تعلیم كو فالو اپ كریں

اب تك آپ نے انڑی كے لئے رجسٹریشن نہیں كیا
اپنی ترقی كے فالواپ كے لئے اور پوائنٹس اكٹھا كرنے كے لئے ،اور مسابقے میں شركت كے لئے منصہ تاء میں فورا رجسٹریشن كریں ،رجسٹرد ہونے كے بعد جن موضوعات كی آپ تعلیم حاصل كررہے ہیں آپ اس كی الكڑانك سرٹیفیكیٹ حاصل كریں گے

موجودہ قسم مالی لین دین

سبق: مالی لین دین میں اسلامی اخلاق

اس سبق میں آپ مالی لین دین میں مطلوب اخلاق سے متعلق بعض معلومات حاصل كریں گے ۔

  • اسلام میں مالی لین دین كے مفہوم كی جانكاری۔
  • مالی لین دین كے باب میں شریعت اسلامیہ كے امتیازی پہلو كا اظہار۔
  • اس اسلامی اخلاق كا بیان جس كا مالی لین دین میں خیال ركھنا واجب ہے ۔

اخلاق كا زندگی كے تمام امور سے گہرا رشتہ ہے ،شاید اسلامی مالیاتی نظام کی سب سے اہم خصوصیت وہ اخلاقی اقدار ہیں جہاں سے اس كا آغاز ہوتا ہے اور اس كی نگہداشت ہوتی ہے ، اور یہی وجہ ہے كہ یہ اسلامی مالی نظام كو دیگر مالی نظاموں سے منفرد بنادیتا ہے ۔

اسلام میں مالیاتی لین دین

اور یہ ہر وہ چیز ہے جس كے كرنے كی شریعت حلال روزی كمانے كی خاطر اجازت دیتی ہے ، اور مالیاتی لین دین ان تمام معاہدوں كو شامل ہوتے ہیں جو پیسے پر مبنی ہوتے ہیں ، یا جن سے مالی حقوق جنم لیتے ہیں ،جیسے بیچنا و خریدنا ، اور كرایہ ، اور كمپنی و غیرہ كے دیگر معاہدے ، اور اسلامی لین دین سے متعلق احكام وہی وہ شرعی احكام ہیں جو لوگوں كے درمیان مالی و اقتصادی لین دین كو منظم كرتے ہیں ۔

اسلامی مالیاتی لین دین كے اہداف و مقاصد

١
اللہ كی رضا كا حصول ؛زمین میں جدوجہد كے ذریعہ اللہ كے حكم كو عملی جامہ پہنانا ، اللہ سبحانہ تعالی نے فرمایا: {هُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ ذَلُولًا فَامْشُوا فِي مَنَاكِبِهَا وَكُلُوا مِنْ رِزْقِهِ وَإِلَيْهِ النُّشُورُ} [الملك: 15].( وہی ہے جس نے تمھارے لیے زمین کو تابع بنا دیا، سو اس کے کندھوں پر چلو اور اس کے دیے ہوئے میں سے کھاؤ اور اسی کی طرف (دوبارہ) اٹھ کر جانا ہے)۔
٢
مال كمانا،اور وہ رزق حاصل كرنا جو معاش كو قائم رہنے كی ضمانت دے ، اور منافع و مفادات اور جائز دنیاوی لذتوں كے حصول كے لئے مال بڑھانا ،
٣
تمام معاملات میں حلال سے رشتہ جوڑكر اور حرام سے ناطہ توڑ كرجنت میں بلند مقام حاصل كرنا، جیسا كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "التَّاجِرُ الصَّدُوقُ الأَمِينُ مع النَّبيِّينَ والصِّدِّيقِينَ والشُّهداءِ" (الترمذي 1209).(سچا اور امانت دار تاجر (قیامت کے دن) انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہو گا) (صحیح)(البانی صاحب نے ابو سعید خدری کی حدیث کو صحیح لغیرہ کہا، اور ابن عمر کی حدیث کو حسن صحیح، نیز ملاحظہ ہو: صحیح الترغیب والترہیب 1782، وتراجع الألبانی 525)
٤
شرعی احكامات كے مطابق مال میں تصرف كرنا جو كہ صالح معاشرے كی تعمیر كی ضمانت دیتے ہیں ، اور نمو و ترقی كے قابل ہے ،
٥
معاشرے كے تمام افراد كی ضروریات پوری كرنا ، جو اللہ كی چاہت پوری كرنے میں ان كی مدد كرتا ہے ،اور ان كےافعال و اقوال میں اللہ سبحانہ تعالی كی بندگي میں ان كا تعاون كرتا ہے ۔
٦
زمین میں جانشینی طلب كرنا ، اوراللہ عز و جل كی شریعت سے زمین كو آباد كرنا ، جیسا كہ اللہ تعالی كا ارشاد ہے : {وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلَائِفَ الْأَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ إِنَّ رَبَّكَ سَرِيعُ الْعِقَابِ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَحِيمٌ} [الأنعام: 165].(اور وه ایسا ہے جس نے تم کو زمین میں خلیفہ بنایا اور ایک کا دوسرے پر رتبہ بڑھایا تاکہ تم کو آزمائے ان چیزوں میں جو تم کو دی ہیں۔ بالیقین آپ کا رب جلد سزا دینے واﻻ ہے اور بالیقین وه واقعی بڑی مغفرت کرنے واﻻ مہربانی کرنے واﻻ ہے)

اسلامی معاملات میں توازن برقرار ركھنا

اسلام دین حق ہے ، اوروہی لایا ہے جو لوگوں كے لئے مفید اور جو ان كی اصلاح كرتاہے، كیونكہ وہ تو لوگوں كے خالق كی جانب سے آیا ہے، جو ان كو اور جو چیزیں ان كے لئے مفید ہیں دونوں كو خوب جانتا ہے ، جیسا كہ اللہ تعالی كا ارشاد ہے : {أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ} [الملك: 14](کیا وہی نہ جانے جس نے پیدا کیا؟ پھر وه باریک بین اور باخبر بھی ہو )اوراس كى برخلاف دوسري شریعتیں اور نظام ہیں ، اسلام نے وہ مالی نظام دیا ہے جوجسم كے ضرورتوں اوردنیا كے امور كی بھر پور نگہداشت كرتا ہے ، اور ساتھ ہی روح كی ضرورتوں اور آخرت كے امور كا بھی خیال ركھتا ہے ۔

پہلا-دنیاوی پہلو:شریعت اسلامیہ نے لوگوں كے مالی لین دین كو كافی منظم بنایاہے ، جس سے كہ تمام لین دین كرنے والوں كے درمیان عدل وانصاف قائم ہوتا ہے ، اور جو ہر حق والے كو اسے حق سے نوازتا ہے ، اور تمام كے لئے یكساں كافی ہے ، اور اسی طرح سے لین دین میں حلال كے دروازے كو كشادہ كردیا ہے ، اور دو لین دین كرنے والے میں سے كسی ایك پرعائد ہونے والے تمام نقصانات كو حرام قرار دیا ہے ۔

دوسرا -دینی پہلو:تمام شرعی احكام كا بلند مقصد اللہ كی رضا اور جنت كی كامیابی كا حصول ہے ، اور اس كے علاوہ بلاشبہ اسلامی لین دین كے احكام انصاف كی اشاعت سے ہوتے ہوئے مومنوں كے درمیان بھائی چارگی كی تكمیل كرتےہیں ، اور احسان كی ترغیب دینا ،مثال كے طور پر تنگ دست كو مہلت دینا،سینے كو بھڑكانے والی ہر چیز كو حرام قرار دینا جیسے سود اورجوئے وغیرہ۔

حقوق كے اعتبار سے مالی معاملات كی شكلیں

پہلا - عدل : یہ مالی معاملات كے دونوں فریقوں كے حقوق كو بلا كسی كمی و زیاتی كے مكمل نگرانی كرتا ہے ،جیسے خرید و فروخت ، اور مثل كی قیمت كے مقابلے لیز ، وغیرہ ، جیسا كہ اللہ تعالی كا فرمان ہے : {وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ} (البقرة:275).(اور اللہ نے بیع كو حلال كیا ہے ) دوسرا-فضل :اور وہ احسان ہے؛ جیسے تنگ دست كو مہلت دینا یا اس كا قرض معاف كردینا ، اللہ تعالی نے فرمایا : {وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ وَأَنْ تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ} [البقرة: 280]،( اور اگر کوئی تنگی والا ہو تو اسے آسانی تک مہلت دینی چاہئے اور صدقہ کرو تو تمہارے لئے بہت ہی بہتر ہے، اگر تم میں علم ہو ) اور جیسے كہ كو ئی كسی مزدور سے اس كی اجرت پر اتفاق كرے اور پھر اسے اس سے بڑھا كردے ، اللہ تعالی نے فرمایا: {وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ} [البقرة: 195].(اور سلوک واحسان کرو، اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے)

تیسرا-ظلم:اور وہی آدمی كا اپنے حق سے زیادہ حاصل كرنا ہے ،اور باطل طریقے سے لوگوں كا مال ہڑپ لینا،جیسے سود،اورجوا،اورمزدور كا حق نہ دینا،وغیرہ ،اللہ تعالی نے فرمایا : {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (278) فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ} [البقرة: 278، 279].( اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے وہ چھوڑ دو، اگر تم سچ مچ ایمان والے ہو [278] اور اگر ایسا نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول سے لڑنے کے لئے تیار ہو جاؤ، ہاں اگر توبہ کرلو تو تمہارا اصل مال تمہارا ہی ہے، نہ تم ظلم کرو نہ تم پر ظلم کیا جائے گا )اور نبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: "قال الله: ثلاثة أنا خصمهم يوم القيامة: رجل أعطى بي ثم غدر، ورجل باع حُرّاً فأكل ثمنه، ورجل استأجر أجيراً فاستوفى منه ولم يُعْطِ أجرَه" (البخاري 2227).(تین طرح کے لوگ ایسے ہوں گے جن کا قیامت کے دن میں مدعی بنوں گا، ایک وہ شخص جس نے میرے نام پر عہد کیا اور وہ توڑ دیا، وہ شخص جس نے کسی آزاد انسان کو بیچ کر اس کی قیمت کھائی اور وہ شخص جس نے کوئی مزدور اجرت پر رکھا، اس سے پوری طرح کام لیا، لیکن اس کی مزدوری نہیں دی)

اسلامی لین دین كے اخلاقیات میں سے (1)

١
جائز معاہدوں كی پابندی اوراس كی تكمیل،جیسا كہ اللہ تعالی نے فرمایا: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ} [المائدة: 1].( اے ایمان والو! عہد و پیماں پورے کرو)۔
٢
امانت ادا كرنا، اللہ تعالی نے فرمایا: {فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمَانَتَهُ وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ} [البقرة: 283].( تو جسے امانت دی گئی ہے وه اسے ادا کردے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے جو اس کا رب ہے)۔
٣
گواہی نہ چھپانا ،اللہ تعالی نے فرمایا:{وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ وَمَنْ يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ} [البقرة: 283].(اور گواہی کو نہ چھپاؤ اور جو اسے چھپالے وه گنہگار دل واﻻ ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اسے اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے)۔
٤
سچائی اور خیرخواہی ،دو خریدو فروخت كرنے والوں كے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: «فإن صدقا وبيَّنا بورك لهما في بيعهما، وإن كتما وكذبا مُحقت بركة بيعهما» (البخاري 2079، ومسلم 1532).( پس اگر دونوں نے سچائی سے کام لیا اور ہر بات صاف صاف کھول دی ،تو ان کی خرید و فروخت میں برکت ہوتی ہے، لیکن اگر کوئی بات چھپا رکھی یا جھوٹ کہی تو ان کی برکت ختم کر دی جاتی ہے)۔
٥
صراحت ، عدم دہوكا و فریب، اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «... ومن غشنا فليس منا» (مسلم 101).( اور جو شخص ہم کو دھوکا دے وہ ہم میں سے نہیں ہے)۔

اسلامی لین دین كے اخلاقیات میں سے (2)

١
شكوك و شبہات سے دور رہنا،اور یہ وہی امور ہیں جن كا ایك آدمی كے لئے حلال حرام كے ساتھ خلط ملط ہو جاتا ہے ،اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : «إن الحلال بيِّن، وإن الحرام بيِّن، وبينهما مشتبهات لا يعلمهن كثير من الناس، فمن اتقى الشبهات استبرأ لدينه وعرضه، ومن وقع في الشبهات وقع في الحرام» (البخاري 52، ومسلم 1599).(مقرر حلال کھلا ہے اور حرام بھی کھلا لیکن حالال و حرام کے درمیان ایسی چیزیں ہیں جو دونوں سے ملتی ہیں یعنی اس میں شبہ ہے ان کو بہت لوگ نہیں جانتے تو جو شہبوں سے بچا وہ اپنے دین اور آبرو کو سلامت لے گیا اور جو شبہوں میں پڑا وہ آخر حرام میں بھی پڑا )
٢
لوگوں كا مال باطل طریقے سے نہ كھانا ، اللہ تعالی كا ارشاد ہے: {وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ} [البقرة: 188].( اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھایا کرو، نہ حاکموں کو رشوت پہنچا کر کسی کا کچھ مال ﻇلم وستم سے اپنا کر لیا کرو، حاﻻنکہ تم جانتے ہو )
٣
ایك مسلمان اپنے مسلمان بھائی كےلئے وہی پسند كرے جو اپنے لئے پسند كرتا ہے ، اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لا يؤمن أحدكم، حتى يحب لأخيه ما يحب لنفسه» (البخاري 13، ومسلم 45).(تم میں سے کوئی شخص ایماندار نہ ہو گا جب تک اپنے بھائی کے لیے وہ نہ چاہے جو اپنے نفس کے لیے چاہتا ہے)۔

كامیابی سے آپ نے درس مكمل كیا


امتحان شروع كریں