تعلیم كو فالو اپ كریں

اب تك آپ نے انڑی كے لئے رجسٹریشن نہیں كیا
اپنی ترقی كے فالواپ كے لئے اور پوائنٹس اكٹھا كرنے كے لئے ،اور مسابقے میں شركت كے لئے منصہ تاء میں فورا رجسٹریشن كریں ،رجسٹرد ہونے كے بعد جن موضوعات كی آپ تعلیم حاصل كررہے ہیں آپ اس كی الكڑانك سرٹیفیكیٹ حاصل كریں گے

موجودہ قسم دورے اور سفر كے احكامات

سبق: سفریات میں كثرت سے ہونے والے عام احكام

روزے اور نماز كے وقت رحلات و سفرسے متعلق احكام ٹھہرتے نہیں ہیں، دیگر اور بھی حالات ہیں جن كے احكام ہیں ،اس سبق میں انہیں كے متعلق چند ایك كا علم حاصل كریں گے

دوران رحلات پیش آنےوالے بیشتر عام احكام كی معرفت

سونے كے وقت آگ بجھا دینا

سونے سے پہلے مناسب ہے :اس آگ كو بجھا دینا جو ٹھنڈی كے رحلات كے دوران جلائی جاتی ہے ،خصوصا خیمہ وغیرہ میں

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مدینہ منورہ میں ایک گھر رات کے وقت جل گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق کہا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آگ تمہاری دشمن ہے اس لیے جب سونے لگو تو اسے بجھا دیا کرو۔(البخاري 6294، ومسلم 2016)، ایك دوسری حدیث میں یوں ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جب سونے لگو تو گھر میں آگ نہ چھوڑو۔“(البخاري 6293، ومسلم 2015)، ایك اور حدیث میں ہے (موذی جانور (چوہا) بعض اوقات جلتی بتی کو کھینچ لاتا ہے اور اس طرح سارے گھر کو جلا دیتا ہے۔)(البخاري 3316، ومسلم 2012).

شكار كے احكام

اصل میں شكار كرنا جائزہے ، لیكن دین و گھر والوں كی مصلحتوں سے مشغول ہو كر اور ہمیشہ شكار ہی مین دل لگائے ركھنے كا سبب بنے تو مناسب نہیں ہے ،اور ایسے ہی فضول خرچی ، بے كار كام ، اور فخر و تكبر كا سبب بنے وہ بھی مناسب نہیں ہے، حدیث میں ہے : (من سكن البادية جفا، ومن اتبع الصيد غفل) (أبو داود 2859). (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص صحراء اور بیابان میں رہے گا اس کا دل سخت ہو جائے گا، اور جو شکار کے پیچھے رہے گا وہ (دنیا یا دین کے کاموں سے) غافل ہو جائے گا، ) (صحیح)

اصل میں تمام جانوروں كاشكار كرنا مباح ہے ،اور ان كا گوشت كھانا بھی ، مگر جن پر پابندی كی دلیل آئی ہے ،جیسے درندوں میں سے ہر دانت والےجانور جیسے بھیڑیا ،لومڑیاں اور ایسے ہی پرندوں میں سے ہر پنجے والے جیسے چیل و گدھ ، اور زہریلے جانورجیسے ازدھے سانپ،وغیرہ

زمینی و سمندری ہر قسم كے جانور كا شكار سال بھر جائز ہے ،اور جمعہ كےدن ، یا ماہ رمضان ، یا حرمت والے مہینوں وغیرہ میں كوئی تفریق نہیں ،ہاں لیكن حرم مكی یا مدنی میں شكار كرنا حرام ہے، اور دوسروں كے ملكیت والے جانوروں كا شكار بھی حرام ہے ،اور احرام والے شخص پر صحرائی جانوروں كا شكار كرنا حرام ہے

شكاری كا مسلمان ہونا شرط ہے ، اور دوسری شرط یہ ہے كہ ذبح كرنے كے وقت اللہ كا نام یعنی بسم اللہ پڑھے ،اور یہ كہ وہ شكار كتوں یا پرٹرینڈ شكاری پر ندوں كے ذریعہ كیا گیا ہو،اگر پرندہ خود بخود اڑ كر گیا ہو یا اس كے علم كے بغیر گولی چلی ہو تو اس شكار كا كھانا صحیح نہیں ہے ،البتہ اگر وہ شكار اسے موت سے پہلے مل جائے اور بسم اللہ پڑھ كراسے ذبح كردیا ہو تو جائزہے۔

اور ایسے ہی یہ شرط بھی عائد كی جاتی ہے كہ شكار كی موت اسی كی زخم كے سبب سے ہو ،نہ یہ كہ اس كا گلا گھونٹا گیا ہو يا اسے ڈبو دیا گیا ہو،یا اسے ہتھوڑے سے مارا گیا ہو یا اسے كسی بلند پہاڑ سے گرا دیا گیا ہو،اور جب شكار ٹھیك ٹھاك زندہ حالت میں ملے تو اس كو شرعی طور سے ذبح كرنا ضروری ہے

بے ضرورت شكار كا قتل كرنا منع ہے ،جیسے كوئی شكار تو كرے پراسےكھائے نہ،اور اسی طرح اس میں شكار كے اسلحے لوگوں كو دكھا كرڈرانا ہو ،اور یہ بھی گناہ كے قبیل سے ہے كہ شكار كی مشاقی كے لئے اسے باندھا ركھا جائے

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما قریش کے چند جوانوں پر گزرے، انہوں نے ایک پرندہ پر نشانہ لگایا تھا اور اس کو تیر مار رہے تھے، اور جس کا پرندہ تھا اس سے یہ ٹھہرایا تھا کہ جو تیر نشانہ پر نہ لگے، اس تیر کو وہ لے لے، جب ان لوگوں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا تو الگ ہو گئے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: لعنت کی اللہ تعالیٰ نے اس پر جو ایسا کام کرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے اس شخص پر جو کسی جاندار کو نشانہ بنائے۔ (البخاري 5515، مسلم 1958).

دوسروں پر اسلحہ سے اشارہ كرنا حرام ہے گرچہ یہ بلاوجہ ہو ،جیسا كہ حدیث میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”کوئی شخص اپنے کسی دینی بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ نہ کرے کیونکہ وہ نہیں جانتا ممکن ہے شیطان اسے اس کے ہاتھ سے چھڑوا دے اور پھر وہ کسی مسلمان کو مار کر اس کی وجہ سے جہنم کے گڑھے میں گر پڑے۔“(البخاري 7072، ومسلم 2617) ایك دوسری حدیث میں یوں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی اپنے بھائی کو لوہے سے ڈرائے (یعنی ہتیھار سے) اس پر فرشتے لعنت کرتے ہیں جب تک اس سے باز نہ آئے اگرچہ وہ اس کا سگا بھائی ہو۔“(مسلم 2616)

شكار كے دستور و ضوابط كا جاننا شكاری كے اوپر واجب ہے ،اور اصول سلامتی كا جاننا بھی ، تاكہ اپنی جان اور دوسرے كی جان بچاسكے ،اور یہاں ذبح كرنے كے خاص احكام ہیں (جانور كے شرعی طریقے سے ذبح كرنے كے ) اور شكاری كتوں كے طریقہ استعمال كے احكام ،اور شكار كے مرجانے كے حالات كے احكام ،تو اس میں اہل علم كی طرف لوٹا جائے گا

كھانے كے احكام

اصل میں كھانے حلال ہیں ، البتہ جس كے كھانے كی ممانعت كی دلیل موجود ہو

حرام كھانے اور حرام مشروبات

١
مردار اور اس سے جڑی ہوئی چیزیں
٢
سور
٣
شراب اور نشیلی مادے، اور ہر وہ چیز جس كا بڑا حصہ عقل كو اڑا لے جائے تو اس كا تھوڑا حصہ بھی حرام ہے
٤
جس میں بدن كے لئے ضرر اور نقصان ہو
٥
جو اپنی دانت سے شكار كرتے ہوں جیسے شیر ، كتا اور بلی ، یا اپنے پنجوں سے شكار كرتے ہوں جیسے چیل گدھ او ر باز
٦
چورائے ہوئے اورغصب كئے ہوئے كھانے

حلال ہونے میں تمام پودے وسبزیاں ، اور میدانوں میں پائے جانے والے یا بازار میں پائے جانے والے تمام پھل داخل ہیں ، لیكن ایك مسلمان كے لئے نقصان دہ چیزوں كا نہ كھانا واجب ہے ،یا جن جیزوں كے حفظان صحیت كا علم نہ ہو

كامیابی سے آپ نے درس مكمل كیا


امتحان شروع كریں