موجودہ قسم ایمان
سبق: محمد صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان لانا
ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم كے تئیں ہمارے اوپر چند امور واجب ہیں اور انہیں میں سے چید یہ ہیں :
1-ہمارا یہ ایمان ہے كہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ كے بندے اور اس كے رسول ہیں ،اور وہ سیدالاولین والآخرین ہیں ،آپ خاتم الانبیاء و الرسل ہیں آپ كے بعد كوئی نبی نہ ہوگا،آپ نے رسالت پہنچا دی ، امانت ادا كردی ، اور امت كی خیر خواہی كی ،اور آپ كی راہ میں كما حقہ جہاد كی ۔
2-جن چیزوں كے متعلق آپ نے خبر دی ہے ہم ان كی تصدیق كریں ،اور جن كاموں كے كرنے كا حكم دیا ہے ہم ان میں آپ كی اطاعت كریں ،اور جن كاموں سے منع كیا ہے اور ڈانٹا ہے ان سے دور رہیں ،اور آپ كی سنت كے مطابق اللہ كی عبادت كریں ،اور غیروں كو چھوڑ كر آپ كی اقتدا كریں ،جیسا كہ اللہ تعالی نے كہاہے : (لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللهَ وَالْيَوْمَ الْآَخِرَ وَذَكَرَ اللهَ كَثِيرًا) (الأحزاب: 21).( یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ میں عمده نمونہ (موجود) ہے، ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعالیٰ کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کی یاد کرتا ہے)
3-اور ہمارے اوپر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كی محبت كو اپنے والد ، بیٹے اور تمام لوگوں كی محبت پر مقدم كرنا واجب ہے ، جیسا كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كا ارشاد ہے: "لا يؤمن أحدكم حتى أكون أحبّ إليه من والده وولده والناس أجمعين" (البخاري 15، مسلم 44). (تم میں سے کوئی شخص ایماندار نہ ہو گا جب تک اس کے والد اور اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ اس کے دل میں میری محبت نہ ہو جائے) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم كی سچی محبت آپ كی سنت كی اتباع اور آپ كی رہنمائی كی اقتداء سے ہوگی ،اور حقیقی سعادت و كامل ہدایت آپ كی اطاعت كے بغیر حاصل نہیں ہو سكتی ،جیسا كہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے : (وَإِنْ تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِين) (النور: 54).(ہدایت تو تمہیں اسی وقت ملے گی جب رسول کی ماتحتی کرو۔ سنو رسول کے ذمے تو صرف صاف طور پر پہنچا دینا ہے )
4- نبی كریم صلی اللہ علیہ وسلم جوشریعت لے كر آئیں ہیں اسے قبول كرنا ہمارے اوپر واجب ہے ،اور یہ بھی كہ ہم آپ كی سنت كے مطیع و فرمانبردار ہوں،اور آپ كی ہدایت ہماری نظروں معظم و مجلی ہو ،جیسا كہ اللہ تعالی نے فرمایا: (فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا) (النساء: 65).(سو قسم ہے تیرے پروردگار کی! یہ مومن نہیں ہو سکتے، جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، پھر جو فیصلے آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں اور کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں)
5-رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كےحكم كی مخالفت سے بچنا ہمارے اوپر واجب ہے ،اس لئے كہ آپكے حكم كی مخالفت فتنے ، گمراہی ، اور دردناك عذاب كا سبب ہے ،اللہ تعالی كا ارشاد ہے : (فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيم) (النور: 63).(سنو جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہیئے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آ پڑے یا انہیں درد ناک عذاب نہ پہنچے)
محمدی رسالت تمام سابقہ رسالتوں سے بہت سی خصوصیات و كمالات میں ممتاز ہے ، انہیں میں سے چند یہ ہیں
1-رسالت محمدیہ سابقہ تمام رسالتوں كو ختم كرنے والی ہے ،جیسا كہ اللہ تعالی نے فرمایا: (مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّين) (الأحزاب: 40).((لوگو) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ محمد ﴿صلی اللہ علیہ وسلم﴾ نہیں لیکن آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور تمام نبیوں کے ختم کرنے والے)
2-رسالت محمدیہ تمام سابقہ شریعتوں كو منسوخ كرنے والی ہے ،محمد صلی اللہ علیہ وسلم كی بعثت كے بعداللہ تعالی كسی سے كوئی بھي دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم كی اتباع كے بغیر قبول نہیں كرےگا ،اور نہ ہی كسی كی جنت كی نعمتوں تك رسائی ممكن ہے مگر آپ ہی كے راستے پر چل كر،توآپ صلی اللہ علیہ وسلم اكرم الرسل ہیں اور آپ كی امت ساری امتوں میں سب سے بہتر ہے ،اور آپ كی شریعت تمام شریعتوں میں سب سے كامل شریعت ہے ،اللہ تعالی نے فرمایا: (وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآَخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ) (آل عمران: 85).(جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے، اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور وه آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا )اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "والذي نفس محمد بيده، لا يسمع بي أحد من هذه الأمة يهودي، ولا نصراني، ثم يموت ولم يؤمن بالذي أرسلت به، إلا كان من أصحاب النار" (مسلم 153، أحمد 8609).(قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے اس زمانے کا (یعنی میرے وقت اور میرے بعد قیامت تک) کوئی یہودی یا نصرانی (یا اور کوئی دین والا) میرا حال سنے پھر ایمان نہ لائے اس پر جس کو میں دے کر بھیجا گیا ہوں۔ (یعنی قرآن) تو جہنم میں جائے گا)
3-رسالت محمدی دونوں مخلوق انس و جن كے لئے عام ہے ، اللہ تعالی نے جن كی بات حكایت كے طور پربیان كیا ،: (يَا قَوْمَنَا أَجِيبُوا دَاعِيَ الله) (الأحقاف: 31).( اے ہماری قوم !اللہ کی طرف بلانے والے کی دعوت قبول کرو )ایك اور مقام پر اللہ نے فرمایا: (وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا) (سبأ: 28).(ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لئے خوشخبریاں سنانے واﻻ اور ڈرانے واﻻ بنا کر بھیجا ہے)اور اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "فُضِّلتُ على الأنبياء بست: أُعطيت جوامع الكلم، ونُصرت بالرعب، وأُحِلَّت لي الغنائم، وجُعِلَت لي الأرض طهورا ومسجدا، وأُرسِلْتُ إلى الخلق كافة، وخُتِمَ بي النبيون" (البخاري 2977، مسلم 523).(مجھ کو چھ باتوں کی وجہ سے اور پیغمبروں پر فضیلت دی گئی۔ پہلی تو مجھ کو وہ کلام ملا جس میں لفظ تھوڑے اور معنی بہت ہیں (یعنی کلام اللہ یا خود محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کلمات) اور میں مدد دیا گیا رعب سے اور میرے لئے غنیمتیں حلال کی گئیں اور میرے لئے ساری زمین پاک کرنے والی اور نماز کی جگہ کی گئی۔ اور میں تمام مخلوقات کی طرف (خواہ جن ہوں یا آدمی عرب ہوں یا غیر عرب کے) بھیجا گیا اور میرے اوپر نبوت ختم کی گئی)
اللہ نے جتنے بھي انبیاء بھیجے مگر ان كے اصحاب و حواری ان كے افضل پیروكار تھے، اور ان كی امت كے وہ عظیم نسل تھے، انبیاء و مرسلین كے بعد اللہ نے اپنے نبی كی صحبت كے لئے اپنی مخلوق كے سب سے بہتر لوگوں كو منتخب كیا ،تاكہ وہ اس دین كے متحمل ہو سكیں اور تمام نجاستوں سے پاك و صاف لوگوں تك اس دین كی تبلیغ كرسكیں، جیسا كہ اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «خير أمتي القرن الذين بعثت فيهم، ثم الذين يلونهم» (مسلم: 2534).(بہتر میری امت میں وہ قرن ہے جس میں میں بھیجا گیا، پھر وہ قرن ہے جو اس کے بعد ہے)
صحابی كی تعریف
صحابی كہتے ہیں جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے مسلمان ہونے كی حالت میں ملاقات كی ہو اور اسلام ہی پر موت ہوئی ہو ،سوائے اس كے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كی وفات كے بعد وہ مرتد ہوگیا ہو
صحابہ كرام رضی اللہ عنہم كی تعریف اور متعدد مقامات پر ان كے فضائل و صفات قرآن و سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم كی روشنی میں بیان ہوا ہے ،اور انہی میں سے كچھ یہ ہیں:
صحابہ كرام رضی اللہ عنہم كے متعلق جو چیزیں واجب ہیں
چند چیزیں صحابہ كرام كے تئیں ایك مسلمان پر واجب ہے :
1-صحابہ سے محبت اور ان كی عزت و توقیر اور ان كے لئے دعا:
اللہ تعالی نے ان مہاجرین كی تعریف فرمائی ہے جو اپنا سارا مال و گھر مكہ سے چھوڑ كر اپنے دین كی خاطر اور اللہ كی رضا كے حصول كے لئے مدینہ كی طرف ہجرت كر گئے ،اور اس كے بعد اللہ نے اہل مدینہ كے انصار كی تعریف فرمائی جنہوں نے اپنے مہاجرین بھائیوں كی مدد كی ،اور انہیں اپںے مال و متاع میں حصے دار بنایا،بلكہ اپنےان بھائیوں كو اپنی ذات پر بھی مقدم كیا ،پھر اللہ نے ان كےبعد ان كی تعریف فرمائی جوقیامت تك آتے رہیں گے ،انہیں میں سے وہ لوگ بھی ہوں گے جو صحابہ كی فضیلت اور ان كے مقام و مرتبہ كو پہچانیں گے ،اور ان سے محبت كریں گے، اور ان كے لئے دعائیں دیں گے، اور ان كے دل صحابہ میں سے كسی ایك كے تئیں بھي كوئی بغض اور ناپسندید گی نہیں ہوگی ۔
اللہ تعالی كا ارشاد ہے: (لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلاً مِنَ اللهِ وَرِضْوَانًا وَيَنْصُرُونَ اللهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ • والَّذِينَ تَبَوَّأُوا الدَّارَ وَالإِيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ • والَّذِينَ جَاءُوا مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلإخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالإِيمَانِ وَلا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلاً لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَؤُوفٌ رَحِيمٌ) (الحشر: 8-10). ((فیء کا مال) ان مہاجر مسکینوں کے لیے ہے جو اپنے گھروں سے اور اپنے مالوں سے نکال دیئے گئے ہیں وه اللہ کے فضل اور اس کی رضامندی کے طلب گار ہیں اور اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں یہی راست باز لوگ ہیں [8] اور (ان کے لیے) جنہوں نے اس گھر میں (یعنی مدینہ) اور ایمان میں ان سے پہلے جگہ بنالی ہے اور اپنی طرف ہجرت کرکے آنے والوں سے محبت کرتے ہیں اور مہاجرین کو جو کچھ دے دیا جائے اس سے وه اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہیں رکھتے بلکہ خود اپنے اوپر انہیں ترجیح دیتے ہیں گو خود کو کتنی ہی سخت حاجت ہو (بات یہ ہے) کہ جو بھی اپنے نفس کے بخل سے بچایا گیا وہی کامیاب (اور بامراد) ہے [9] اور (ان کے لیے) جو ان کے بعد آئیں جو کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان ﻻ چکے ہیں اور ایمان داروں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ (اور دشمنی) نہ ڈال، اے ہمارے رب بیشک تو شفقت و مہربانی کرنے واﻻ ہے )
2-تمام صحابہ رضی اللہ عنہم سے رضامندی كا اظہار كرنا:
ایك مسلمان كے لئے مناسب ہے كہ جب ان میں سے كسی كا ذكر اس كے سامنے كیا جائے تو وہ كہے: رضي الله عنه (اللہ ان سے راضی ہو)اس لئے كہ اللہ نےیہ بیان كیا ہے كہ وہ ان سے راضی ہوگیا ،اور ان كی فرمانبرداری كو اور ان كے اعمال كو قبول فرمالیا،اور وہ بھي اللہ كی عطا كردہ دین و دنیا كی نعمتوں سے راضی ہو گئے ،تو اللہ نے فرمایا : (وَالسَّابِقُونَ الأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ) (التوبة: 100).(اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وه سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں ہمیشہ رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے)
صحابہ كا مرتبہ
1-رسول اللہ كے تمام صحابہ فضل و احسان والے ہیں ،لیكن ان میں سب سے افضل چاروں خلفائے راشدین ہیں ،اور ترتیب میں یوں ہیں :ابو بكر الصدیق ، عمربن خطاب ، عثمان بن عفان ،علی بن ابی طالب ، رضی اللہ عنہم اجمعین
2-رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے صحابہ غیر معصوم بشر ہیں ، ان سے غلطیاں سرزد ہوتی ھيں ،لیكن ان كی غلطی عام لوگوں كی غلطی سے ہلكی تصور كی جاتی ہے ،اور ان كا درست ہوناغیروں كے درست ہونے سے زیادہ تصور كیا جاتا ہے ،اللہ تعالی نے اپنے نبی كی صحبت كے لئے بہتر لوگوں كا انتخاب فرمایا تاكہ اس دین كو صحیح سے اٹھا سكیں ، اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم كا فرمان ہے: «خير أمتي القرن الذين بُعِثْتُ فيهم، ثم الذين يلونهم» (مسلم: 2534).(بہتر میری امت میں وہ قرن ہے جس میں میں بھیجا گیا، پھر وہ قرن ہے جو اس کے بعد ہے)
3-ہم تمام صحابہ كے عدالت اور ان كے اخلاص كی گواہی دیتے ہیں ،ہم ان كے محاسن كا تذكرہ كرتے ہیں ،اور درست كی مخالفت جو ان كے اجتہادات اور غلطیوں كے نتیجے میں حاصل ہوئی ہم ان میں فضول بحث میں مشغول نہیں ہوتے ،اس لئے كہ وہ صدق ایمان میں و حسن عمل میں ،اتباع میں اس سے كہیں بالاتر تھے ،جیسا كہ اللہ كے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لا تسبوا أصحابي فلو أن أحدكم أنفق مثل أُحُدٍ ذهباً، ما بلغ مُدَّ أَحَدِهم ولا نصيفه" (البخاري 3673).(میرے اصحاب کو برا بھلا مت کہو۔ اگر کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر بھی سونا (اللہ کی راہ میں) خرچ کر ڈالے تو ان کے ایک مد غلہ کے برابر بھی نہیں ہو سکتا اور نہ ان کے آدھے مد کے برابر)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے آل بیت یہ ہیں ، آپ كی بیویاں ، آپ كی اولاد، اور آپ كے چجا كے بیٹوں میں سے آپ كے رشتے دار جیسے آل علی، آل عقیل ، آل جعفر ، اور آل عباس اور ان سب كی اولاد۔
اور ان میں سب سے افضل وہ ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات كی ، جیسے علی بن ابی طالب، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كی بیٹی فاطمۃ ، اور ایسے ہی ان دونوں كی اولاد ، جیسے حسن و حسین جنتی جوانوں كے سردار، اور رسول اللہ كی بیویاں امہات المومنین، جیسے خدیجۃ بنت خولد ، و عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہم اجمعین
اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم كی بیویوں كو اعلی آداب اور احسن اخلاق كی توجیہ كے بعد ان كے متعلق فرمایا:(إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا) (الأحزاب: 33).( اللہ تعالیٰ یہی چاہتا ہے کہ اے نبی کی گھر والیو! تم سے وه (ہر قسم کی) گندگی کو دور کردے اور تمہیں خوب پاک کردے )
آل بیت كی محبت
مسلمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم كے اہل بیت مومن آپ كی سنت كی اتباع كرنے والوں سے محبت كرتا ہے ،اور اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم كی محبت كا جزء قرار دیتا ہے ،اس حدیث پر عمل كرتے ہوئے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آل بیت پر خصوصی توجہ دینے اور ان كے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آنے كی وصیت فرمائی ہے ،آپ نے فرمایا :" أُذَكِّرُكُمُ اللهَ في أهل بيتي، أُذَكِّرُكُمُ اللهَ في أهل بيتي، أُذَكِّرُكُمُ اللهَ في أهل بيتي" (مسلم: 2408).(”دوسری چیز میرے اہل بیت ہیں، میں اللہ کی یاد دلاتا ہوں تم کو اپنے اہل بیت کے باب میں۔“ تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات بیان فرمائی۔)جیسے كوئی مشفق باپ كہے ، اللہ كا واسطہ دیتا ہوں میری اولاد كے حقوق كا خیال كرنا
ایك مسلمان ان دونوں قسم كے لوگوں سے اپنی براءت كا اظہار كرتا ہے:
آل بیت معصوم نہیں ہیں :
اہل بیت دوسرے لوگوں كے مانند ہیں ،ان میں مسلمان بھی ہیں اور كافر بھي ، ان میں نیك لوگ ہیں اور عاصی بھي، ہم ان میں سے فرمانبرداروں سے محبت كرتے ہیں اور ان كے لئے ثواب كی امید ركھتے ہیں ، اور ہم ان میں سے نافرمان كے لئے ڈرتے ہیں اور ان كے لئے ہدایت كی دعا كرتے ہیں ،اور آل بیت كی فضیلت كا یہ مطلب نہیں كہ تمام حالتوں میں ان كی فضیلت مسلم ہے ،اور ہر شخص بعینہ اس كے حقدار ہے ، اس لئے لوگ الگ الگ اعتبار سے باہم فضیلت ركھتے ہیں ، اور ان كے علاوہ لوگوں میں بھی لوگ ہیں جو افضل و اعلی ہیں ۔