موجودہ قسم دورے اور سفر كے احكامات
سبق: دوران سفر نماز او رروزہ
جب پارك میں نماز كا وقت ہو جائے اوراس آس پاس كوئی مسجد نہ ہو تو ہر نماز كے لئے بلند آواز سے اذان دینا مشروع ہے
عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن ابی صعصعہ انصاری سے روایت ہے كہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ صحابی نے ان سے بیان کیا کہ میں دیکھتا ہوں کہ تمہیں بکریوں اور جنگل میں رہنا پسند ہے۔ اس لیے جب تم جنگل میں اپنی بکریوں کو لیے ہوئے موجود ہو اور نماز کے لیے اذان دو تو تم بلند آواز سے اذان دیا کرو۔ کیونکہ جن و انس بلکہ تمام ہی چیزیں جو مؤذن کی آواز سنتی ہیں قیامت کے دن اس پر گواہی دیں گی۔ ابوسعید رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔(البخاري 609).
یہاں سے اذان كی فضیلت معلوم ہوتی ہے ، اور جو سفر میں ہو اس سے شرمندہ نہ ہو ،اور نہ اس سے بے رغبت ہو ، ایك دوسری حدیث میں یوں آیا ہے "الْمُؤَذِّنُ يُغْفَرُ لَهُ مَدَى صَوْتِهِ، وَيَسْتَغْفِرُ لَهُ كُلُّ رَطْبٍ وَيَابِسٍ" (ابن ماجه 724).”مؤذن کی آواز جہاں تک پہنچتی ہے اس کی مغفرت کر دی جاتی ہے، اور ہر خشک و تر اس کے لیے مغفرت طلب کرتا ہے)(حسن صحیح)
جو شخص سفر میں یا رحلہ میں ہو تو قبلہ كے سمت كو معلوم كرنے كی كوشش كرے ،اور اس سے مراد مكہ كی سمت ہے، جب وہ اسے نہ دیكھ سكے تو اس كی سمت ہی اس كے لے كافی ہے ،اور پوری باریكی كے ساتھ عین كعبہ كی طرف رخ ہونالازم نہیں ، كیونكہ یہ دشوار ہے ، اور اس سے متعلق صحابہ سے كچھ نہیں بیان ہوا ہے
اگر اس نے كوشش كی ، اور نماز پڑھ لی ،اور قبلہ كو ڈھونڈا تو اس كی نماز صحیح ہے ،حتی نماز ختم ہونے كے بعد اسے یہ پتہ چلا ہو كہ اس نے نماز غیر فبلہ كی طرف رخ كركے پڑھ لی ہے ،البتہ اگر نماز كے دوران اسے پتہ چل جائے تو وہ فورا قبلہ كی طرف مڑ جائےگا،لیكن اگر اس نے قبلہ ڈھونڈنے كی كوشش نہیں كی اور اس كے بعد اس نے نماز پڑھ لی ،اور بعد میں اسے معلوم ہو كہ اس نے قبلہ رخ نماز نہیں پڑھی ہے تو وہ نماز كو دوبارہ پڑھے گا
قبلہ كی جانكاری كے لئے نئی ایجاد شدہ مشینوں كی جانكاری كافی ہے ،یا سورج وغیرہ كے باوثوق ذرائع كی وضاحت ، یا اہل شہر كے معتمد لوگوں كی بات،یا نماز كے ایسے محراب بنے ہوں جو قبلہ كی وضاحت كررہے ہوں
آپ كے اہم ترین كاموں میں سے دوران سفر نماز پر مداومت كرنا ہے ،اوریہی بندے كے ایمان كی سچائی كی دلیل ہے
حدیث میں آیا ہے : "الصلاة في جماعة تعدل خمساً وعشرين صلاة، فإذا صلاها في فلاة فأتم ركوعها وسجودها بلغت خمسين صلاة" (أبو داود 560).”باجماعت نماز (کا ثواب) پچیس نمازوں کے برابر ہے، اور جب اسے چٹیل میدان (بیابان میں) میں پڑھے اور رکوع و سجدہ اچھی طرح سے کرے تو اس کا ثواب پچاس نمازوں تک پہنچ جاتا ہے“(صحیح)
اور یہ فضیلت اس لئے ہے كہ یہ اللہ سے جڑے رہنے اور اس كے خوف كی دلیل ہے ، یہاں تك كہ لوگوں سے اور ان كی نگاہوں سے دوری كی حالت میں ہے ،اسی وجہ سے حدیث میں یہ آیا ہے"يعجب ربكم من راعي غنم في رأس شظية بجبل، يؤذن بالصلاة ويصلي، فيقول الله عز وجل: انظروا إلى عبدي هذا، يؤذن ويقيم الصلاة، يخاف مني، قد غفرت لعبدي وأدخلته الجنة". (أبو داود 1203). ”تمہارا رب بکری کے اس چرواہے سے خوش ہوتا ہے جو کسی پہاڑ کی چوٹی میں رہ کر نماز کے لیے اذان دیتا اور نماز ادا کرتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: دیکھو میرے اس بندے کو، یہ اذان دے رہا ہے اور نماز قائم کر رہا ہے، مجھ سے ڈرتا ہے، میں نے اپنے بندے کو بخش دیا اور اسے جنت میں داخل کر دیا“۔(صحیح)
لوگ جب ٹھنڈی والے علاقے كی طرف كوچ كرتے ہیں تو وہ آگ جلاتے ہیں ،اور بسا اوقات وہ نماز كے قبلہ كے سامنے ہوتی ہے ،افضل یہ ہے كہ آگ كی طرف رخ كركے نماز نہ پڑھی جائے ،بالخصوس امام ایسا نہ كرے ،مجوسیوں كی مشابہت سے بچنے كی خاطر كیونكہ وہ آپ كی پرستش كرتے ہیں ،اور اس وجہ سے بھی كہ وہ نمازی كو غفلت میں ڈال دیتی ہے ،لیكن اگر گرمی حاصل كرنے كے لئے اس كی ضرورت ہی ہو یا جگہ بدلنے میں دشواری ہو تو كوئی حرج كی بات نہیں ہے
دو نمازوں كے درمیان جمع كرنے كا مقصود یہ ہے كہ نماز ظہر پڑھی جائے اور اسےنماز عصر كے ساتھ جمع كیا جائے ،یا نماز مغرب پڑہی جائے اور عشاء كے ساتھ اسے جمع كیا جائے، دو نمازیں كسی ایك كے وقت میں جمع كی جائیں ،(چاہے وہ جمع تقدیم ہو یا جمع تاخیر )اور یہ اس وقت ہے جبكہ دو نمازوں كے بیچ جمع كرنے كے جائز عذر پائے جائیں،
قصر سے مراد یہ ہے كہ چار ركعت والی نمازیں دو ركعت ادا كی جائیں،یعنی ظہر و عصر و مغرب، اور رہی بات نماز مغرب و فجر كی تو اس میں قصر نہیں ہے
دوران سفر نماز قصر كرنے اور اسے جمع كےنے كے جائز عذر: سفر ہے ،اور سفر سے مراد شہر كی آبادی كو چھوڑ كر اتنی دور مسافت طے كی جائے جسےسفر كا نام دیا جا سكے ،بعض اہل علم نے موجودہ دور كے پیمائش كو سامنے ركھ كر اس كی دوری اسی (80) كلو میٹر كے قریب متعین كی ہے ،اسی بنا پرجب كوئی تفریحی كوچ كرے جو اس كے شہر سے قریب ہوتو وہ نماز قصر نہیں كرے گا،اور اگر وہ بعید مسافت كے لئے نكلا ہے جسے سفر شمار كیا جائے تو وہ قصر كرے گا،گرچہ وہ سیر و تفریح كے لے ہی كیوں نہ نكلا ہو
نماز میں قصر كرنا مسافر كے لئے سنت ہے ،اور رہی بات نماز جمع كرنے كی تو اگر وہ دوران سفر ہے تو اس كے لئے یہ جائز ہے كہ وہ اپنی روانی كے مناسبت سے چاہے جمع تقدیم كرلے یا جمع تاخیر كرلے،اور اگر وہ كسی جگہ قیام كرلے تو اس كے لئے افضل یہ ہے كہ ہر نماز اسےكے وقت پر ادا كرے ،بالخصوص اگر ممكن ہو تو مسجد كی جماعت كے ساتھ نماز پڑھے
مسافر اور رحلے والوں پر یہ ضروری ہے كہ سفركی مشغولیت كی وجہ سے نماز كو اس كے اوقات میں ادا كرنے سے غفلت نہ برتیں ،اللہ نے جنگی حالت كے ذكر كے بعد فرمایا {فَإِذَا اطْمَأْنَنتُمْ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ ۚ إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا} (النساء: 103). (پھر جب تم مطمئن ہوجائو تو نماز قائم کرو۔ بے شک نماز ایمان والوں پر ہمیشہ سے ایسا فرض ہے جس کا وقت مقرر کیا ہوا ہے)۔
دوران سفر دو نمازوں كے جمع كے وقت صرف ایك اذان دینا كافی ہے ،پھر ہر نماز كے لئے الگ الگ اقامت كہی جائےگی ، اور رہی نماز كے بعد اذكار كی بات تو وہ دوسری نماز كے بعد پڑھی جائے گی
رحلات كے دوران كبھی جمع و قصر كے جائز عذر كے وجود كے متعلق اختلاف رونما ہو جاتا ہے ، اصولی طور پر گروپ كے سردار (جیسے باپ) اس كے ذمہ دار ہیں ،تو وہ خود كوشش كریں اگران كے پاس علم ہے ، وگرنہ جس كے پاس علم ہے اس سے مشورہ كریں ،اور ان سب كے باوجود اگرجائز ہونے پر غالب گمان نہ ہوتو نہ تو قصر اور نہ ہی جمع كریں گے ،اور جماعت كے لئے یہ ضروری ہے كہ وہ آپس میں نہ لڑیں،اس لئے كہ باہم الفت و محبت بھی عبادت ہے
سفر میں بذات خود روزے كا قصد نہ كیا جائے،لیكن جس كا معمول ہو ہر ہفتہ سوموار اور جمعرات كو روزہ ركھنااور سفر اسی دن واقع ہو جائے تو اس كے لئے روزہ ركھنے كی ممانعت نہیں
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (رمضان میں) سفر کیا کرتے تھے۔ (سفر میں بہت سے روزے سے ہوتے اور بہت سے بے روزہ ہوتے) لیکن روزے دار بے روزہ دار پر اور بے روزہ دار روزے دار پر کسی قسم کی عیب جوئی نہیں کیا کرتے تھے۔(البخاري 1947، مسلم 1118).