موجودہ قسم نماز
سبق: نماز كا معنی اور اس كی فضیلت
نماز كا معنی
صلاۃ كا لغوی معنی :دعا ہے ، اور صلاۃ بندے كو اپنےرب و خالق سے جوڑتی ہے ،اس حیثیت سے كہ یہ عبودیت كے اعلی معانی اوراللہ كے پاس پناہ حاصل كرنے اور اللہ سے مدد طلب كرنے كو شامل ہے، تو وہ اس میں اللہ كو پكارتا ہے ،اور اس سے سرگوشی كرتاہے ،اور اس كا ذكر كرتا ہے،پھر اپنے نفس كو پاكباز بناتا ہے اور اپنی حقیقت اور جس دنیا میں شب و روز گذارتا ہے اس كی حقیقت كو یاد كرتا ہے،اور اپنے مولا كی عظمت اور اپنے اوپر اس كی رحمت كا احساس كرتا ہے ،اور یہیں سے یہ نماز اسے اللہ كی شریعت پر جمے رہنے اور نافرمانی ، فحش ، اور ظلم سے دور رہنے كی دعوت دیتی ہے ،جیسا كہ اللہ تعالی كا ارشاد ہے : (إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَر) (العنكبوت: 45). (بے شك نماز فحش اور منكر سے روكتی ہے (
نماز بدنی عبادتوں میں انتہائی عظیم اور بڑي شان والی ہے ،اور یہ ایسی عبادت ہے جو دل ، عقل اورزبان كو شامل ہے، اور بہت سی چیزوں میں نماز كی اہمیت ظاہر ہوتی ہے ، انہیں میں سے كچھ یہ ہیں :
1-نماز اركان اسلام كا دوسرا ركن ہے،جیسا كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"بني الإسلام على خمس: شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمداً رسول الله، وإقام الصلاة..." (البخاري 8، مسلم 16)(اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم کی گئی ہے۔ اول گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بیشک محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا اور حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا)اورعمارت كا كھمبا وہی اصل ہے جس پرپوری عمارت ٹكی ہوتی ہے ، اس كے بغیر وہ قائم نہیں رہ سكتی
2-نماز مسلمانوں اور كافروں كے درمیان تفریق كرنے والی ہے ، جیسا كہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم كا فرمان ہے ،: "إن بين الرجل وبين الشرك والكفر ترك الصلاة" (مسلم 82). (آدمی اور شرک اور کفر کے بیچ میں نماز کا ترک ہے)اور ایك دوسری حدیث میں اللہ كے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "العهد الذي بيننا وبينهم الصلاة؛ فمن تركها فقد كفر" (الترمذي 2621، النسائي 463 ،(صحیح)).(ہمارے اور منافقین کے درمیان نماز کا معاہدہ ہے تو جس نے نماز چھوڑ دی اس نے کفر کیا)
3-اللہ عزوجل نےہر حال میں اس پرمداومت كرنے كا حكم دیا ہے ،چاہے وہ سفرمیں ہو یا حضر میں ہو یا امن و سلامتی كی حالت میں ہو یا پھر جنگ كی حالت میں ہو،یا پھر وہ تندرستی كی حالت میں ہو بیماری كی ،اپنی استطاعت كے مطابق اسے ادا كرے گا،جیسا كہ اللہ تعالی كا ارشاد ہے: (حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَات) (البقرة: 238)،(نمازوں کی حفاﻇت کرو)اور اللہ نے اپنے مومن بندوں كی اس قول كے ساتھ ان كا وصف بیان كیا ہے: (وَالَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَوَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ) (المؤمنون: 9).(جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں)
نماز كے فضائل
نماز كی فضیلت میں كتاب وسنت كی بہت ساری دلیلیں آئی ہیں ، انہیں میں سے چند یہ ہیں:
1-نماز گناہوں كو مٹا دیتی ہے ، جیسا كہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "الصلوات الخمس، والجمعة إلى الجمعة، ورمضان إلى رمضان، مكفرات ما بينهن إذا اجتَنَبَ الكبائر" (مسلم 233، الترمذي 214).( پانچوں نمازیں اور جمعہ، جمعہ تک اور رمضان، رمضان تک کفارہ ہو جاتے ہیں ان گناہوں کا جو ان کے بیچ میں ہوں بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے بچے)
2-نماز نور ہے اور ایك مسلمان كی پوری زندگی كو منور كرتی ہے ،اسے بھلائی كی دعوت دیتی ہے ، اور شرسے اسے دور ركھتی ہے ، اللہ كا ارشادہے : (إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَر) (العنكبوت: 45)،( یقیناً نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے) اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا "الصلاة نور" (مسلم 223).(نماز نور یعنی روشنی ہے )
3-سب سے پہلے قیامت كے دن بندے سے نماز كا حساب ہوگا، اگر وہ درست رہی اور قبول كی گئی تو تمام اعمال قبول كئے جائیں گے ، اور اگر وہ واپس كردی گئی تو باقی سارے اعمال لوٹا دئیے جائیں گے،جیسا كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاہے: "أول ما يحاسب به العبد يوم القيامة الصلاة، فإن صلحت صلح له سائر عمله" (المعجم الأوسط للطبراني 1859).(قیامت كے دن بندے سے سب سے پہلے نماز كا حساب لیا جائے گا، اگر وہ ٹھیك رہی تو اس كے سارے اعمال ٹھیك ہوں گے)
مومن كے لئے سب سے لذیذ لمحات ہوتے ہیں جس وقت وہ نمازمیں اپنے رب سے سرگوشی كرتا ہے، تو اسے راحت و سكون ، اطمنان اور اللہ عز وجل كی انسیت حاصل ہوتی ہے
اورنماز نبی صلی اللہ علیہ وسلم كی سب سے بڑی لذت تھي ، جیسا كہ آپ نے فرمایا: "وجعلت قرة عيني في الصلاة" . ( اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے) (النسائي 3392 (صحیح))
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنےموذن نماز كی طرف بلانے والے بلال رضی اللہ عنہ سے فرماتے : "يا بلال، أقم الصلاة أرحنا بها" (أبو داود 4985).(صحیح)(اے بلال نماز کے لیے اقامت کہو اور ہمیں اس سے آرام و سکون پہنچاؤ)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم كو جب كوئی معامل پیش آتا یا آپ كو كوئی چیز مشغول كردیتی تو آپ نماز كے پاس پناہ لیتے جیسا كہ حدیث میں ہے حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کوئی معاملہ پیش آتا تو آپ نماز پڑھتے(أبو داود: 1319).(حسن)