تعلیم كو فالو اپ كریں

اب تك آپ نے انڑی كے لئے رجسٹریشن نہیں كیا
اپنی ترقی كے فالواپ كے لئے اور پوائنٹس اكٹھا كرنے كے لئے ،اور مسابقے میں شركت كے لئے منصہ تاء میں فورا رجسٹریشن كریں ،رجسٹرد ہونے كے بعد جن موضوعات كی آپ تعلیم حاصل كررہے ہیں آپ اس كی الكڑانك سرٹیفیكیٹ حاصل كریں گے

موجودہ قسم ایمان

سبق: انسان اسلام میں كیسے داخل ہوتا ہے

انسان كے اسلام میں داخل ہونے كا لمحہ اس كی زندگی كے عظیم لمحات میں سے ہوتا ہے ، اپنی حقیقی پیدائش كو اس زندگی میں اپنے وجود كے سبب كو جاننے كے بعد جانا ،یہ درس مسلمان ہونے كے لئے ایك آدمی كی جتنی ضرورت ہے اتنا شامل ہے ، تاكہ وہ اس دین عظیم میں داخل ہوسكے ۔

  • اسلام میں داخل ہونے كی كیفیت كی جانكاری۔
  • توبہ كی اہمیت اور اس پر ثابت قدم رہنے كے اسباب كی جانكار۔

اسلام میں انسان داخل ہوتاہے جب وہ شہادتین كے معنی كو جان كر ، اس پر یقین كركے ، اور ان كی دلالت كو تسلیم كرتے ہوئے كلمہ پڑھتا ہے

دونوں شہادت یہ ہیں :

١
أشهد أن لا إله إلا الله یعنی میں گواہی دیتا ہوں اور یہ عقیدہ ركھتا ہوں كہ اللہ كے علاوہ كوئی برحق معبود نہیں، میں اسی كی عبادت كروں گا جو تنہا ہے اور اس كا كوئی شریك نہیں ہے
٢
وأشهد أن محمداً رسول الله یعنی میں گواہی دیتا ہوں كہ محمد اللہ كے تمام لوگوں كی طرف بھیجے گئے رسول ہیں ،آپ كے احكام كی پیروی كرتے ہوئے ، اور آپ كے منع كردہ كاموں سے اجتناب كرتے ہوئے،اور میں آپ كی شریعت اور سنت كے مطابق اللہ كی عبادت كروں گا ۔

نئے مسلمان كا غسل كرنا:

اسلام میں انسان كے داخل ہونے كا لمحہ یہ اس كی زندگی كے عظیم لمحات ہیں ،اوریہ اس كی حقیقی پیدائش ہے اس زندگی میں اس كے وجود كا سبب اسے بعد میں پتہ چلا ہے ، اور وہ اپنے دین میں داخل ہوتے ہی شروع غسل سے كرےگا ، اپنے پورے بدن پر پانی ڈالے گا ، جیسا كہ اس نے اپنے باطن كو شرك اور معصیت سے پاك كیا ہے ،اس كے لئے یہ اس كے لئے مستحب ہے كہ وہ پانی سے غسل كركے اپنے ظاہری حصے كو بھی پاك كرے

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےایك صحابی كو حكم دیا _وہ عرب كے سرداروں میں سے تھے_جب انہوں نے اسلام میں داخل ہونے كا ارادہ كیا كہ وہ غسل كرلیں (البيهقي 837).

توبہ

توبہ وہی اللہ كی طرف لوٹنا اور واپس آناہے ،تو ہر وہ شخص جس نے اپنی معصیت اور كفر سے نكل گیا اور صدق دل سے اللہ كے پاس واپس آگیا تو یقینا اس نے اللہ سے توبہ كرلی

توبہ كے صحیح ہونے كے شروط

١
معصیت چھوڑدینا :معصیت سے توبہ درست نہیں جب تك كہ بحالت توبہ برابر فعل معصیت كرتا رہے ، یا تو توبہ صحیحہ كے بعد گناہ كی عادت ڈآلی ہو ، تو پہلے كیا گیا اس كا توبہ باطل نہ ہوگا، لیكن وہ اس كے لئے نئے توبہ كی ضرورت ہوگی اور اسی طرح سے
٢
گذرے ہوئے گناہوں اور معصیتوں پر پشیماں ہونا ،جیسا كہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : (الندم توبة) (ابن ماجه 4252)(ندامت (شرمندگی) توبہ ہے)اورتوبہ كا تصور شرمندہ ، غمگین ، اور معصیت كے صادر ہونے پر اظہار افسوس ہی سے ہے ، اور اسے نادم شمار نہیں كیا جائے گاجواپنے گذشتہ گناہوں كو بیان كرتا پھرے ، اور اس پر فخر كرے اور لوگوں میں اسے فخریہ بیان كرے۔
٣
دوبارہ غلطی نہ كرنے كا عزم كرے ،;كسی بندے كا توبہ درست نہیں جو توبہ كے بعد گناہ كی طرف واپسی كی نیت كرے
٤
مظالم كو اصحاب مظالم كی طرف لوٹا دینا ،اگر گناہوں كا تعلق آدمیوں كے حقوق سے ہو

توبہ پرثابت قدمی كے چند اسٹیپ

١
اپنے نفس سے یہ معاہدہ كرے كہ پلك جھپكنے كے برابر بھی ادھر نہیں جائے گا جس پر وہ پہلے تھا ،حالات جیسے بھی ہوں اور پریشانیاں جو بھی ہوں،اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "ثلاث من كن فيه وجد بهن حلاوة الإيمان"جس شخص میں یہ تین باتیں ہوں گی وہ ایمان کا مزہ پالے گا، ) اور انہیں میں سےایك كا ذكر كیا : "وأن يكره أن يعود في الكفر بعد أن أنقذه الله منه كما يكره أن يقذف في النار" (البخاري 21، مسلم 43). اور یہ کہ جسے اللہ نے کفر سے نجات دی ہو، پھر دوبارہ کفر اختیار کرنے کو وہ ایسا برا سمجھے جیسا آگ میں گر جانے کو برا جانتا ہے)
٢
ایسے اشخاص اور جگہوں سے دوری اختیار كرنا جو اس كے ایمان كو كمزور كرتے ہوں اور معصیت كی طرف اسے لے جاتے ہوں
٣
اپنے دین پر ثابت قدم رہنے كے لئے كثرت سے اللہ سے موت تك دعا كرتے رہنا، چاہے جس صیغہ میں ہو یا زبان میں ہو،اور اس قبیل سے قرآن و سنت میں دعا آئی ہے ،جیسے : {رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا} (آل عمران: 8).(اے ہمارے رب! ہمیں ہدایت دینے کے بعد ہمارے دل ٹیڑھے نہ کردے)اور یہ دعا بھي (يا مقلب القلوب ثبت قلبي على دينك" (الترمذي 2140).(اے دلوں کے الٹنے پلٹنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھ)

توبہ كے بعد كیا ہے ؟

جب آدمی نے توبہ كرلیا اور رب كی جانب متوجہ ہوگیا تو اللہ عزوجل اس كےتمام گناہوں كو معاف فرما دیتے ہیں وہ گناہ كتنے عظیم اور بڑے كیوں نہ ہوں ، اس لئے كہ اللہ كی رحمت تمام چیزوں پر وسیع ہے ،جیسا كہ اللہ تعالی نے فرمایا : {قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيم} (الزمر: 53).((میری جانب سے) کہہ دو کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو جاؤ، بالیقین اللہ تعالیٰ سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے، واقعی وه بڑی بخشش بڑی رحمت واﻻ ہے)

ایك مسلمان سچی صحیح توبہ كے بعد گناہوں سے ایسے نكل جاتا ہے جیسا كہ اس پر كوئی گناہ ہی نہیں ،بلكہ اللہ تعالی چھپے ہوئے سچے بندوں كو جنہوں نے پوری پوری پشیمانی اختیار كی بڑي خصوصیات كے ساتھ اس كا بدلہ دیتا ہے ،اور وہ اس طرح سے كہ ان كی برائیوں كو نیكیوں میں بدل دیتا ہے ،جیسے كہ اللہ تعالی كا ارشاد ہے: {إِلَّا مَنْ تَابَ وَآَمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا} (الفرقان: 70).(سوائے ان لوگوں کے جو توبہ کریں اور ایمان ﻻئیں اور نیک کام کریں، ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دیتا ہے، اللہ بخشنے واﻻ مہربانی کرنے واﻻ ہے )

اور جو اس كیفیت میں ہو اسے جلد ہی اس توبہ كو ٹھیك كرلینا چاہئے ، اور اس كےلئے قیمتی و عمدہ چیزیں بھی خرچ كردینی چاہئے، یہاں تك كہ شیطان كے ان پھندوں میں نہ پھنس جائے جواسے دوبارہ اسی برائی میں لت پت كردے

ایمان كی مٹھاس

جس كے پاس اللہ اور اس كے رسول كی محبت سب سے بڑي محبت ہو ، اور دوسروں سے بھی وہ اللہ سے ان كے قربت كی مقدار اور ان كے دین و اسلام كی صحت كے مقدار محبت كرتا ہے ، اور جس شر ك ، كفر اور گمراہی پر وہ پہلے تھا اس كی طرف واپسی كو ایسے ہی ناپسند كرتا ہے جیسے كہ آگ میں جلائے جانے كو ناپسند كرتاہے تووہ عنقریب ایمان كی مٹھاس اور اس كی لذت كو اپنے دل میں ایسے ہی محسوس كرے گا جیسے كہ وہ اللہ سے انسیت واطمنان ، اور اللہ كی شریعت سے سعادت مندی اور اپنے اوپر اللہ كی نعمت ہدایت سے محسوس كرتا ہے ،جیسا كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كا ارشادہے ،: "ثلاث من كن فيه وجد بهن حلاوة الإيمان: من كان الله ورسوله أحب إليه مما سواهما، وأن يحب المرء لا يحبه إلا لله، وأن يكره أن يعود للكفر بعد أن أنقذه الله منه كما يكره أن يقذف في النار". (البخاري 21، مسلم 43).(جس شخص میں یہ تین باتیں ہوں گی وہ ایمان کا مزہ پالے گا، ایک یہ کہ وہ شخص جسے اللہ اور اس کا رسول ان کے ماسوا سے زیادہ عزیز ہوں اور دوسرے یہ کہ جو کسی بندے سے محض اللہ ہی کے لیے محبت کرے اور تیسری بات یہ کہ جسے اللہ نے کفر سے نجات دی ہو، پھر دوبارہ کفر اختیار کرنے کو وہ ایسا برا سمجھے جیسا آگ میں گر جانے کو برا جانتا ہے)

دین كو مضبوطی سے پكڑنا اور اس پرآنے والی تكلیف پر صبر كرنا:

جو شخص قیمتی خزانے كا مالك ہوتا ہے وہ ہمیشہ اس كی حفاظت پر گہری نظر ركھتا ہے كہ كہیں وہ غلط لوگوں اور چوروں كے ہاتھ نہ لگ جائے ،اور اسے ان تمام چیزوں سے محفوظ ركھتا ہے جو اس میں اثر انداز ہونے والے ہوتے ہیں ،اور اسلام تو اللہ كی سب سے عظیم نعمت ہے جسے اللہ نے انسان كوعطا كیا ہے ،اسلام كوئی صرف فكری توجہ كا نام نہیں یا پیشہ ہے جسے انسان جب چاہےكرے، بلكہ یہ دین ہے جو انسان كی مكمل زندگی اس كے حركات و سكنات كے ساتھ فیصلہ كرتا ہے ، اس وجہ سے اللہ نے اپنے رسول كو اسلام اور قرآن كو مضبوطی كے ساتھ پكڑنے اوران میں سے كسی بھی چیز سے كمپرومائز نہ كرنے كا حكم دیا ہے اس لئے كہ آپ صراط مستقیم پر گامزن ہیں ، : {فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِي أُوحِيَ إِلَيْكَ إِنَّكَ عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيم} (الزخرف: 43).(پس جو وحی آپ کی طرف کی گئی ہے اسے مضبوط تھامے رہیں بیشک آپ راه راست پر ہیں )

اسلام لانے كے بعد اگر مسلمان كو ئی بلا درپیش ہو تو اسے غمزدہ نہیں ہونا چاہئے ،آزمائش كی دنیا میں یہی اللہ كی سنت ہے ،اور جو ہم میں بہتر لوگ ہیں ان كی شدیدآزمائش ہوئی تو انہوں نے اس پر صبر كیا، اور جہادكیا ،اور اللہ كے انبیاء كے پاس دور كے لوگوں سے ہٹ كر اپںے قریبی لوگوں سے قسم قسم كی آزمائشیں آئیں،اللہ كی راہ میں جو تكلیفیں انہیں پہونچیں نہ تو وہ اس سے كمزور ہوئے اور نہ ہی بدلے اور نہ كوئی ان میں تبدیلی آئی،آزمائش اللہ كی جانب سے مسلمان كے ایمان كی صداقت اور اس كے یقین كی قوت كے امتحان ہے ،تو اس كے لئے ضروری ہےكہ وہ اس امتحان كے مقدار قائم رہے ،اور اس دین كو مضبوطی سے تھامے رہے،اور دعا كرتا رہے جیسا كہ اللہ كے نبی صلی اللہ علیہ وسلم كثرت سے یہ دعا پڑھتے رہے ،: "يا مقلب القلوب ثبت قلبي على دينك" (الترمذي 2140).(اے دلوں كے پھیرنے والے اپنے دین پر میرے دل كو ثابت قدم ركھ)

كامیابی سے آپ نے درس مكمل كیا


امتحان شروع كریں