موجودہ قسم ایمان
سبق: اللہ كے اسماء اور اس كی صفات پر ایمان لانا
اللہ كے اسماء اور اس كے صفات پرایمان
قرآن كریم نےبندوں كو اپنے رب اور اپنے خالق كی جانكاری حاصل كرنے پر زور دیا ہے ، اور اسے بہت سی آیتوں میں بار بار بیان كیا ہے ،اس لئے كہ ایك مسلمان كے لئے ضروری ہے كہ وہ اپنے رب كے اسمائے حسنی اور اس كے جلال و جمال كی ان خوبیوں كے اچھی طرح جان لے جن خوبیوں سے اللہ سبحانہ تعالی كو متصف كیا جاتا ہے تاكہ سوجھ بوجھ كے ساتھ اللہ كی عبادت كرے ، اور ان اسماء و صفات كے تقاضوں اور ان كے اثرات كو اپنی زندگی اور بندگی میں عملی جامہ پہنا سكے ۔
اللہ نے جو اپنی ذات كے لئے اپنی كتاب میں یا اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم كی سنت میں اپنے شایان شان جو اسماء و صفات ثابت كیا ہے،ایك مسلمان اس پرایمان ركھتا ہے۔
اللہ سبحانہ كے احسن اسماء اور اكمل صفات ہیں ،اور اس كے اسماء و صفات میں اس كا كوئی ہم مثل نہیں ،جیسا كہ اللہ تعالی نے فرمایا: (لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِير) (الشورى: 11)(اس جیسی کوئی چیز نہیں وه سننے اور دیکھنے واﻻ ہے )اس آیت میں اللہ تعالی اپنے تمام اسماء وصفات میں اپنی مخلوقات میں سے كسی كی بھی مماثلت(ہم مثل) سے پاك ہے۔
یہاں ہم اللہ تعالی كے بعض اسماء كو بیش كررہے ہیں
الرَّحْمَنِ الرَّحِيم
یہی دونام ہیں جن كے ذریعہ اللہ نے سورہ فاتحہ كا آغاز فرمایا ہے ،اور پہلا یہی وہ نام جس سے اللہ نے اپنے بندوں كو اپنی ذات كے بارے میں پہچان كرائی ہے ،اور انہیں دونوں سے قرآن كریم كی ہر سورت سوائے سورہ توبہ كے شروع كیا ہے ،اوروہ اس طرح ہے (بسم الله الرحمن الرحيم)
اور ہمارے رب نے یہ مہربانی فرمائی ہے كہ اس نے اپنی ذات مہربانی لكھ ركھی ہے ،اور اس كی رحمت ہر چیز یے بڑھ كر ہے ،یہاں تك كہ ان میں بعض مخلوقات كی مہربانی بعض كے لئے ، اور ماں كی مہربانی اس كے بچے كےلئے ،اور مخلوقات كے لئے كھانا فراہم كرنےیہ سب اللہ كی مخلوقات پراللہ كی رحمت كی جھلكیوں میں سے ایك جھلك ہے ،جیسا كہ اللہ تعالی نے فرمایا: (فَانْظُرْ إِلَى آثَارِ رَحْمَتِ اللهِ كَيْفَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا) (الروم: 50).(پس آپ رحمت الٰہی کے آﺛار دیکھیں کہ زمین کی موت کے بعد کس طرح اللہ تعالیٰ اسے زنده کر دیتا ہے؟ )
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی آئے قیدیوں میں ایک عورت تھی جس کا پستان دودھ سے بھرا ہوا تھا اور وہ دوڑ رہی تھی، اتنے میں ایک بچہ اس کو قیدیوں میں ملا اس نے جھٹ اپنے پیٹ سے لگا لیا اور اس کو دودھ پلانے لگی۔ ہم سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم خیال کر سکتے ہو کہ یہ عورت اپنے بچے کو آگ میں ڈال سکتی ہے ہم نے عرض کیا کہ نہیں جب تک اس کو قدرت ہو گی یہ اپنے بچے کو آگ میں نہیں پھینک سکتی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ اللہ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ رحم کرنے والا ہے جتنا یہ عورت اپنے بچہ پر مہربان ہو سکتی ہے۔
خالق سبحانہ و تعالی كی رحمت ایك الگ انتہائی عظیم و جلیل شی ہے ،اور وہ ہراندازے ، یا گمان یا تصور و خیالات سے اوپر ہے ،اگر بندوں كو اللہ عزوجل كی رحمت كے مقدار كا علم ہو جائے تو كوئی بھی اس كی رحمت سے مایوس نہ ہوگا
اور اللہ سبحانہ و تعالی كی رحمت دو قسم كی ہیں :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :"لَنْ يُدْخِلَ الْجَنَّةَ أَحَدًا عَمَلُهُ" قَالُوا: وَلَا أَنْتَ يَا رَسُولَ اللهِ؟! قَالَ: "وَلَا أَنَا، إِلَّا أَنْ يَتَغَمَّدَنِيَ اللهُ مِنْهُ بِرَحْمَةٍ" (البخاري 6467، ومسلم 2818).(دیکھو جو نیک کام کرو ٹھیک طور سے کرو اور حد سے نہ بڑھ جاؤ بلکہ اس کے قریب رہو (میانہ روی اختیار کرو) اور خوش رہو اور یاد رکھو کہ کوئی بھی اپنے عمل کی وجہ سے جنت میں نہیں جائے گا۔ صحابہ نے عرض کیا: اور آپ بھی نہیں یا رسول اللہ! فرمایا اور میں بھی نہیں۔ سوا اس کے کہ اللہ اپنی مغفرت و رحمت کے سایہ میں مجھے ڈھانک لے۔)
اور جب جب بندے كی اطاعت عظیم ہو جائے ، اور اس كی قربت و رب سے اس كی رازداری بڑھ جائےاسی حساب سے وہ اس كا نصیب بھي اس رحمت كی حقداری میں بڑھ جاتا ہے ، جییسا كہ اللہ تعالی نے فرمایا : (إِنَّ رَحْمَتَ اللهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ) (الأعراف: 56).(ے شک اللہ کی رحمت نیکی کرنے والوں کے قریب ہے)
بہت سننے والا ، خوب دیكھنے والا
اللہ سبحانہ تعالی الگ الگ زبان اور الگ الگ حاجات كے باوجود سب كی آواز كو سنتا ہے ،چاہے وہ چپكے چپكے یا زور زور سے بات كریں،اور جب كچھ جاہلوں نے یہ گمان كیا كہ اللہ ان كے بھیدوں اورچھپی ہوئی باتوں كو نہیں سنتا ہے تو انہیں ڈانٹنے اور ان كی سرزنش كرتے ہوئے اللہ نے یہ بات فرمائی: (أَمْ يَحْسَبُونَ أَنَّا لَا نَسْمَعُ سِرَّهُمْ وَنَجْوَاهُمْ بَلَى وَرُسُلُنَا لَدَيْهِمْ يَكْتُبُونَ) (الزخرف: 80).( یا وہ گمان کرتے ہیں کہ ہم ان کا راز اور ان کی سرگوشی نہیں سنتے، کیوں نہیں اور ہمارے بھیجے ہوئے ان کے پاس لکھتے رہتے ہیں)
اور اللہ ہر چیز كو دیكھتا ہے ،وہ جتنا بھی باریك او رچھوٹا كیوں نہ ہو ،اور اللہ سبحانہ پر كوئی بھی پوشیدہ رہنے والی چیز پوشیدہ نہیں رہتی ،اور ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ كا انكار كیا كہ وہ ایسے بتوں كی عبادت كریں جو نہ سنتے ہیں اور نہ دیكھتے ہیں ، اور فرمایاحیسا كہ قرآن میں ہے (يَا أَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْمَعُ وَلَا يُبْصِرُ وَلَا يُغْنِي عَنْكَ شَيْئًا) (مريم: 42).(اے میرے باپ! تو اس چیز کی عبادت کیوں کرتا ہے جو نہ سنتی ہے اور نہ دیکھتی ہے اور نہ تیرے کسی کام آتی ہے؟ )
جب بندے كو یہ معلوم ہوگیا كہ اللہ سنتا اور دیكھتا ہے اور اس پر زمین و آسمانوں میں كوئی چیز ذرہ برابرمخفی اور پوشیدہ نہیں،اور وہ تمام پوشیدہ اور مخفی چیزوں كو بخوبی جانتا ہے ، اس نے اللہ كی نگہداشت اور اس كی نگرانی كو دل میں بٹھا دیا ،تو بندہ تمام جھوٹی اور گری ہوئی باتوں میں واقع ہونے سے اپنی زبان كی حفاظت كرلیتا ہے ،اور اپنے اعضاء و دل كی تمام توجہ جو غضب الہی كا سبب بنے اس سے حفاظت كرتا ہے ،اور تمام نعمتوں و طاقتوں ان چیزوں كے تابع بنادیتا ہے جس سے اللہ راضی ہوتا ہے اورپیند فرماتا ہے ،كیونكہ اللہ ہی اس كے تمام راز و نیاز ، اور اس كے ظاہر و باطن پر مطلع ہے ، اسی وجہ سے اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: "الإحسان أن تعبد الله كأنك تراه فإن لم تكن تراه فإنه يراك" (البخاري 4777، ومسلم 9).(احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی اس طرح عبادت کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو ورنہ یہ عقیدہ لازماً رکھو کہ اگر تم اسے نہیں دیکھتے تو وہ تمہیں ضرور دیکھ رہا ہے)
تو اللہ عزوجل ہی كے لئے ایسی كامل زندگی ہے جس سے پہلے عدم نہیں تھا ،اور نہ ہی اسے زوال وفنا لاحق ہوگی،اور نہ ہی كوئی نقص یا عیت اس كے كنارے تك پھٹكے گی ، ہمارے رب كی شان عالی ہے اور ان تمام نقائص سے پاك ہے ، اوراللہ كی حیات ایسی ہے جواس كے كمال صفت یعنی علم ، سمع، بصر، قدرت ارادہ اور اس كے علاوہ دیگر صفات كو لازم ہے ، اور جس كی یہ شان ہو حقیقت میں وہی حقدار ہے كہ اس كی عبادت كی جائے ، اس كے لئے ركوع كیا جائے اوراسی پرتوكل كیا جائے جیساكہ اللہ تعالی نے فرمایا: (وَتَوَكَّلْ عَلَى الْحَيِّ الَّذِي لَا يَمُوت) (الفرقان: 58).( اور اس زندہ پر بھروسا کر جو نہیں مرے گا )
اللہ كے نام قیوم كامعنی دو امر پردلالت كرتا ہے:
اس وجہ سے دعا و عاجزی میں ان دونوں عظیم ناموں كا ایك ساتھ آنا اس كا ایك خاص مقام ہے ،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم كی دعا میں سے تھا ،"يا حي ياقيوم برحمتك أستغيث"(الترمذي 3524 ،حسن).(اے زندہ اور ہمیشہ رہنے والے! تیری رحمت کے وسیلے سے تیری مدد چاہتا ہوں)