تعلیم كو فالو اپ كریں

اب تك آپ نے انڑی كے لئے رجسٹریشن نہیں كیا
اپنی ترقی كے فالواپ كے لئے اور پوائنٹس اكٹھا كرنے كے لئے ،اور مسابقے میں شركت كے لئے منصہ تاء میں فورا رجسٹریشن كریں ،رجسٹرد ہونے كے بعد جن موضوعات كی آپ تعلیم حاصل كررہے ہیں آپ اس كی الكڑانك سرٹیفیكیٹ حاصل كریں گے

موجودہ قسم مسلم فیملی (مسلم خاندان )

سبق: شوہر اور بیوی كے انتخاب كی اساس

اس درس میں ہم زوجین كے انتخاب كے اہم اساس كے متعلق جانكاری حاصل كریں گے ،

  • اسلام میں عقد زواج كے مقام كی معرفت ۔
  • زوجین كے انتخاب میں اہم ضوابط كی معرفت۔
  • شوہر كے انتخاب كے عمل میں اسلام كا عورت كے ساتھ انصاف كا بیان ۔

عقد نکاح اسلام کے اہم ترین اور عالی شان عقدوں میں سے ایک ہے۔اسلامی شریعت نے اسے ابتدائی مراحل سے احاطہ كیا ہے۔جو فریقین میں سے ہر ایك كے لئے اس چیز كو فراہم كرتا ہے جو عقد كے مفاد و منفعت كو پورا كرتا ہے ، اور یہ شادی کے تسلسل اور مسلم گھر کے استحکام میں مدد کرتا ہے۔

خاندان كے دو ركن

یہ خاندان كی عمارت كے دو نبیادی ركن ہیں اور وہ میاں و بیوی ہیں ، شریعت نے ان کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کی خواہش ظاہر کی ہے، اور اسے اپنی نشانی اور اس نعمت كا حصول قرار دیا ہے جو اس نے اپنے بندوں پر احسان كیا ہے ۔

اللہ تعالی نے فرمایا: {وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ} [الروم: 21].( اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے آرام پاؤ اس نے تمہارے درمیان محبت اور ہمدردی قائم کر دی، یقیناً غور وفکر کرنے والوں کے لئے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں)۔

زوجین كا حسن انتخاب

شریك حیات كا حسن انتخاب،سعادت مند شادی اور مستحكم خاندان كی عمارت كے حصول كے لئے یہ اہم قدم ہے ۔

زوجین كے انتخاب كا اہم ضابطہ

١
دین و خلق كی درستگی
٢
دلی راحت وسكون
٣
یكسانیت

دین و اخلاق كی درستگی

یہی وہ اصل ہے جس كے لئے شریك حیات كے انتخاب كےوقت میاں و بیوی میں سے ہرایك كو حریص ہوناچاہئے،دین اور اخلاق یہ اللہ كے حكم سے ایسی ضمانت ہے جس سے سعادت دارین حاصل ہوتی ہے ،

دین دار نیك بیوی كے انتخاب پر نبی مكرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ترغیب دی ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: "تنكح المرأة لأربع: لمالها، ولحَسَبها، وجمالها، ولدينها، فاظفر بذات الدين تَرِبَت يداك" (البخاري 5090، ومسلم 1466)،( عورت سے نکاح چار چیزوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے اس کے مال کی وجہ سے اور اس کے خاندانی شرف کی وجہ سے اور اس کی خوبصورتی کی وجہ سے اور اس کے دین کی وجہ سے اور تو دیندار عورت سے نکاح کر کے کامیابی حاصل کر، اگر ایسا نہ کرے تو تیرے ہاتھوں کو مٹی لگے گی (یعنی اخیر میں تجھ کو ندامت ہو گی) دین دار عورت اللہ سے ڈرتی ہے ، اور اپنے گھر كے حق اور شوہر كے اس كے حاضر و غائب ہونے كی صورت میں مكمل نگہداشت كرتی ہے ۔

شوہر كے انتخاب میں اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إذا أتاكم من ترضون خلقه ودينه فزوجوه، إلا تفعلوا تكن فتنة في الأرض وفساد عريض» (ابن ماجه 1967)، (حسن)» ‏‏‏‏ (سند میں عبد الحمید ضعیف راوی ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء: 1868، لیکن متابعت کی وجہ سے حسن ہے)(جب تمہارے پاس کسی ایسے شخص کا پیغام آئے جس کے دین اور اخلاق کو تم پسند کرتے ہو تو اس سے شادی کر دو، اگر ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ پھیلے گا اور بڑی خرابی ہو گی)اور بعض سلف كہتے تھے :جب تم اپنی بیٹی كی شادی كرو تو دیندار لڑكے سے كرو، اگر وہ اس سے محبت كرےگا تو وہ اس كی تكریم كرے گا، اور اگر وہ اس سے نفرت كرےگا تو وہ اس پر ظلم نہیں كرے گا۔

نفساتی چین و سكون

رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا: «الأرواح جنود مجنَّدة؛ فما تعارف منها ائتلف، وما تناكر منها اختلف» (البخاري 3336، ومسلم 2638)،(روحوں کے جھنڈ کے جھنڈ الگ الگ تھے۔ پھر وہاں جن روحوں میں آپس میں پہچان تھی ان میں یہاں بھی محبت ہوتی ہے اور جو وہاں غیر تھیں یہاں بھی وہ خلاف رہتی ہیں) یہ زوجین كے درمیان باہمی اتفاق اور اور راحت و سكون كے وجود كی اہمیت كو مضبوط كرتا ہے ، تاكہ الفت و محبت حاصل ہو اور سعادت مند ازداجی زندگی میں تسلسل قائم رہے۔

اسی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص كو اپنے اس فرمان سے حكم فرمایاجو كسی عورت كو شادی كا پیعام دینا چاہتا ہے : "انظرْ إليها فإِنَّه أحرى أنْ يؤْدَمَ بينكُما" (الترمذي 1087)(صحیح).(تم اسے دیکھ لو، كیونكہ یہ تم دونوں کے درمیان محبت پیدا کرنے کے لیے زیادہ موزوں ہے)،اور اس سے مقصود یہ ہے كہ ان دونوں كے درمیان محبت باقی رہے گی ، اور یہ دیكھنا مرد و عورت دونوں كا حق ہے ، تاكہ ان میں سے دونوں ہر ایك كو جان سكیں ، اور ان كا دل مطمئن ہو سكے ۔

یكسانیت و برابری

اور یكسانیت و مماثلت كا مقصود یہ ہے كہ زوجین كے درمیان مادی و سماجی حالت میں اتفاق و قربت ہو ، اور بعص اہل علم نے اس كی شرط لگآئی ہے ، اور دوسرے لوگوں كی رائے كے مطابق صرف دین اور اخلاق ہی قابل اعتبار ہے ، لیكن جس مین كوئی شك نہیں ہے كہ زوجین كے درمیان مالی ، علمی اور اجتماعی میں عدم تقارب ازدواجی زندگی كے غیر مستحكم ہونے اور اس كے بكھراؤ كی پریشانی اور خطرہ كا سبب بن سكتا ہے ۔

رضامندی اور قبول

حسن انتخاب كے خیال ركھنے كے ساتھ ساتھ ضروری ہے كہ نكاح دونوں فریق كے قبول و رضامندی سے پائے تكمیل كو پہنچے ، كسی ایك كی جانب سے دباؤ یا زبردستی نہ ہو ، گرچہ وہ دونوں كے نزدیك زیادہ قریبی لوگوں میں سے كیوں نہ ہو۔

اور اسلام نے عورت كے ساتھ انصاف كیا ہے ، اور اس كی رضامندی اور قبول كو شادی كے لئے شرط قرار دیا ہے ،جیسا كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لا تُنكَح الأيِّم حتى تُستأمر، ولا تُنكح البكر حتى تُستأذَن» قالوا: يا رسول الله، وكيف إذنها؟ قال: «أن تسكت» (البخاري 5136، ومسلم 1419).( بیوہ عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ لی جائے اور کنواری عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ مل جائے۔ صحابہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! کنواری عورت اذن کیونکر دے گی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی صورت یہ ہے کہ وہ خاموش رہ جائے۔ یہ خاموشی اس کا اذن سمجھی جائے گی۔)اور خنساء بنت خذام انصاریہ رضی اللہ عنہا كے واقعہ میں ہے"أنَّ أبَاهَا زَوَّجَهَا وهْيَ ثَيِّبٌ، فَكَرِهَتْ ذلكَ، فأتَتْ رَسولَ اللَّهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم، فَرَدَّ نِكَاحَهُ" (البخاري 5138). ( ان کے والد نے ان کا نکاح کر دیا تھا، وہ ثیبہ تھیں، انہیں یہ نکاح منظور نہیں تھا، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نکاح کو فسخ کر دیا)۔

كامیابی سے آپ نے درس مكمل كیا


امتحان شروع كریں