تعلیم كو فالو اپ كریں

اب تك آپ نے انڑی كے لئے رجسٹریشن نہیں كیا
اپنی ترقی كے فالواپ كے لئے اور پوائنٹس اكٹھا كرنے كے لئے ،اور مسابقے میں شركت كے لئے منصہ تاء میں فورا رجسٹریشن كریں ،رجسٹرد ہونے كے بعد جن موضوعات كی آپ تعلیم حاصل كررہے ہیں آپ اس كی الكڑانك سرٹیفیكیٹ حاصل كریں گے

موجودہ قسم نماز

سبق: نماز كی شرطیں اور اس كا حكم

نماز كے چند شروط ہیں جن كے بغیر نماز صحیح نہیں ہوسكتی ، اس لئے ہرمسلمان پر ان شروط كا احاطہ كرنا واجب ہے ، اس درس میں آپ نماز كی شرطیں ، اس كا حكم اور اس كا مقام و مرتبہ كے بارے میں جانكاری حاصل كریں گے ۔

  • نماز كی شرطوں كی معرفت ۔
  • نمازكےحكم كی معرفت۔
  • نماز قائم كرنے كی جگہ كی معرفت۔

نماز كی شرطیں:

1-طہارت

حدث اورنجاست سے پاكی حاصل كرنا،عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے فرمایا كہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كو فرماتے ہوئے سنا ہے : «لَا تُقْبَلُ صَلَاةٌ بِغَيْرِ طُهُورٍ» (مسلم 224).(اللہ بغیر طہارت کےنماز کو قبول نہیں کرتا)

2- شرم گاہ كی پردہ پوشی

شرم گاہ كی ستر پوشی كی شرط لگائی جائے گی ، اور وہ ایسے كپڑے سے ہو جو عضو كی تفصیل نہ بیان كرے چاہے وہ چھوٹے یا چست ہونے كی بناپر ہو یا اس كے بالكل باریك اورشفاف ہو نےكی وجہ سے ہو۔

آدمی كی شرم گاہ

ناف سے گھٹنے تك

نماز میں عورت كے چھپانے كی چیز

عورت كا پورا بدن چہرہ اور ہتھیلی چھوڑ كر سب چھپانے كی چیز ہے،عائشہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے فرماتی ہیں كہ اللہ كے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لا يقبل الله صلاة حائض [أي: بالغ] إلا بخمار» (أبو داود 641، والترمذي 377) (صحیح)(بالغہ عورت کی نماز بغیر اوڑھنی کے اللہ تعالیٰ قبول نہیں کرتا)

اللہ تعالی نے فرمایا:(يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِد) (الأعراف:31)،( اے اوﻻد آدم! تم مسجد کی ہر حاضری کے وقت اپنا لباس پہن لیا کرو) اور شرم گاہ كی پردہ پوشی یہ زینت كی كم سے كم مقدارہے ،اور كُلِّ مَسْجِد سے مراد ہر نماز ہے ۔

3-قبلہ رخ ہونا

اللہ تعالی نے فرمایا: (وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ) (البقرة: 149).(آپ جہاں سے نکلیں اپنا منھ (نماز کے لئے) مسجد حرام کی طرف کرلیا کریں)

مسلمانوں كا قبلہ كیا ہے ؟

تمام مسلمانوں كا قبلہ وہی كعبہ شریف ہے جسے ابو الانبیاء ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر كیا ہے ، اور تمام انبیاء نے اس كا حج كیا ہے ،اور ہمیں اس كا علم ہے كہ وہ پتھر ہیں جو نفع و نقصان نہیں پہونچا سكتے ہیں ،لیكن اللہ تعالی نے نماز میں اس كی طرف ہمیں رخ كرنے كا حكم دیا ہے،تاكہ تمام مسلمانوں كا ایك ہی سمت ہو جائے ، اوراسی رخ پر ہم تمام لوگ اللہ كی عبادت كریں۔

قبلہ رخ ہونے كی كیفیت

مسلمان پر واجب ہے كہ وہ كعبہ كی طرف رخ كرے اگر وہ اسے اپنے سامنے دیكھ رہا ہے ،لیكن جو كعبہ سے دور ہو تو اس كےلئے مكہ كے سمت رخ كرنا ہی كافی ہے،اور مكہ كی جانب رخ كرنے میں معمولی ٹیڑہا پن نقصان دہ نہیں ۔جیسا كہ اللہ كے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ما بين المشرق والمغرب قبلة" (الترمذي: 342).(صحیح)(مشرق (پورب) اور مغرب (پچھم) کے درمیان جو ہے سب قبلہ ہے)

بیماری وغیرہ كی وجہ سے جو قبلہ رخ ہونے سے عاجز و لاچار ہو تو وہ كیا كرے ؟

اس لاچاری اور بے بسی كی وجہ سے یہ وجوب اس سے ساقط ہو جائے گا ،جیسے كہ تمام واجبات بے بسی كی صورت میں ساقط ہو جاتے ہیں ، اللہ تعالی كا ارشاد ہے ،:(فَاتَّقُوا اللهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ) (التغابن: 16).( پس جہاں تک تم سے ہوسکے اللہ سے ڈرتے رہو )

4-نماز كا وقت داخل ہونا

یہ نماز كے صحیح ہونے كی شرط ہے ،نماز كے وقت كے داخل ہونے سے پہلے نماز صحیح نہیں ، اور اس كے وقت سے اسے موخر كرنا حرام ہے ،جیسا كہ اللہ نے فرمایا: (إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا) (النساء: 103).( یقیناً نماز مومنوں پر مقرره وقتوں پر فرض ہے)

نماز كو اس كے اول وقت میں ادا كرنا افضل ہے ،ام فروہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےفرماتی ہیں كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال كیا گیا :كونسا عمل افضل ہے؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «الصلاة في أول وقتها» (أبو داود 426).(نماز کو اس کے اول وقت میں ادا کرنا) (صحیح)(اس کے راوی قاسم مضطرب الحدیث اور عبداللہ بن عمر سیٔ الحفظ ہیں، نیز بعض أمھاتہ مجہول راوی ہیں) لیکن یہ حدیث شواہد کی بنا پر اس باب میں صحیح ہے، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث متفق علیہ (بخاری و مسلم) میں ہے)

كیا نماز كو اس كے وقت سے تاخیر كرنا جائزہے؟

نماز كو اس كے وقت میں ادا كرنا واجب ہے ، اور اسے تاخیر كرنا حرام ہے ، سوائے ان حالتوں كے جس میں دونمازوں كے بیچ جمع كرنے كی رخصت دی گئی ہے۔

نیند یا نسیان كی وجہ سے جس كی نماز فوت ہوجائے وہ كیا كرے؟

جب نماز كی یادپڑے اسی وقت اس كی قضامیں پہلے كرنا واجب ہے ،جیسا كہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” جو نماز کو بھول جائے ، یا سو جائے تو جب یاد آئے ادا کر لے یہی اس کا کفارہ ہے۔

نماز كا واجب ہونا

تمام عاقل بالغ مسلمان پر نماز واجب ہے ،سوائے حیض و نفاس والی عورتوں كے ،وہ اپنےحیض یا نفاس كے ایام نماز نہ پڑھے ،اورنہ ہی خون بند ہونے كے بعد پاكی كے بعد اس كی قضا كرے ،

درج ذیل نشانیوں میں سےكسی ایك نشانی پائی جانے كی صورت میں بالغ ہونے كا حكم لگایا جائےگا‭:

١
پندرہ سال پورا ہونا
٢
سامنے كے شرمگاہ كے ارد گرد موٹے بالوں كا اگنا
٣
سونے یا جاگنےكی حالت میں منی خارج ہونا
٤
عورت كا حائضہ یا حاملہ ہونا

پانچ فرض نمازیں اور ان كی اوقات

دن و رات ملا كر اللہ نے مسلمان پر پانچ وقت كی نمازكو فرض كیا ہے ، یہ اس كے دین كے ستون ہیں اور یہ اس پر سب سے موكد فرائض ہیں ، اور اس كے لئے اللہ نے ظاہری وقت مقرر كیا ہے جس كی تفصیل یہ ہے :

نماز فجر

فجركی فرض دو ركعتیں ہیں، اس كا وقت فجر ثانی سے شروع ہوتا ہے ،اور فجرثانی مشرق كی سمت میں آسمان میں شروع ہونے والی روشنی ، اور اس كا وقت سورج كے طلوع ہونے تك رہتاہے ۔

ظہر كی نماز

اور ظہر كی فرض چار ركعت ہے ،اس كا وقت سورج كے زوال سے شروع ہوتا ہے، _آسمان كے بیچ میں ہونےكے بعد مغرب كی سمت سورج كا مائل ہونا_اور اس كا وقت ہر چیز كا سایہ اس كی لمبائی كے برابر ہونےتك رہتا ہے ،

نماز عصر

اور عصركی فرض چار ركعت ہے ،اوراس كا وقت ظہر كا وقت نكل جانے سے شروع ہوتا ہے،یعنی جب ہر چیز كا سایہ اس كے لمبائی كے مثل ہو جائے ،اور سورج ڈوبتے ہی اس كا وقت ختم ہو جاتا ہے ،اور سورج كی شعاؤں كے كمزور پڑںے اور اس كے رنگ كے پیلے ہونےسے پہلے مسلمان كے لئے اس نماز كی ادائیگی میں جلدی كرنا مناسب ہے،

مغرب كی نماز

مغرب كی فرض تین ركعتیں ہیں ، اور اس كا وقت آسمان میں سورج ڈوبنے اور اس كے گولےكےچھپنے سے شروع ہوتا ہے ،اور سورج ڈوبنے كے بعدپچھم كی سمت میں شفق كی لالی ختم ہونے سے اس كا وقت ختم ہو جاتا ہے ۔

عشاء كی نماز

عشاء كی فرض چار ركعتیں ہیں پچھم میں شفق كی سرخی ختم ہونے كے بعد اس كا وقت شروع ہوتا ہے ، اور آدھی رات تك اس كا وقت رہتا ہے، اور اضطراری صورت میں اسے طلوع فجر تك ادا كیا جاسكتا ہے ۔

نماز كی جگہ

اسلام نے مردوں كو جماعت كے ساتھ نماز ادا كرنے كا حكم دیاہے ،اور اسے مسجد میں ادا كرنے كی ترغیب دی ہے تاكہ وہ ایك جلسہ اور تمام مسلمانوں كا اجتماع ہو ،اور محبت و بھائی چارہ كے رشتے اور بڑھ جائیں ،اور اسے آدمی كے تنہا نماز پڑھنے سے كئی درجہ افضل قرار دیا جیسا كہ اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے : «صَلاَةُ الجَمَاعَةِ تَفْضُلُ صَلاَةَ الفَذِّ بِسَبْعٍ وَعِشْرِينَ دَرَجَةً» (البخاري 645، مسلم650، أحمد 5921).( جماعت کے ساتھ نماز اکیلے نماز پڑھنے سے ستائیس درجہ زیادہ فضیلت رکھتی ہے)

نماز كی جگہ كے ضابطے

نماز كی جگہ كے لئے اسلام نے یہ شرط لگائی ہے كہ وہ پاك ہو ، اللہ تعالی فرماتا ہے {وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُود} (البقرة: 125). (ہم نے ابراہیم ﴿علیہ السلام﴾ اور اسماعیل ﴿علیہ السلام﴾ سے وعده لیا کہ تم میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع سجده کرنے والوں کے لئے پاک صاف رکھو)

اصل یہ ہے كہ جگہ پاك ہو

اصل پاكی ہے ،نجاست تو كبھی كبھار آنے والی چیز ہے،جب آپ كونجاست كا پتہ نہ چلے تو طہارت كا حكم دے دو، اور ہر طاہر سطح پر نماز پڑھنا جائز ہے ،اور مصلی و كپڑا وغیرہ لینے كی تكلف كرنے كی ضرورت نہیں كہ اسی پر ہی نماز پڑھی جائے

نماز كی جگہ كے لئے عام ضابطے ہیں ، جس كا خیال كرنا نمازی كے لئے ضروری ہے ، اور انہیں ضابطے میں سے چند یہ ہیں :

1-یہ كہ اپنی نماز كی جگہ میں لوگوں كو ایذا نہ پہونچائے ،جیسا كہ كوئی چالو راستوں اور عام گذر گاہوں میں نماز پڑھے ، یا جہاں ٹھہرنا منع ہے جو لوگوں كے ازعاج اور پھیڑ كا سبب بنے ،اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں كو ایذا اور نقصان پہونچانے سے منع كرتے تھے،جیسا كہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: "لا ضرر ولا ضرار" (ابن ماجه 2341، أحمد 2865)(صحیح).(کسی کو نقصان پہنچانا جائز نہیں نہ ابتداء ً نہ مقابلۃ ً

2-كوئی ایسی چیز اس جگہ نہ ہو جو نمازی كے ذہن كو مشغول كردے،جیسے تصویریں ، یا زور دار آواز ، اورمیوزك وغیرہ

3-وہ جگہ اصلا اللہ كی نافرمانی كے لئے تیار كیا گیا ہو، جیسے ناچنے گانے كی جگہیں ، اور نائٹ كلب ، تو ایسی جگہوں میں نماز پڑھنا مكروہ ہے ۔

كامیابی سے آپ نے درس مكمل كیا


امتحان شروع كریں