارثین كو اسے بیچنے كا حق ہے ، اس لئے كہ وہ وارث بنانے كی ملكیت سے نكل چكا ہے ۔
جب آدمی وقف كا لفظ بولے یا فعل وقف جو وقف كی طرف اشارہ كرے تو اس سے وقف لازم ہو جاتا ہے، اور موقوفہ چیز كی قبولیت كےلئے وقف كے ثبوت كی ضرورت نہیں رہتی ، اور نہ ہی حاكم وقت كی اجازت كی ضرورت ہوتی ، اور جب وقف ثابت ہو جائے تو اس میں ایسا تصرف كرنا جائز نہیں جس سے اس كی وقف ہونا زائل ہوجائے ،
اللہ تبارك و تعالی پاك ہے اور پاكیزگی كو قبول فرماتا ہے، اس لئے جب كوئی شخص كوئی چیز اللہ كی رضا كی خاطر وقف كرنا چاہے تو اس كے لئے بہتر ہے كہ وہ اپنے پاس موجود عمدہ و نفیس اور پسندیدہ مال سے انتخاب كرے، اور یہی كامل نیكی اور احسان ہے ۔
وقف كا افضل باب یہ ہے كہ ہر زمانےاور ہر جگہ اس كا منافع مسلمانوں كے لئے عام ہو ، جیسے مساجدپر وقف كرنا، یا طلبہ پر وقف كرنا،اللہ كی راہ كے مجاہدین پر اوررشتہ داروں اور مسلمانوں كے كمزور و محتاج لوگوں پر وقف كرنا۔