موجودہ قسم مالی لین دین
سبق: مالی لین دین میں اسلامی اخلاق
اخلاق كا زندگی كے تمام امور سے گہرا رشتہ ہے ،شاید اسلامی مالیاتی نظام کی سب سے اہم خصوصیت وہ اخلاقی اقدار ہیں جہاں سے اس كا آغاز ہوتا ہے اور اس كی نگہداشت ہوتی ہے ، اور یہی وجہ ہے كہ یہ اسلامی مالی نظام كو دیگر مالی نظاموں سے منفرد بنادیتا ہے ۔
اور یہ ہر وہ چیز ہے جس كے كرنے كی شریعت حلال روزی كمانے كی خاطر اجازت دیتی ہے ، اور مالیاتی لین دین ان تمام معاہدوں كو شامل ہوتے ہیں جو پیسے پر مبنی ہوتے ہیں ، یا جن سے مالی حقوق جنم لیتے ہیں ،جیسے بیچنا و خریدنا ، اور كرایہ ، اور كمپنی و غیرہ كے دیگر معاہدے ، اور اسلامی لین دین سے متعلق احكام وہی وہ شرعی احكام ہیں جو لوگوں كے درمیان مالی و اقتصادی لین دین كو منظم كرتے ہیں ۔
اسلامی مالیاتی لین دین كے اہداف و مقاصد
اسلام دین حق ہے ، اوروہی لایا ہے جو لوگوں كے لئے مفید اور جو ان كی اصلاح كرتاہے، كیونكہ وہ تو لوگوں كے خالق كی جانب سے آیا ہے، جو ان كو اور جو چیزیں ان كے لئے مفید ہیں دونوں كو خوب جانتا ہے ، جیسا كہ اللہ تعالی كا ارشاد ہے : {أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ} [الملك: 14](کیا وہی نہ جانے جس نے پیدا کیا؟ پھر وه باریک بین اور باخبر بھی ہو )اوراس كى برخلاف دوسري شریعتیں اور نظام ہیں ، اسلام نے وہ مالی نظام دیا ہے جوجسم كے ضرورتوں اوردنیا كے امور كی بھر پور نگہداشت كرتا ہے ، اور ساتھ ہی روح كی ضرورتوں اور آخرت كے امور كا بھی خیال ركھتا ہے ۔
پہلا-دنیاوی پہلو:شریعت اسلامیہ نے لوگوں كے مالی لین دین كو كافی منظم بنایاہے ، جس سے كہ تمام لین دین كرنے والوں كے درمیان عدل وانصاف قائم ہوتا ہے ، اور جو ہر حق والے كو اسے حق سے نوازتا ہے ، اور تمام كے لئے یكساں كافی ہے ، اور اسی طرح سے لین دین میں حلال كے دروازے كو كشادہ كردیا ہے ، اور دو لین دین كرنے والے میں سے كسی ایك پرعائد ہونے والے تمام نقصانات كو حرام قرار دیا ہے ۔
دوسرا -دینی پہلو:تمام شرعی احكام كا بلند مقصد اللہ كی رضا اور جنت كی كامیابی كا حصول ہے ، اور اس كے علاوہ بلاشبہ اسلامی لین دین كے احكام انصاف كی اشاعت سے ہوتے ہوئے مومنوں كے درمیان بھائی چارگی كی تكمیل كرتےہیں ، اور احسان كی ترغیب دینا ،مثال كے طور پر تنگ دست كو مہلت دینا،سینے كو بھڑكانے والی ہر چیز كو حرام قرار دینا جیسے سود اورجوئے وغیرہ۔
پہلا - عدل : یہ مالی معاملات كے دونوں فریقوں كے حقوق كو بلا كسی كمی و زیاتی كے مكمل نگرانی كرتا ہے ،جیسے خرید و فروخت ، اور مثل كی قیمت كے مقابلے لیز ، وغیرہ ، جیسا كہ اللہ تعالی كا فرمان ہے : {وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ} (البقرة:275).(اور اللہ نے بیع كو حلال كیا ہے ) دوسرا-فضل :اور وہ احسان ہے؛ جیسے تنگ دست كو مہلت دینا یا اس كا قرض معاف كردینا ، اللہ تعالی نے فرمایا : {وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ وَأَنْ تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ} [البقرة: 280]،( اور اگر کوئی تنگی والا ہو تو اسے آسانی تک مہلت دینی چاہئے اور صدقہ کرو تو تمہارے لئے بہت ہی بہتر ہے، اگر تم میں علم ہو ) اور جیسے كہ كو ئی كسی مزدور سے اس كی اجرت پر اتفاق كرے اور پھر اسے اس سے بڑھا كردے ، اللہ تعالی نے فرمایا: {وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ} [البقرة: 195].(اور سلوک واحسان کرو، اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے)
تیسرا-ظلم:اور وہی آدمی كا اپنے حق سے زیادہ حاصل كرنا ہے ،اور باطل طریقے سے لوگوں كا مال ہڑپ لینا،جیسے سود،اورجوا،اورمزدور كا حق نہ دینا،وغیرہ ،اللہ تعالی نے فرمایا : {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (278) فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ} [البقرة: 278، 279].( اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے وہ چھوڑ دو، اگر تم سچ مچ ایمان والے ہو [278] اور اگر ایسا نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول سے لڑنے کے لئے تیار ہو جاؤ، ہاں اگر توبہ کرلو تو تمہارا اصل مال تمہارا ہی ہے، نہ تم ظلم کرو نہ تم پر ظلم کیا جائے گا )اور نبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: "قال الله: ثلاثة أنا خصمهم يوم القيامة: رجل أعطى بي ثم غدر، ورجل باع حُرّاً فأكل ثمنه، ورجل استأجر أجيراً فاستوفى منه ولم يُعْطِ أجرَه" (البخاري 2227).(تین طرح کے لوگ ایسے ہوں گے جن کا قیامت کے دن میں مدعی بنوں گا، ایک وہ شخص جس نے میرے نام پر عہد کیا اور وہ توڑ دیا، وہ شخص جس نے کسی آزاد انسان کو بیچ کر اس کی قیمت کھائی اور وہ شخص جس نے کوئی مزدور اجرت پر رکھا، اس سے پوری طرح کام لیا، لیکن اس کی مزدوری نہیں دی)