موجودہ قسم عبادت
سبق: عبادت كی حقیقت
عبادت ان تمام اعمال و اقوال كا جامع نام ہے جس سے اللہ پسند كرے اور راضی ہو،چاہے وہ اعمال و اقوال ظاہری طور پریا باطنی طور عمل میں لائے جائیں،تو وہ تمام اعمال و اقوال جسے اللہ پنسند فرمائیں اسے عبادت شمار كیا جائےگا۔
عبادت كی حقیقت
عبادت كہتے ہیں :محبت ، تعظیم اور انكساری كے ساتھ مطلق فرمانبرداری،اور یہ بندوں پر اللہ كا حق ہے ،اور اس كے ساتھ سب كو چھوڑ كر صرف اللہ كی ذات خاص ہے ،اور عبادت ہر اس چیز كو شامل ہے جسے اللہ پسند فرمائے اور راضی ہو چاہے وہ اقوال و اعمال ہوں جن كے بجالانے كا اللہ نےحكم دیا ہے اور لوگوں كو اس كی ترغیب دی ہے ،چاہے وہ ظاہری اعمال ہوں جیسے نماز ، زكات ، اور حج ، یا وہ باطنی اعمال ہوں جیسے دل سے ذكر الہی كرنا اور اس سے ڈرنا ،اس پرتوكل كرنا ،اسی سے مدد منگنا وغیرہ
اپنے بندوں پر اللہ كی یہ رحمت ہے كہ اس نے ان كے لئے الگ الگ قسم كی عبادتیں بنائیں ، تو ان میں چند كا یہاں ذكر كیا جارہا ہے :
اللہ كی حكمت میں سے ہے كہ اس نے عبادتوں كو متعدد قسموں میں بانٹا تاكہ عبادت كرنے والااپنے جی میں چستی اور عبادت پر پیش قدمی محسوس كرے ، اور نہ تھكے اور نہ ہی بور ہو ،اور ایسے ہی انسان عبادت پر راغب ہو اور جسے وہ اپنے دل میں پاتا ہے اس پر اقبال ہو ۔
جیسے عبادتیں الگ الگ قسم كی ہیں اسی طرح لوگ بھی اپںے میلان و قدرت میں الگ الگ ہیں ، كچھ لوگ ایسے ہوتےہیں جواپںے اندر عبادت كے تعلق سے دوسروں كے مقابل میں كافی چستی محسوس كرتے ہیں ،اور بسا اوقات لوگوں میں سے كوئی لوگوں پر احسان كرنے كو پسند كرتا ہے ،اور دوسرا ایسا ہے جسے خوب نفلی روزوں كے لئے آسانی كردی جاتی ہے ،اور تیسرا جس كا دل تلاوت قرآن و حفظ قرآن میں لگا رہتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "فمن كان من أهل الصلاة دعي (أي: إلى دخول الجنة) من باب الصلاة، ومن كان من أهل الجهاد دعي من باب الجهاد، ومن كان من أهل الصدقة دعي من باب الصدقة، ومن كان من أهل الصيام دعي من باب الريان". قال أبو بكر الصديق: يا رسول الله، ما على أحد يُدعى من تلك الأبواب من ضرورة، فهل يُدعى أحد من تلك الأبواب كلها؟ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «نعم، وأرجو أن تكون منهم». (البخاري: 1897 ، مسلم: 1027).(جو اللہ کے راستے میں دو چیزیں خرچ کرے گا اسے فرشتے جنت کے دروازوں سے بلائیں گے کہ اے اللہ کے بندے! یہ دروازہ اچھا ہے پھر جو شخص نمازی ہو گا اسے نماز کے دروازہ سے بلایا جائے گا جو مجاہد ہو گا اسے جہاد کے دروازے سے بلایا جائے جو روزہ دار ہو گا اسے «باب الريان» سے بلایا جائے گا اور جو زکوٰۃ ادا کرنے والا ہو گا اسے زکوٰۃ کے دروازہ سے بلایا جائے گا۔ اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پوچھا میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہوں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! جو لوگ ان دروازوں (میں سے کسی ایک دروازہ) سے بلائے جائیں گے مجھے ان سے بحث نہیں، آپ یہ فرمائیں کہ کیا کوئی ایسا بھی ہو گا جسے ان سب دروازوں سے بلایا جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں اور مجھے امید ہے کہ آپ بھی انہیں میں سے ہوں گے۔)
مومن كی تمام تصرفات عبادت كو شامل ہے ، جب وہ اسكے ذریعہ اللہ كی قربت حاصل كرنے كی نیت كرلے ،اس لئے عبادت اسلام میں صرف معروف تعبدی شعائر ہی میں محصور نہیں جیسے كہ نماز و روزہ وغیرہ، بلكہ صالح نیت اور صحیح ارادے كے ساتھ كئے جانے والے تمام نفع بخش اعمال عبادت ہو جاتےہیں اور اس پرثواب دیا جاتا ہے ،اس لئےاگر كسی مسلمان نے كھانا كھایا یا پانی پیا یا سویا جس كا مقصد اللہ كی اطاعت پر قوت حاصل كرنا ہے تو اسے اس پر ثواب دیا جائےگا۔
مسلم اپنی پوری زندگی اللہ كے لئے جیتا ہے ،تو وہ اگر كھانا اس مقصد كے لئے كھاتا ہے كہ اس سے اللہ كی فرمانبرداری كرنے پر قوت حاصل ہو تواس كا اس مقصد كے لئے كھانا بھی عبادت ہے ،اور اگر وہ حرام سے بچنے كے لئے اپںے نفس كی پاكدامنی كی خاطر شادی كرتا ہے تو اس كا شادی كرنا بھي عبادت ہے ، اور ایسے ہی انہیں مقاصد كے تحت اس كی تجارت ، اس كی نوكری اور اس كا مال كمانا سب عبادت ہے ، اور اس كا حصول علم ، اور سرٹیفیكیٹ كا حاصل كرنا ، علمی بحث و تحقیق ، اور اس كی نئی كھوج و ایجادات سب عبادت ہے ، عورت كا اپنے خاوند كا خیال ركھنا، اور اپںے بچوں و گھر كی دیكھ بھال كرناسب عبادت ہے ،اور ایسے ہی زندگی كے تمام گوشے ، اس میں كئے جانے والے اعمال ، اور دیگر نفع بخش معاملے جب تك وہ صالح نیت اور عمدہ ارادے سے جڑے ہیں سب عبادت ہیں ۔
عبادت حكمت تخلیق ہے :
اللہ كا ارشاد ہے ،: (وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ • مَا أُرِيدُ مِنْهُمْ مِنْ رِزْقٍ وَمَا أُرِيدُ أَنْ يُطْعِمُونِ • إِنَّ اللهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ) (الذاريات: 56-58)(میں نے جنات اورانسانوں کو محض اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وه صرف میری عبادت کریں [56] نہ میں ان سے روزی چاہتا ہوں نہ میری یہ چاہت ہے کہ یہ مجھے کھلائیں [57] اللہ تعالیٰ تو خود ہی سب کا روزی رساں توانائی واﻻ اور زور آور ہے)
اللہ تعالی نے انسان و جنات كی تخلیق كی حكمت بیان كیا كہ وہ اللہ ہی كی عبادت كریں ،اور اللہ ان كی عبادت سے بے نیاز ہے ، بلكہ یہی لو گ اللہ كی عبادت كے محتاج ہیں ، كیوں كہ حقیقت میں یہ اللہ كے محتاج ہیں
جب انسان اس مقصد سے غافل ہو جائے او ر اپنے وجود كے ربانی حكمت كو یاد كئے بغیر دینا كی لذتوں میں ڈوب جائے تو اس سیارے پر پائی جانے والی تمام باقی مخلوقات سے ہٹ كر یہ ایسی مخلوق كی طرف پھر جاتا ہے جس كی اپنی كوئی خصوصیت نہیں ہوتی ، جانور بھی كھاتے اور كھیلتے ہیں گرچہ انسان كے برخلاف ان كا حساب و كتاب بھی نہیں ہوگا، اللہ تعالی كا ارشادہے: (وَالَّذِينَ كَفَرُوا يَتَمَتَّعُونَ وَيَأْكُلُونَ كَمَا تَأْكُلُ الْأَنْعَامُ وَالنَّارُ مَثْوًى لَهُمْ) (محمد: 12). (اور جو لوگ کافر ہوئے وه (دنیا ہی کا) فائده اٹھا رہے ہیں اور مثل چوپایوں کے کھا رہے ہیں، ان کا (اصل) ٹھکانہ جہنم ہے) تو یہ غافل انسان اپنے افعال و مقاصدمیں جانوروں كے مشابہ ہو گئے ،مگر انہیں تو اس پر اپنے بدلے سے دوچار ہونا پڑے گا، اس لئے كہ ان كے پاس عقل جس سے یہ سمجھتے اور چیزوں كا ادراك كرتے ہیں ،جبكہ ان كے برخلاف جانور بے عقل ہوتے ہیں۔
اللہ نے جس عبادت كے كرنے كا حكم دیا ہے وہ تین اہم اركان پر مشتمل ہیں ،ان میں سے ہر ایك دوسرے كی تكمیل كرتے ہیں ۔
عبادت كے اركان
وہ عبادت جو اللہ نے اپنے بندوں پر فرض كیا ہے اس میں كمال و انتہائے محبت اور اللہ كی رغبت اور اس سے امید باندھ كے ساتھ ساتھےكمال خاكساری ، اور اللہ سے خوف و عاجزی كا ہونا لازمی ہے
اس بناپر ایسی محبت جس میں خوف و خاكساری جڑی نہ ہو _یہ كھانے اور مال كی محبت جیسے ہے _ وہ عبادت نہیں ہے ،اورایسے ہی بلامحبت والا خوف _جیسے پھاڑنے والے جانور اور ظالم حاكم سے ڈرنا_ كا شمار عبادت میں نہیں ہوگا ،تو جب خوف و محبت اور امید عمل میں اكٹھا ہو جائیں تو وہ عبادت ہو جاتی ہے ،اور عبادت صرف ایك اللہ ہی كے لئے ہے ۔
تو جب كسی مسلمان نے نماز پڑھی یا روزہ ركھا اور اسے اس پر ابھارنے والی چیز اللہ كی محبت ، او راللہ كے ثواب كی امید اور اس كی سزا كا خوف تھي تو اس كا شمار عبادت میں ہے ،لیكن اگر اس نے اس لئے نماز پڑھی كہ اس یہ نہ كہا جائے : وہ نماز نہیں پڑھتا ہے ، یا وہ صحیت كی حفاظت كے مقصد سے روزہ ركھتا ہے تو اس كا شمار عبادت میں نہ ہوگا
اللہ تعالی نے اپنے انبیاء كی تعریف كرتے ہوئے فرمایا : (إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَيَدْعُونَنَا رَغَباً وَرَهَباً وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِينَ) (الأنبياء: 90).( یہ بزرگ لوگ نیک کاموں کی طرف جلدی کرتے تھے اور ہمیں ﻻلچ طمع اور ڈر خوف سے پکارتے تھے۔ اور ہمارے سامنے عاجزی کرنے والے تھے)
عبادت كی قسمیں
1- خالص عبادتیں:
ایك محدود طریقے سے ادا كرنے كے لئے جسے اللہ اور اسے كے رسول نے حكم دیا ہے ،اور ممكن نہیں كہ وہ ہو مگر عبادت ہی ، جیسے نماز ، روزہ ، حج و دعا ، طواف اور اسی جیسی چیزیں ، اور اس عبادت كو غیراللہ كی طرف پھیرنا جائز نہیں ،اور نہ ہی كسی غیر سے اس پر ثواب طلب كرنا جائز ہے ۔
2-جو نیت سے عبادت ہو جاتی ہے :
اسی میں سے وہ اخلاق فاضلہ ہے جس كا اللہ نے حكم دیا ہے، یالوگوں كو اس كی رغبت دلائی ہے ،جیسے والدین كے ساتھ حسن سلوك كرنا،لوگوں پر احسان كرنا، اور مظلوم كی مدد كرنا ،اور ان كے علاوہ مكارم اخلاق و عادات ہیں جسے كرنے كا حكم اللہ نے عمومی شكل میں فرمایا ہے اور جس كے چھوڑںے سے ایك مسلمان گنہ گار ہوتا ہے ،اور اس قسم كی عبادت میں نبی كریم صلی اللہ علیہ وسلم كی تفصیلی پیروی لازم نہیں ہے ،اور اس میں صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم كی مخالفت نہ كرنا اور حرام میں نہ واقع ہونا ہی كافی ہے۔
یہ وہ اعمال ہیں جس كا كرنےوالا حسن نیت كرتا ہے،اور یہ اس كا مقصد اس كے ذریعہ اللہ كی اطاعت تك رسائی ہے تو وہ اجر كا متحق ہوگا ،اور اگر وہ عمل كیا تو گیا پر اس سے اللہ كی خوشنودی مقصود نہیں تو اس عمل كا كرنے والا اجر كا مستحق نہیں ہوگا،لیكن وہ گنہ گار بھي نہ ہوگا،اور انہیں عبادات میں سے دنیا وی زندگی كے امور ہیں جیسے سونا ، كام كرنا ،تجارت كرنا وكھیلنا وغیرہ ، اور ہر نفع بخش عمل جس رضائے الہی حاصل كرنا مقصود ہو تو وہ عمل كرنے والا اجر و ثواب كا مستحق ہو گا ،اللہ كا ارشاد ہے (إِنَّا لَا نُضِيعُ أَجْرَ مَنْ أَحْسَنَ عَمَلًا) (الكهف: 30).( ہم کسی نیک عمل کرنے والے کا ﺛواب ضائع نہیں کرتے)
عبادت كی درستگی اور اس كی قبولیت كے لئے دو شرطیں ہیں :
اللہ تعالی كا ارشاد ہے : (فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاء رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلاً صَالِحًا وَلا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا) (الكهف: 110).( تو جسے بھی اپنے پروردگار سے ملنے کی آرزو ہو اسے چاہئے کہ نیک اعمال کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو بھی شریک نہ کرے)
اللہ كے اس فرمان (وَلا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَداً)نے سب كو چھوڑكر صرف ایك اللہ كے لئے عبادت كو خالص كرنے پر واضح كیا ہے،اور اللہ كے اس قول(عَمَلاً صَالِحَاً) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كی اتباع كو ثابت كیا ہے ،كیونكہ عمل صالح ہی صحیح ہے ،اور كوئی بھی عمل صحیح نہیں ہوسكتا جب تك كہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كی سنت كے موافق وہ ہو ،اس لئے جو اللہ اور آخرت كی آرزو ركھتا ہے اس پر واجب ہے كہ وہ الللہ كی عبادت آیت میں مذكور ان دو شرطوں كے مطابق كرے۔