تعلیم كو فالو اپ كریں

اب تك آپ نے انڑی كے لئے رجسٹریشن نہیں كیا
اپنی ترقی كے فالواپ كے لئے اور پوائنٹس اكٹھا كرنے كے لئے ،اور مسابقے میں شركت كے لئے منصہ تاء میں فورا رجسٹریشن كریں ،رجسٹرد ہونے كے بعد جن موضوعات كی آپ تعلیم حاصل كررہے ہیں آپ اس كی الكڑانك سرٹیفیكیٹ حاصل كریں گے

موجودہ قسم ایمان

سبق: تقدیر پر ایمان

تقدیر پرایمان ایمان كے چھ ركنوں میں سے ایك ركن ہے ،اور كسی بندے كا ایمان اس وقت تك صحیح نہ ہوگا جب تك كہ وہ اس پرایمان نہ لائے ،اس درس میں آپ تقدیر پرایمان كی حقیقت اور اس جڑی چند اہم امور كے متعلق آپ كو جانكار ی ملے گی ۔

  • تقدیر كی حقیقت اوراس پر ایمان كی اہمیت كی معرفت۔
  • تقدیر پر ایمان كے فوائد كی معرفت۔

تقدیر پر ایمان كا معنی :

پختہ تصدیق كہ ہر بھلائی و برائی اللہ كی قضاء و قدر سے ہے، اور وہ جوچاہتا ہے كرتاہے ،اس كی چاہت كے بغیر كوئی چیز نہیں ہوسكتی ، اوراسكی مشیئت سے كوئی نكل نہیں سكتی ، دنیا میں كوئی ایسی چیز نہیں ہے جو اس كی تقدیر سے باہر ہو ،اور نہ كوئی چیز اس كی تدبیر كے بغیر صادر ہو سكتی ہے ،اسی كے ساتھ ساتھ اس نے بندوں كو حكم دیا ہے اور انہیں منع كیا ہے ،اور انہیں اپنے اعمال كے لئے مختار بنایا ہے ،اور انہیں كسی كام پر مجبور نہیں كیا ہے ،بلكہ یہ ان كی قدرت اور چاہت كے مطابق واقع ہوتی ہیں ،اللہ ان كا خالق اور ان كی قدرت كا خالق ہے ، اپنی رحمت سے جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے ،اور اپنی حكمت سے جسے چاہتا ہے گمراہ كردیتا ہے ،وہ جوكرتا ہے اس سے كوئی باز پرس نہیں اور لوگوں سے پوچھا جائےگا۔

تقدیر كی تعریف

تقدیر :اللہ كا قدیم میں چیزوں كا مقدركرنا ،اور اللہ سبحانہ تعالی كاعلم كہ وہ متعین وقتوں میں اور مخصوص انداز میں واقع ہوگا ،اور اس كا اسی وجہ سے لكھنا،اور اس كا اسی لئے پیدا كرنا،اور اس كا جیسا اس نے مقدر كیا ہے اسی كے مطابق واقع ہونا ہے۔

تقدیر پر ایمان لانایہ ایمان كے اركان میں ایك ركن ہے

اللہ كی تقدیر پر ایمان لانا واجب ہے ، اور وہ اركان ایمان میں سے ایك ہے،جیسا كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے جواب میں جب جبریل نے ان سے ایمان كے بارے میں پوچھا ، تو فرمایا: "أن تؤمن بالله وملائكته وكتبه ورسله واليوم الآخر وتؤمن بالقدر خيره وشره" (مسلم 8).(ایمان یہ ہے کہ تو یقین کرے (دل سے) اللہ پر، فرشتوں پر (کہ وہ اللہ تعالیٰ کے پاک بندے ہیں اور اس کا حکم بجا لاتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کو بڑی طاقت دی ہے) اور اس کے پیغمبروں پر (جن کو اس نے بھیجا خلق کو راہ بتلانے کے لئے) اور پچھلے دن پر (یعنی قیامت کے دن پر جس روز حساب کتاب ہو گا اور اچھے اور برے اعمال کی جانچ پڑتال ہو گی) اور یقین کرے تو تقدیر پر کہ برا اور اچھا سب اللہ پاک کی طرف سے ہے)

تقدیر پرایمان كن چیزوں كو شامل ہے؟

تقدیر پر ایمان چار چیزوں كو شامل ہے :

1- علم

یہ ایمان كہ اللہ تعالی تمام جیزوں كا تفصیلی و اجمالی علم ركھتا ہے ،اور یہ كہ اللہ تعالی تمام مخلوقات كو ان كی پیدائش كے پہلے ہی سے جانتاہے ،اور ایسے ہی ان تمام كی رزقوں ، عمروں ، اقوال ،اعمال ، تمام حركات و سكنات ، ان كے بھیدوں اور ان كے اعلانیہ چیزوں كا علم ركھتا ہے ،ان میں سے كچھ ایسے ہیں جو جنتی ہیں اور كچھ ایسے ہیں جو جہنمی ہیں ،اللہ كا ارشاد ہے : (هُوَ اللهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَة) (الحشر: 22).(وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، چھپے کھلے کا جاننے واﻻ)

2-لكھنا

یہ ایمان كہ اللہ سبحانہ تعالی نے ان تمام چیزوں كو لوح محفوظ میں لكھ دیا ہے جس كا علم اسے پہلے سے ہے ،اور اس كی دلیل اللہ كا یہ فرمان ہے: (مَا أَصَابَ مِنْ مُصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنْفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَبْرَأَهَا) (الحديد: 22). ( نہ کوئی مصیبت دنیا میں آتی ہے نہ (خاص) تمہاری جانوں میں، مگر اس سے پہلے کہ ہم اس کو پیدا کریں وه ایک خاص کتاب میں لکھی ہوئی ہے)اور اس كی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم كا یہ فرمان ہے : "كتب الله مقادير الخلائق قبل أن يخلق السماوات والأرض بخمسين ألف سنة" (مسلم 2653).(اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کی تقدیر کو لکھا آسمان اور زمین کے بنانے سے پچاس ہزار برس پہلے، اس وقت پروردگار کا عرش پانی پر تھا)

3-مشیئت

اللہ كی اس مشیئت پرایمان لانا جس كے نافذ ہونے سے كوئی چیز روك نیہں سكتی ،اور اس كی اس قدرت پرایمان لانا جسے كوئی چیز عاجز نہیں كرسكتی ،اورتمام واقعات و حوادث اللہ كی قدرت اور اس كی مشیئت سے واقع ہوئے ،جب چاہا تب ہوا، اور جب نہیں چاہا تو نہیں ہوا، اللہ تعالی نے فرمایا(وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللهُ) (التكوير: 29).( اور تم بغیر پروردگار عالم کے چاہے کچھ نہیں چاه سکتے)

4- پیدا كرنا

اس بات پرایمان كہ اللہ سبحانہ تعالی ہی تمام چیزوں كا موجد ہے ،اور وہی تنہا خالق ہے ،اس كے سوا جتنی چیزیں ہیں سب اس كی مخلوق ہیں، اور یہ كہ وہی ہر چیز پرقادر ہے ،اللہ سبحانہ تعالی نے فرمایا: (وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيرًا) (الفرقان: 2).( اور ہر چیز کو اس نے پیدا کرکے ایک مناسب اندازه ٹھہرا دیا ہے)

انسان كو اختیار و قدرت و ارادہ حاصل ہے :

تقدیر پرایمان لانا اختیاری افعال میں بندے كی مشیئت اور اس پر اس كی قدرت كے ہونے كے منافی نہیں ،كیونكہ شریعت اور حقیقت دونوں اس لئے اس كی اثبات پر دلالت كرتے ہیں

رہی بات شریعت كی تو اللہ تعالی نے مشیئت كے بارے میں فرمایا: (ذَلِكَ الْيَوْمُ الْحَقُّ فَمَنْ شَاءَ اتَّخَذَ إِلَى رَبِّهِ مَآَبًا) (النبأ: 39).( یہ دن حق ہے اب جو چاہے اپنے رب کے پاس (نیک اعمال کر کے) ٹھکانا بنالے ) اور اللہ تعالی نے قدرت كے متعلق فرمایا: (لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ) (البقرة: 286)( اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیاده تکلیف نہیں دیتا، جو نیکی وه کرے وه اس کے لئے اور جو برائی وه کرے وه اس پر ہے)اور وسعت كا معنی قدرت ہے

اور رہی بات واقعیت كی تو یہ ہر انسان كو معلوم ہے كہ اس كی اپنی چاہت او رقدرت ہے جن كے ذریعہ وہ كام كرتا ہے،اور انہیں دونوں كے ذریعہ وہ ترك كرتا ہے ،اور جو اس كی چاہت اور ارادے سے واقع ہوتی ہے جیسے چلنا تو اس كے درمیان اور جو اس كے ارادے كے بغیر واقع ہوتی ہے جیسے كانپنا اور اچانك گرپڑنا تو ان دونوں كے درمیان فرق كیا جائے گا،لیكن بندے كی قدرت اور مشیئت دونوں اللہ ہی كی قدرت اور اس كی مشیئت سے واقع ہوں گے ،جیسا كہ اللہ كا ارشاد ہے ، (لِمَنْ شَاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ • وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ الله رَبُّ الْعَالَمِينَ) (التكوير: 28-29).((بالخصوص) اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی راه پر چلنا چاہے [28] اور تم بغیر پروردگار عالم کے چاہے کچھ نہیں چاه سکتے ) انسان كی مشیئت كو ثابت كیا پھر یہ تاكید كی كہ اس كی مشیئت اللہ سبحانہ و تعالی كی مشیئت میں داخل ہے ،كیونكہ پوری كائنات اللہ ہی كی بادشاہت ہے ،اس لئے اس كی بادشاہت میں كوئی بھی چیز اس كے علم و مشیئت كے بغیر نہیں ہو سكتی ۔

تقدیر كے ذریعہ حجت پكڑنا

انسان كی قدرت اور اس كے اختیار كے بناپر ہی اسے مكلف بنایا گیا اور اسے حكم و نہی سے جوڑآ گیا ہے ، اس لئے نیكی كرنے والے كو اس كے ہدایت كی راہ اختیار كرنے كی وجہ سے ثواب دیا جائے گا، اور برائی كرنےوالے كو گمراہی كی راہ اختیار كرنے كی وجہ سے سزا دی جائے گی ،اللہ تعالی ہمارے اوپر اتنا ہی بوجھ ڈالتاہے جتنا اٹھانے كی ہم طاقت ركھتے ہیں ،اور تقدیر كو حجت بنا كر عبادت كے ترك كرنے والے كسی كو بھي قبول نہیں كرتا۔

پھر انسان كو گناہ كرنے سے پہلے یہ پتہ نہیں كہ اللہ كا علم اوراس كی تقدیر كیا ہے ،اور اللہ نے اسےقدرت و اختیار دیا ہے ،اور اس كے لئے خیر و شر كے راستے كو واضح كیا ہے ،تو جب اس نے معصیت كی تو وہ اس وقت معصیت كرنے پر مختار تھا ، جبكہ اسے اطاعت پر قائم رہنا چا ہئے، اس لئے وہ اپنی معصیت كی سزا كا خود متحمل ہوگا

تقدیر پر ایمان كے فوائد‭:‬

مسلمان كی زندگی میں قضاء و قدر پر ایمان كے بڑے فوائد ہیں ، اور انہیں میں سے كچھ یہ ہیں ‭:‬

1-تقدیر پر صحیح ایمان عمل پر آمادہ كرتا ہے ، اسباب اختیار كرنے كی طرف بڑھاتا ہے ، بھروسے سے روكتا ہے

مومنوں كو اللہ پر بھروسہ كرنے كے ساتھ ساتھ اسباب اختیار كرنے كا حكم دیا گیا ہے ،اور ایمان ركھناكہ اللہ كے حكم كے بغیر اسباب كوئی نتیجہ فراہم نیہیں كرسكتے ،كیونكہ اللہ ہی وہ ہے جس نے اسباب كو پیدا كیا ہے،اور اسی نے نتائج بھی پیدا فرمایا ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "‬احرص‭ ‬على‭ ‬ما‭ ‬ينفعك،‭ ‬واستعن‭ ‬بالله،‭ ‬ولا‭ ‬تعجز،‭ ‬وإن‭ ‬أصابك‭ ‬شيء‭ ‬فلا‭ ‬تقل‭ ‬لو‭ ‬أني‭ ‬فعلت‭ ‬كان‭ ‬كذا‭ ‬وكذا،‭ ‬ولكن‭ ‬قل‭: ‬قدر‭ ‬الله‭ ‬وما‭ ‬شاء‭ ‬فعل،‭ ‬فإن‭ ‬لو‭ ‬تفتح‭ ‬عمل‭ ‬الشيطان‭" ‬(مسلم 2664) (حرص کر ان کاموں کی جو تجھ کو مفید ہیں (یعنی آخرت میں کام دیں گے) اور مدد مانگ اللہ سے اور ہمت مت ہار اور تجھ پر کوئی مصیبت آئے تو یوں مت کہہ اگر میں ایسا کرتا تو یہ مصیبت کیوں آتی لیکن یوں کہہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر میں ایسا ہی تھا جو اس نے چاہا کیا۔ اگر مگر کرنا شیطان کے لیے راہ کھولنا ہے) اور بعض لوگوں نے یہ گمان كر لیا كہ جب سارے امور پہلے ہی سے مقدر ہیں تو عمل كرنے كی كوئی ضرورت نہیں ، اس غلط فكر كو اللہ كے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح كرتے ہوئے فرمایا: (اعْمَلُوا، فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَهُ. ثُمَّ قَرَأَ: {فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى، وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى} [الليل: 6]، إِلَى قَوْلِهِ {فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَى} [الليل: 10]). (البخاري 4949، ومسلم 2647).(نیک عمل کرو، ہر شخص کو ان اعمال کی توفیق دی جاتی ہے جن کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے جو شخص نیک ہو گا اسے نیکوں کے عمل کی توفیق ملی ہوتی ہے اور جو بدبخت ہوتا ہے اسے بدبختوں کے عمل کی توفیق ملتی ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت «فأما من أعطى واتقى * وصدق بالحسنى‏» آخر تک پڑھی یعنی ”سو جس نے دیا اور اللہ سے ڈرا اور اچھی بات کو سچا سمجھا، سو ہم اس کے لیے نیک عملوں کو آسان کر دیں گے)

2-انسان اپنی ذات كی قدر كو پہچان لے

تو نہ وہ تكبر كرے اور نہ حق كا انكار كرے ،اس لئے كہ وہ مقدر كی معرفت سے وہ عاجز و لاچار ہے ،اور مستقبل میں كیا ہوگا اس كا اسے علم نہیں ،یہیں سے انسان اپنی عاجزی كا اقرار كرتاہے اور ہمیشہ اپنے رب كا حاجت مند ہوتا ہے ،انسان كو جب كوئی بھلائی پہنچتی ہے تو وہ تكبر كرتاہے اور دھوكے میں ہو جاتا ہے ،اور جب اسے كوئی شر یا مصیبت لاحق ہوتی ہے تو چیختا چلاتا ہے اور غمزدہ ہو جاتا ہے ، اور انسان جب اسے بھلائی پہنچتی ہے تو وہ تكبر و سركشی سے نہیں بچ سكتا ہے ،اور غمزدہ و آہ و فگاں جب سے جب اسے شر لاحق ہومگر تقدیر پرایمان لانے ہی سے ،اور جوكچھ اس كے ساتھ ہوا ہے وہ تقدیر میں مقدر تھا ، اور وہ پہلے سے اللہ كے علم میں تھا۔

3-حسد كی رذالت كو ختم كرتاہے

تو مومن لوگوں سے حسد نہیں كرتا ان نعمتوں پر اللہ جو انہیں اپنے فضل سےنوازتا ہے ،كیونكہ اللہ ہی نے انہیں اس كی توفیق دی اور اسی نے ان كے لئے اسے مقدر كیا ہے،اور مومن كو یہ پتہ ہے كہ جس و قت وہ غیر پر حسد كرتاہے، تو گویا كہ وہ اللہ كی قضاء وقدر پر اعتراض كرتاہے

4-تقدیر پرایمان مصیبتوں سے مقابلہ كرنے میں لوگوں كے دلوں میں بہادری بھرتا ہے

اور ان كے حونصلوں كو تقویت فراہم كرتا ہے ،اس لئے كہ اسے یقین ہے كہ موت و روزیاں مقدر ہیں اور ہر گز كسی انسان كو كوئی تكلیف نہیں پہنچ سكتی مگر اتنا ہی جتنا كہ اللہ نے پہلے ہی سے اس كے لئے لكھ ركھا ہے

5- تقدیر پرایمان مومن كے دل میں متعدد ایمانی حقائق كو پیوست كرتاہے

پھر تو وہ اللہ ہی ہمیشہ مدد چاہتا ہے ،اللہ ہی پراعتماد كرتاہے ،اور اسی پراسباب اختیار كرنے كے ساتھ بھروسہ كرتا ہے ،او راپنے رب كا ہمیشہ محتاج رہتا ہے ،اور ثابت قدم رہنے كےلئے اسی مدد طلب كرتا ہے

6-تقدیر پر ایمان دل میں اطمنان پیدا كرتا ہے

اور مومن اس بات كو جانتا ہے كہ انسان كو جو مصیبت لاحق نہیں ہوئی وہ اسے لاحق ہونے والی نہیں تھی ، اور جو مصیبت اسے پہنچی وہ اس كے چوك كے نتیجے میں نہیں (یعنی وہی ہوتا ہے جو اللہ نے ازل سے مقدر كیا ہے)

كامیابی سے آپ نے درس مكمل كیا


امتحان شروع كریں