موجودہ قسم ایمان
سبق: انسان اسلام میں كیسے داخل ہوتا ہے
اسلام میں انسان داخل ہوتاہے جب وہ شہادتین كے معنی كو جان كر ، اس پر یقین كركے ، اور ان كی دلالت كو تسلیم كرتے ہوئے كلمہ پڑھتا ہے
دونوں شہادت یہ ہیں :
اسلام میں انسان كے داخل ہونے كا لمحہ یہ اس كی زندگی كے عظیم لمحات ہیں ،اوریہ اس كی حقیقی پیدائش ہے اس زندگی میں اس كے وجود كا سبب اسے بعد میں پتہ چلا ہے ، اور وہ اپنے دین میں داخل ہوتے ہی شروع غسل سے كرےگا ، اپنے پورے بدن پر پانی ڈالے گا ، جیسا كہ اس نے اپنے باطن كو شرك اور معصیت سے پاك كیا ہے ،اس كے لئے یہ اس كے لئے مستحب ہے كہ وہ پانی سے غسل كركے اپنے ظاہری حصے كو بھی پاك كرے
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےایك صحابی كو حكم دیا _وہ عرب كے سرداروں میں سے تھے_جب انہوں نے اسلام میں داخل ہونے كا ارادہ كیا كہ وہ غسل كرلیں (البيهقي 837).
توبہ
توبہ وہی اللہ كی طرف لوٹنا اور واپس آناہے ،تو ہر وہ شخص جس نے اپنی معصیت اور كفر سے نكل گیا اور صدق دل سے اللہ كے پاس واپس آگیا تو یقینا اس نے اللہ سے توبہ كرلی
توبہ كے صحیح ہونے كے شروط
توبہ پرثابت قدمی كے چند اسٹیپ
توبہ كے بعد كیا ہے ؟
جب آدمی نے توبہ كرلیا اور رب كی جانب متوجہ ہوگیا تو اللہ عزوجل اس كےتمام گناہوں كو معاف فرما دیتے ہیں وہ گناہ كتنے عظیم اور بڑے كیوں نہ ہوں ، اس لئے كہ اللہ كی رحمت تمام چیزوں پر وسیع ہے ،جیسا كہ اللہ تعالی نے فرمایا : {قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيم} (الزمر: 53).((میری جانب سے) کہہ دو کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو جاؤ، بالیقین اللہ تعالیٰ سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے، واقعی وه بڑی بخشش بڑی رحمت واﻻ ہے)
ایك مسلمان سچی صحیح توبہ كے بعد گناہوں سے ایسے نكل جاتا ہے جیسا كہ اس پر كوئی گناہ ہی نہیں ،بلكہ اللہ تعالی چھپے ہوئے سچے بندوں كو جنہوں نے پوری پوری پشیمانی اختیار كی بڑي خصوصیات كے ساتھ اس كا بدلہ دیتا ہے ،اور وہ اس طرح سے كہ ان كی برائیوں كو نیكیوں میں بدل دیتا ہے ،جیسے كہ اللہ تعالی كا ارشاد ہے: {إِلَّا مَنْ تَابَ وَآَمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا} (الفرقان: 70).(سوائے ان لوگوں کے جو توبہ کریں اور ایمان ﻻئیں اور نیک کام کریں، ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دیتا ہے، اللہ بخشنے واﻻ مہربانی کرنے واﻻ ہے )
اور جو اس كیفیت میں ہو اسے جلد ہی اس توبہ كو ٹھیك كرلینا چاہئے ، اور اس كےلئے قیمتی و عمدہ چیزیں بھی خرچ كردینی چاہئے، یہاں تك كہ شیطان كے ان پھندوں میں نہ پھنس جائے جواسے دوبارہ اسی برائی میں لت پت كردے
جس كے پاس اللہ اور اس كے رسول كی محبت سب سے بڑي محبت ہو ، اور دوسروں سے بھی وہ اللہ سے ان كے قربت كی مقدار اور ان كے دین و اسلام كی صحت كے مقدار محبت كرتا ہے ، اور جس شر ك ، كفر اور گمراہی پر وہ پہلے تھا اس كی طرف واپسی كو ایسے ہی ناپسند كرتا ہے جیسے كہ آگ میں جلائے جانے كو ناپسند كرتاہے تووہ عنقریب ایمان كی مٹھاس اور اس كی لذت كو اپنے دل میں ایسے ہی محسوس كرے گا جیسے كہ وہ اللہ سے انسیت واطمنان ، اور اللہ كی شریعت سے سعادت مندی اور اپنے اوپر اللہ كی نعمت ہدایت سے محسوس كرتا ہے ،جیسا كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كا ارشادہے ،: "ثلاث من كن فيه وجد بهن حلاوة الإيمان: من كان الله ورسوله أحب إليه مما سواهما، وأن يحب المرء لا يحبه إلا لله، وأن يكره أن يعود للكفر بعد أن أنقذه الله منه كما يكره أن يقذف في النار". (البخاري 21، مسلم 43).(جس شخص میں یہ تین باتیں ہوں گی وہ ایمان کا مزہ پالے گا، ایک یہ کہ وہ شخص جسے اللہ اور اس کا رسول ان کے ماسوا سے زیادہ عزیز ہوں اور دوسرے یہ کہ جو کسی بندے سے محض اللہ ہی کے لیے محبت کرے اور تیسری بات یہ کہ جسے اللہ نے کفر سے نجات دی ہو، پھر دوبارہ کفر اختیار کرنے کو وہ ایسا برا سمجھے جیسا آگ میں گر جانے کو برا جانتا ہے)
دین كو مضبوطی سے پكڑنا اور اس پرآنے والی تكلیف پر صبر كرنا:
جو شخص قیمتی خزانے كا مالك ہوتا ہے وہ ہمیشہ اس كی حفاظت پر گہری نظر ركھتا ہے كہ كہیں وہ غلط لوگوں اور چوروں كے ہاتھ نہ لگ جائے ،اور اسے ان تمام چیزوں سے محفوظ ركھتا ہے جو اس میں اثر انداز ہونے والے ہوتے ہیں ،اور اسلام تو اللہ كی سب سے عظیم نعمت ہے جسے اللہ نے انسان كوعطا كیا ہے ،اسلام كوئی صرف فكری توجہ كا نام نہیں یا پیشہ ہے جسے انسان جب چاہےكرے، بلكہ یہ دین ہے جو انسان كی مكمل زندگی اس كے حركات و سكنات كے ساتھ فیصلہ كرتا ہے ، اس وجہ سے اللہ نے اپنے رسول كو اسلام اور قرآن كو مضبوطی كے ساتھ پكڑنے اوران میں سے كسی بھی چیز سے كمپرومائز نہ كرنے كا حكم دیا ہے اس لئے كہ آپ صراط مستقیم پر گامزن ہیں ، : {فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِي أُوحِيَ إِلَيْكَ إِنَّكَ عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيم} (الزخرف: 43).(پس جو وحی آپ کی طرف کی گئی ہے اسے مضبوط تھامے رہیں بیشک آپ راه راست پر ہیں )
اسلام لانے كے بعد اگر مسلمان كو ئی بلا درپیش ہو تو اسے غمزدہ نہیں ہونا چاہئے ،آزمائش كی دنیا میں یہی اللہ كی سنت ہے ،اور جو ہم میں بہتر لوگ ہیں ان كی شدیدآزمائش ہوئی تو انہوں نے اس پر صبر كیا، اور جہادكیا ،اور اللہ كے انبیاء كے پاس دور كے لوگوں سے ہٹ كر اپںے قریبی لوگوں سے قسم قسم كی آزمائشیں آئیں،اللہ كی راہ میں جو تكلیفیں انہیں پہونچیں نہ تو وہ اس سے كمزور ہوئے اور نہ ہی بدلے اور نہ كوئی ان میں تبدیلی آئی،آزمائش اللہ كی جانب سے مسلمان كے ایمان كی صداقت اور اس كے یقین كی قوت كے امتحان ہے ،تو اس كے لئے ضروری ہےكہ وہ اس امتحان كے مقدار قائم رہے ،اور اس دین كو مضبوطی سے تھامے رہے،اور دعا كرتا رہے جیسا كہ اللہ كے نبی صلی اللہ علیہ وسلم كثرت سے یہ دعا پڑھتے رہے ،: "يا مقلب القلوب ثبت قلبي على دينك" (الترمذي 2140).(اے دلوں كے پھیرنے والے اپنے دین پر میرے دل كو ثابت قدم ركھ)