موجودہ قسم مالی لین دین
سبق: كمائی اور تلاش رزق
مال كی اہمیت
بنیادی ضرورتوں كے حصول كے لئے انسان مال كا محتاج ہے ، جیسے كھانا و پینا ، رہائش و لباس وغیرہ ، اور ایسے ہی متعدد منافع و مصالح كے حصول میں مال كا استعمال كركے انسان اپنی زندگی كی نوعیت كو اچھا بناتا ہے ،اسی وجہ سے اسلام نے مال كو بڑے اہتمام كی نظر سے دیكھا ہے ، اور اس كی كمائی و حصول اور خرچ كے متعلق بے شمار احكام مشروع كیا ہے ۔
كمائی اور تلاش رزق سے مقصود وہ تمام ذرائع اور اعمال ہیں جنہیں ایك آدمی مال كے حصول كے لئے استعمال كرتا ہے ، اور جس پر اس كی زندگي كا انحصار ہے ،چاہے وہ تجارت یا صنعت یا زراعت (كھیتی باڑی) وغیرہ كے ذریعہ ہو ۔
كمائی اور تلاش رزق كا حكم
اگر مال كمانے كا مقصد فخر وتكبر اور كثرت دكھانا ہو تو وہ مكروہ ہے ، اور بعض فقہاء كے نزدیك وہ حرام ہے ۔
وہ مسلمان جو روزی كمانے اور مال كی تلاش میں كوشش كرتا ہے اس كے لئے واجب ہے كہ وہ اس كے متعلق علم حاصل كرے ، یعنی مالی معاملات كے احكام كی جانكاری حاصل كرے؛جیسے خریدو فروخت ، كرایہ (لیز) حصہ داریاں ، اور سود وغیرہ كے احكام ،اور دیگر لین دین جو اس كے ذریعہ كئے جاتے ہیں ، تاكہ وہ تلاش رزق میں كوشش میں اللہ كے حرام كردہ چیزوں میں واقع نہ ہو جائے ۔
كمائی اور تلاش رزق كے احكام
1-تلاش رزق كے بعض واجب آداب:اللہ كے فرائض میں سے كسی بھی فرض كو نہ معطل كرے اور نہ ہی تاخیر كرے ، مناسب ہے كہ یہ فرائض ہی وہ اساس بنیں جو ایك مسلمان كے اوقات اور اس كی اس سے چڑی كوشش كو منظم كرے ۔
2-ایسے ہی كچھ اور واجبی آداب ہیں :ایك مسمان كی تلاش رزق دوسروں كی اذیت اور ضرر كا سبب نہ بنے ،اس لئے كہ کسی کو نقصان پہنچانا جائز نہیں نہ ابتداء ً نہ مقابلۃ۔
3-اس كمائی سے آدمی نیك مقاصد كا ارادہ كرے ؛ جیسے اپنے نفس كو ،اورجن پر اس كا خرچ كرنا واجب ہے ان سب سے لوگوں كے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بچائے ،اور فرمانبرداری كے كاموں پر اس مال سے مدد چاہے ،اس كا مقصد ذخیرہ اندوزی كرنا ، بڑھانا ، اور مال پر فخر و تكبر كرنا نہ ہو، یا اس كے علاوہ فاسد مقاصد سے اس كا تعلق نہ ہو۔
جب كوئی مسلمان تلاش رزق میں مخلص ہو ،اور اس سے اس كامقصد لوگوں پر صدقہ كئے جانے اور لوگوں پر كشادگی پیدا كئے جانے كا حصول ہو تو ایسا شخص اس كی تلاش میں عبادت میں شمار كیا جائے گا ، اور اس كے ذریعہ وہ بلند مقام حاصل كرے گا، جیسا كہ اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "أَحَبُّ النَّاسِ إِلَى اللَّهِ أَنْفَعُهُمْ لِلنَّاسِ" (الأوسط للطبراني 6026).(اللہ كے نزدیك لوگوں میں سب سے محبوب وہ شخص ہے جو لوگوں كو خوب فائدہ پہنچائے )۔
4-تلاش رزق اور باقی انسانی ضروریات كے درمیان اعتدال اور توازن كا خیال ركھنا ،چنانچہ كمائی وسیلے سے مقصد كی جانب تحویل نہ ہونے پائے ، سلمان نے ابودرداء رضی اللہ عنہما سے فرمایا "إنَّ لربك عليك حقّاً، ولنفسك عليك حقّاً، ولأهلك عليك حقّاً، فأعطِ كلَّ ذي حق حقه، فأتى النبيَّ صلى الله عليه وسلم، فذكر ذلك له، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «صدق سلمان» (البخاري 1968).( تمہارے رب کا بھی تم پر حق ہے۔ جان کا بھی تم پر حق ہے، اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے، اس لیے ہر حق والے کے حق کو ادا کرنا چاہئے، پھر آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :سلمان نے سچ کہا)۔
5-تلاش رزق میں اللہ پر بھروسہ كرنا :اور توكل كی حقیقت یہ ہے كہ آدمی جائز اسباب كو اختیار كرے ، اور ساتھ ہی ساتھ اس كا دل اللہ سے لگا ہو۔
6-آدمی كو یہ یقین كامل ہو كہ رزق صرف ایك اللہ ہی كی جانب سے ملتی ہے ، اور وہ محض كسی كی ذاتی كسب كے نتیجے میں نہیں ، كبھی كبھی اسباب رزق اختیار كرنے كے باوجود اس كے پاس رزق نہیں آتی ، اور یہ اس حكمت كے پیش نظر ہے جسے صرف اللہ ہی جانتا ہے ۔
7-اللہ كے تقسیم سے راضی ہونا اور حصول رزق میں سستی نہ كرنا؛ روزی اللہ كی مقدار اور اس كا وقت اللہ كی جانب سے مقدر ہے ، اس لئے ایك مسلمان اپنی روزی ادب ، قناعت اور جو اللہ نے اس كےلئے لكھ ركھا ہے اس سے راضی ہو كر تلاش كرے ، حلال چاہتے ہوئے اور حرام سے دوری بنائے ، جیسا كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : «أيها الناس، اتقوا الله وأجمِلوا في الطلب، فإن نفساً لن تموت حتى تستوفي رزقها وإن أبطأ عنها، فاتقوا الله وأجملوا في الطلب، خذوا ما حلَّ، ودَعُوا ما حَرُم» (ابن ماجه 2144).”لوگو! اللہ سے ڈرو، اور دنیا طلبی میں اعتدال کا راستہ اختیار کرو، اس لیے کہ کوئی اس وقت تک نہیں مرے گا جب تک اپنی روزی پوری نہ کر لے گو اس میں تاخیر ہو، لہٰذا اللہ سے ڈرو، اور روزی کی طلب میں اعتدال کا راستہ اختیار کرو، صرف وہی لو جو حلال ہو، اور جو حرام ہو اسے چھوڑ دو“۔(صحیح، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 2607)۔