موجودہ قسم ایمان
سبق: اللہ كے رب ہونے پرایمان لانا
توحید ربوبیت كا معنی:
وہ اقرار اور وہ پختہ تصدیق كہ اللہ تعالی ہر چیز كا پالنہار ، اس كا مالك ، اس كا پیدا كرنےوالا،ارو اس كا رازق ہے ،اور وہی زندہ كرنے والا ، اور موت دینےوالا ہے ،اور وہی نفع و نقصان كا مالك ہے ،سارا معاملہ اسی كے ہاتھ میں ہے ،اور اسی كے ہاتھ میں خیر ہے ،اور وہی ہر چیز پر قادر ہے ،اس میں اس كا كوئی ساجھی نہیں ،تو اب ربوبیت كا معنی ہوا اس كے تمام افعال میں اسے ایك قرار دینا ، اور یہ چند امور پر اعتقاد ركھنے سے ہوتا ہے :
یہ كہ صرف ایك اللہ ہی كائنات میں پائی جانے والی ہر چیز كا پیدا كرنے والا ہے ، اور اس كے سوا كوئی دوسرا پیدا كرنے والا نہیں،جیسا كہ اللہ نے فرمایا ہے : (اللهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْء) (الزمر: 62).(اللہ ہر چیز كا پیدا كرنے والا ہے )لیكن انسان كے ہاتھوں بنائی گئی چیزیں وہ ایك حالت سے دوسری حالت كی جانب پھیرنا ہے ،یا بكھری چیزوں كو جمع كرنا اور انہیں جوڑںا ہے ،یا اسی جیسا ، اور یہ حقیقی پیدائش نہیں ہے اور نہ ہی اسے عدم سے وجود میں لانا ہے ،اورنہ ہی مرنے كے بعد اسے زندہ كرنا ہے ۔
اور اللہ ہی ساری مخلوقات كو روزی دینے والا ہے ، اس كے سوا كوئی بھی روزی دینے والا نہیں ،جیسا كہ اللہ تعالی كا ارشاد ہے: (وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللهِ رِزْقُهَا) (هود: 6). ( زمین پر چلنے پھرنے والے جتنے جاندار ہیں سب کی روزیاں اللہ تعالیٰ پر ہیں)
اللہ ہی ہر چیز كا مالك و مختار ہے ،حقیقت میں اس كے علاوہ كوئی بھي مالك نہیں ،جیسا كہ اللہ سبحانہ تعالی نےفرمایا: (لِلهِ مُلْكُ السَّموَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا فِيهِن) (المائدة: 120).( اللہ ہی کی ہے سلطنت آسمانوں کی اور زمین کی اور ان چیزوں کی جو ان میں موجود ہیں)
اور اللہ ہی ہر چیز كا تدبیر كرنے والا ہے ، اور اللہ كے علاوہ كوئی مدبر نیہں ، اللہ كا ارشادہے: (يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْض) (السجدة: 5).(وه آسمان سے لے کر زمین تک (ہر) کام کی تدبیر کرتا ہے)
اللہ كی تدبیر اور انسان كی تدبیر
اور رہی بات انسان كے اپنے معاملے ، حیات ، اور ترتیب كے تدبیر كرنے كی تو یہ مقید او رناقص ہے جو اس كے اپنی ملكیت و استطاعت اور اس كے ہاتھ میں ہے ،اور كبھی اس كی تدبیر كامیاب ہوتی ہے اور كبھي ناكام و نامرادہو جاتی ہے ،لیكن اللہ سبحانہ و تعالی كی تدبیر ہر چیز كو شامل ہے كوئی بھي چیز اس سے باہر نہیں ،اور وہ ہوكر رہتی ہے نہ تو اس كے پیچھے سے كوئی چیز اس كو پھیر سكتی ہے اور نہ ہی اس كا معارضہ كر سكتی ہے ،جیسا كہ اللہ تعالی نے فرمایا: (أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ تَبَارَكَ اللهُ رَبُّ الْعَالَمِين) (الأعراف: 54).(یاد رکھو اللہ ہی کے لئے خاص ہے خالق ہونا اور حاکم ہونا، بڑی خوبیوں سے بھرا ہوا ہے اللہ جو تمام عالم کا پروردگار ہے)
عہد رسالت میں عرب كے مشركین اللہ كے رب ہونے كا اقرار كرنے والے تھے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے عہد میں كفار نے یہ اقرار كیا كہ اللہ ہی خالق و مالك اور تدبیر كرنے والا ہے ،اللہ كا ارشاد ہے : (وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ) (لقمان: 25)،( اگر آپ ان سے دریافت کریں کہ آسمان وزمین کا خالق کون ہے؟ تو یہ ضرور جواب دیں گے کہ اللہ،) لیكن ان كے صرف اس اقرار نے انہیں اسلام میں داخل نہ كیا ،كیونكہ انہوں نے اس كے ساتھ ساتھ عبادت میں اللہ كو ایك نہیں مانا ،بلكہ اللہ كے ساتھ انہوں نے غیراللہ كی عبادت كی ،اس لئے جس نے یہ اقرار كیا كہ اللہ رب العالمین ہے _یعنی وہ سب كا خالق ، مالك ،اور اپنی نعمت سے ان كی پرورش كرنےوالاہے _اس كے لئے یہ بھي لازم ہےكہ وہ عبادت میں بھی اللہ كو ایك مانے ،اور عبادت كو اسی ایك اللہ كے نام كرے جس كا كوئی شریك و ساجھی نہیں
یہ كیسی عقلمندی ہے كہ انسان یہ اقرار كرے كہ اللہ ہر چیز كا پیدا كرنے والا ہے اور وہی كائنات كا تدبیر كرنے والا اور وہی موت و حیات دینے والا ہے ،پھر اس كے بعد عبادت كے كچھ قسموں كو غیراللہ كی طرف پھیر دے،؟ یہ سب سے گھناؤنا اور بدترین ظلم اور گناہوں میں سب سے عظیم گناہ ہے ،اور اسی وجہ سے لقمان نے اپنے بیٹے كو نصیحت اور توجیہ كرتے ہوئے فرمایا: (يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيم) (لقمان: 13).( اور جب کہ لقمان نے وعظ کہتے ہوئے اپنے لڑکے سے فرمایا کہ میرے پیارے بچے! اللہ کے ساتھ شریک نہ کرنا بیشک شرک بڑا بھاری ﻇلم ہے )
اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال كیا گیا كہ اللہ كے نزدیك سب سے بڑا گناہ كون سا ہے ؟تو آپ نے فرمایا: "أن تجعل لله نِدّاً وهو خلَقَك" (البخاري 4477، مسلم 86).( تم اللہ کے ساتھ کسی کو برابر ٹھہراؤ حالانکہ اللہ ہی نے تم کو پید اکیا ہے)
جب بندے كو یہ علم یقین ہو جائے كہ اللہ تعالی كی تقدیر سے مخلوقات میں سے كسی كا بھی نكلنا ممكن نہیں ہے ،كیونكہ اللہ جل و علا ہی ان تمام لوگوں كا پیدا كرنے والا ہے ،اس كے سوا ان كا كوئی خالق ہی نہیں ،اور یہ بھی كہ وہی ان كا مالك و بادشاہ ہے وہ اپنی حكمت كے مطابق جیسا چاہتا ہے انہیں ویسا پھیرتا رہتا ہے ،اور جب بندے كو یہ بھي پتہ چل جائے كہ پورا كا پورا معاملہ اللہ سبحانہ كے ہاتھ میں ہے ،اور اس كائنات كی تدبیركرنے والا صرف وہی ہے اس كے علاوہ كوئی نہیں ،كوئی ذرہ بھی اس كی اجازت كے بغیر حركت نہیں كرسكتا اور نہ ہی اس كے حكم كے بغیر ٹھہر سكتا ہے ،اور ایسے ہی جب بندے كو علم یقین ہو جائے كہ اللہ كے سوا كوئی روزی دینے والا ہی نہیں ،تو پھر یہی اس كے دل كو چین و سكون عطا كرتے ہیں ،اور صرف ایك اللہ سے دل لگانا ، اسی سے مانگنا ،اور اسی كے سامنے محتاجی كا اظہاركرنا، اور اپنی زندگی كی تمام شعبوں میں اسی پر اعتماد و بھروسہ كرنا ہے۔