موجودہ قسم دورے اور سفر كے احكامات
سبق: رحلات كے ساتھ ایمانی توقفات
رحلات سے مراد سفری ٹرپس ہیں جو كہ ایك انسان فطری جگہوں یا اس جیسے مقامات كے سیر و تفریح كی خاطر رخت سفر باندھتا ہے
قرآن میں رحلہ كا لفظ الله تعالي كے اس فرمان میں آیا ہے: { لإِيلافِ قُرَيْشٍ، إِيلافِهِمْ رِحْلَةَ الشِّتَاءِ وَالصَّيْفِ}[ قريش:1-2]، (قریش کے دل میں محبت ڈالنے کی وجہ سے۔ [1] ان کے دل میں سردی اور گرمی کے سفر کی محبت ڈالنے کی وجہ سے) سرمائی سفر سے مراد موسم سرما میں قریش كا تجارتی سفر ہے ، اس موسم وہ یمن جاتے تھے، اورموسم گرما میں وہ شام كا سفر كرتے تھے
ہر حالت میں ایك مسلمان كی زندگی اللہ اور اس كی شریعت سے جڑی ہے ،اور سفر و رحلات شرعی احكام سے بھرے پڑے ہیں جسے اللہ نے ہمارے لئے بنایا ہے ،كیونكہ اس میں دنیا و آخرت كی بری مصلحتیں پوشیدہ ہیں ، اور وہ یہ ہے كہ انسان اپنی تصرف كو اس سمت جتنا اچھا ہو سكے كرے
یہ ممكن ہے كہ ایك مومن اپنے سفر و كوچ كو عبادت كی شكل دے دے،اس طور سے كہ وہ ایسی جگہوں كو جائے جہاں عبادتیں ہوتی ہیں ،جیسے حج ، عمرہ ، اور تلاش علم ، اور یہ بھي ممكن ہے كہ وہ اچھی نیت سے صلہ رحمی كرے ،یا اپنے گھر والوں كے دلوں كو خوش فراہم كرے ،یا اپنی ذات كو یا ان كی ذات كو ایسی چیزوں سے راحت بخشے جس اللہ كی اطاعت پر مدد چاہی جائے یا اس كی حرام كردہ چیزوں سے ہٹا جا سكے
( کہہ دے بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے، جو جہانوں کا رب ہے)
كائنات اللہ كی بہت ساری ایسی نشانیوں سے بھری ہیں جو اس كی عظمت ، رحمت اور حكمت كو بیاں كرتی ہیں ،اللہ تعالی كا ارشاد ہے : {إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لآيَاتٍ لِّأُوْلِي الألْبَابِ} [آل عمران:190](بے شک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے اور رات اور دن کے بدلنے میں عقلوں والوں کے لیے یقینا بہت سی نشانیاں ہیں)اور اسی وجہ سے اللہ نے عبرت كی نظروں سے زیادہ دیكھنے كا حكم فرمایا ہے ، نہ كہ بس نگاہوں كو فائدہ پہونچانے كے لئے ،اللہ تعالی نے فرمایا: {أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللَّهُ مِنْ شَيْءٍ} (الأعراف: 185).(اور کیا انھوں نے نگاہ نہیں کی آسمانوں اور زمین کی عظیم الشان سلطنت میں اور کسی بھی ایسی چیز میں جو اللہ نے پیدا کی ہے )
جیسا كہ تنہائی كبھی كبھي انسان كے اپنی ذات كے محاسبہ كا اچھا موقع ہے كہ وہ غور كرے كہ كل كے لئے اس نے كیا كیا ہے ،بالخصوص جب وہ تنہائی كے عالم میں ہو ، اور اس وقت اللہ تعالی ہی صرف اس كی نگرانی فرما رہا ہو
جو اپنے كوچ كی منزل پہنچ جائے ، چاہے و زمینی ہو یا فضائی ہو ، اس كےلیے یہ آئی ہوئی دعا پڑھنا مشروع ہے
سیدہ خولہ بنت حکیم سلیمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”جو شخص کسی منزل میں اترے پھر کہے: «أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ» پناہ مانگتا ہوں میں اللہ کے پورے کلموں کی، برائی سے اس کے جو اللہ نے پیدا کیا، تو اس کو کوئی چیز نقصان نہ پہنچائے گی یہاں تک کہ وہ کوچ کرے اس منزل سے۔“(مسلم 2708).