موجودہ قسم حج
سبق: مدینہ نبویہ كی زیارت
نبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم كی ہجرت سے مدینہ نبویہ مباركہ كا شرف بڑا بلند ہوگیا ،اور مكہ مكرمہ كے بعد اسے اس روئے زمین كے تمام گوشوں پر فضیلت عطا كی گئی ،اور اس كی زیارت ہر وقت مشروع ہے اور وہ فریضہ حج سے منسلك نہیں ہے جیسا كہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لاَ تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَى ثَلاَثَةِ مَسَاجِدَ: المَسْجِدِ الحَرَامِ، وَمَسْجِدِ الرَّسُولِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَسْجِدِ الأَقْصَى" (البخاري 1189، ومسلم 1397).( تین مسجدوں کے سوا کسی کے لیے کجاوے نہ باندھے جائیں۔ (یعنی سفر نہ کیا جائے) ایک مسجد الحرام، دوسری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد (مسجد نبوی) اور تیسری مسجد الاقصیٰ یعنی بیت المقدس۔) اور مدینہ كے فضائل بہت ہیں ، جن میں سے كچھ یہ ہیں :
جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو سب سے پہلا كام آپ نے مسجد نبوی شریف كی تعمیر فرمائی ،جو علم و دعوت اور لوگوں میں خیر كی نشرو اشاعت كا مركز بنا،اسی وجہ سے اس مبارك مسجد كی عظیم فضیلت ہے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "صلاة في مسجدي هذا خير من ألف صلاة فيما سواه إلا المسجد الحرام" (البخاري 1190، مسلم 1394).(میری اس مسجد میں نماز مسجد الحرام کے سوا تمام مسجدوں میں نماز سے ایک ہزار درجہ زیادہ افضل ہے۔)
2-یہ حرم آمن ہے
اللہ كی وحی كے ذریعہ نیی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حرم قرار دیا ،تو اس میں خوں ریزی نہیں ہوگی ،ہتھیار نہیں اٹھائےجائیں گے ،اور نہ ہی كسی كو ڈرایا جائے گا ،اور درخت وغیرہ نہیں كاٹے جائیں گے ،اور وہ تمام چیزیں جو اس كے حرم بنانے میں داخل ہیں ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لَا يُخْتَلَى خَلاهَا، وَلا يُنَفَّرُ صَيْدُهَا، وَلا تُلْتَقَطُ لُقَطَتُهَا، إِلا لِمَنْ أَشَارَ بِهَا، وَلا تُقْطَعُ مِنْهَا شَجَرَةٌ إِلا أَنْ يَعْلِفَ رَجُلٌ بَعِيرَهُ، وَلا يُحْمَلُ فِيهَا السِّلاحُ لِقِتَالٍ" (أبو داود 2035، وأحمد 959).(صحیح)(اس (یعنی مدینہ) کی نہ گھاس کاٹی جائے، نہ اس کا شکار بھگایا جائے، اور نہ وہاں کی گری پڑی چیزوں کو اٹھایا جائے، سوائے اس شخص کے جو اس کی پہچان کرائے، اور نہ یہ درست ہے کہ وہاں کا کوئی درخت کاٹا جائے سوائے اس کے کہ کوئی آدمی اپنے اونٹ کو چارہ کھلائے ،کسی شخص کے لیے درست نہیں کہ وہ وہاں لڑائی کے لیے ہتھیار لے جائے،)
3-روزی میں ، پھل میں ، اور خوشحال زندگی میں مبارك ہے :
اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللهم بارك لنا في ثمرنا، وبارك لنا في مدينتنا، وبارك لنا في صاعنا، وبارك لنا في مُدنا، اللهم إن إبراهيم عبدك وخليلك ونبيك وإني عبدك ونبيك، وإنه دعاك لمكة، وإني أدعوك للمدينة بمثل ما دعاك لمكة ومثله معه" (مسلم 1373).(”یا اللہ! برکت دے ہمارے پھلوں میں، برکت دے ہمارے شہر میں، اور برکت دے ہمارے صاع میں، اور برکت دے ہمارے مد میں۔ یا اللہ! ابراہیم علیہ السلام تیرے غلام اور تیرے دوست اور تیرے نبی تھے اور میں تیرا غلام اور نبی ہوں اور انہوں نے دعا کی تجھ سے مکہ کے لیے اور میں دعا کرتا ہوں تجھ سے مدینہ کے لیے اس کے برابر جو انہوں نے مکہ کے لیے کی مثل اس کے اور بھی)
4-اللہ نے طاعون اوردجال سے اس شہر كی حفاظت فرمائی ہے :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "على أنقاب المدينة ملائكة لا يدخلها الطاعون ولا الدجال" (البخاري 1880, مسلم 1379).(مدینہ کے راستوں پر فرشتے ہیں نہ اس میں طاعون آ سکتا ہے نہ دجال)
5-باشندگان مدینہ ، اور اس میں جینے و مرنے كی فضیلت:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ كی سختی پر اورمعیشت كی تنگی پر قیامت كے دن سفارش كرنے كا وعدہ كیا ہے ، سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "المدينة خير لهم لو كانوا يعلمون لا يدعها أحد رغبة عنها إلا أبدل الله فيها من هو خير منه، ولا يثبت أحد على لأوائها وجهدها إلا كنت له شفيعا أو شهيدا يوم القيامة" (مسلم 1363).(”میں نے حرم مقرر کر دیا درمیان دونوں میدانوں کالے پتھر والوں کے کہ نہ کاٹا جائے کانٹے دار درخت وہاں کا۔“ اور فرمایا: ”کہ مدینہ ان لوگوں کے لئے بہتر ہے کاش وہ اس کو سمجھتے (یہ خطاب ہے ان لوگوں کو جو مدینہ چھوڑ کر اور جگہ چلے جاتے ہیں یا تمام مسلمانوں کو) اور نہیں چھوڑتا کوئی مدینہ کو مگر اللہ تعالیٰ اس سے بہتر کوئی آدمی اس میں بھیج دیتا ہے اور نہیں صبر کرتا ہے کوئی اس کی بھوک، پیاس پر اور محنت و مشقت پر مگر میں اس کا شفیع یا گواہ ہوتا ہوں قیامت کے دن)
اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "من استطاع أن يموت بالمدينة فليمت بها، فإني أشفع لمن يموت بها" (الترمذي 3917, ابن ماجه 3112).(صحیح)(جو مدینہ میں مر سکتا ہو تو اسے چاہیئے کہ وہیں مرے کیونکہ جو وہاں مرے گا میں اس کے حق میں سفارش کروں گا)
6-مدینہ ایمان كا غار ہے ، اور وہ برائی اور گندی چیزوں كو اپنے پاس آنے سے روكتی ہے:
ملكوں میں جتنی بھی تنگی ہو جائے مدینہ میں ایمان پناہ لیتا ہے ،اور خبیثوں و شریروں كے لئے مسلسل مدینہ میں كوئی جگہ نہیں ،اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "إن الإيمان ليأرِز إلى المدينة كما تأرِز الحية إلى جحرها" (البخاري 1876, مسلم 147)،((قیامت کے قریب) ایمان مدینہ میں اس طرح سمٹ آئے گا جیسے سانپ سمٹ کر اپنے بل میں آ جایا کرتا ہے۔)ایك دوسری حدیث میں رسول اللہ نے یوں فرمایا: "...والذي نفسي بيده لا يخرج منهم أحد رغبة عنها إلا أخلف الله فيها خيراً منه، ألا إن المدينة كالكير؛ تخرج الخَبِيث، لا تقوم الساعة حتى تنفي المدينة شرارها كما ينفي الكير خَبَثَ الحديد"(مسلم 1381).(اور قسم ہے اس پروردگار کی کہ میری جان اس کے ہاتھ میں ہے کہ کوئی شخص مدینہ سے بیزار ہو کر نہیں نکلتا ہے، کہ االلہ تعالٰی اس سے بہتر دوسرا شخص بھیج دیتا ہے مدینہ میں۔ آگاہ ہو کہ مدینہ ایسا ہے جیسے لوہار کی بھٹی کہ نکال دیتا ہے میل کو اور قیامت قائم نہ ہو گی جب تک مدینہ نہ نکال دے گا اپنے شریر لوگوں کو جیسے کہ بھٹی نکال دیتی ہے لوہے کی میل کو)
7-مدینہ گناہوں اور بوجھوں كو صاف كرتا ہے :
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں كہ اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "إِنَّهَا طَيْبَةُ - يَعْنِي الْمَدِينَةَ- وَإِنَّهَا تَنْفِي الْخَبَثَ، كَمَا تَنْفِي النَّارُ خَبَثَ الْفِضَّةِ" (البخاري 4589، مسلم 1384).( یہ مدینہ «طيبة» ہے۔ یہ خباثت کو اس طرح دور کر دیتا ہے جیسے آگ چاندی کی میل کچیل کو دور کر دیتی ہے)
مدینہ كے زائرین پر اس كے ادب كا خیال ركھنا ضروری ہے ،اور اس كے چند آداب یہ ہیں:
1-مدینہ آنے كا ارادہ ركھنے والوں كے حق میں مشروع یہ ہے كہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كی مسجد كی زیارت كا قصد كریں ،اور اس كی طرف كوچ كی تییاری كریں ، ان كا مقصد رسول اللہ كے روضے كی زیارت نہ ہو ،جیساكہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم كاارشاد ہے: "لاَ تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَى ثَلاَثَةِ مَسَاجِدَ: المَسْجِدِ الحَرَامِ، وَمَسْجِدِ الرَّسُولِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَسْجِدِ الأَقْصَى" (البخاري 1189، ومسلم 1397).( تین مسجدوں کے سوا کسی کے لیے کجاوے نہ باندھے جائیں۔ (یعنی سفر نہ کیا جائے) ایک مسجد الحرام، دوسری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد (مسجد نبوی) اور تیسری مسجد الاقصیٰ یعنی بیت المقدس۔)
2-جب زیارت كرنے والا مسجد نبوی پہنچے تو اس كے لئے مسنون ہے كہ اپنا داہنا پیر پہلے بڑھائے ، اور یہ دعا پڑھے : «اللَّهُمَّ افْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ». (مسلم 713).(اے اللہ میرے لئے اپنی رحمت كا دروازہ كھول دے)
3-دو ركعت تحیۃ المسجد پڑھے ،اور اگر وہ اسے روضہ شریف میں پڑھے تو افضل ہے
4-نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ كے دونوں ساتھي ( ابوبكر و عمر رضی اللہ عنہما)كی قبر كی زیارت كرنا مسنون ہے ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم كی قبر كی جانب ادب ، پست آواز اور وقار كے ساتھ كھڑا ہو اور یہ دعا پڑھے : "السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته، میں گواہی دیتاہوں كہ آپ برحق اللہ كے رسول ہیں ،آپ نے رسالت پہنچا دی ، امانت ادا كردی ، امت كی خیر خواہی چاہی ، اور اللہ كی راہ كماحقہ جھاد كیا ، تو اللہ آپ كو آپ كی امت كی جانب سے افضل بدلہ دے جیسا كہ دوسرے نبی كو ان كی امت كی طرف سے بدلہ دیا ۔
پھر داہنے جانب ایك یا دو قدم آگے بڑھے ، تاكہ ابوبكر رضی اللہ عنہ كی قبر كے سامنے كھڑا ہو جائے اور آپ كو سلام كرے ، اور رضی اللہ عنہ كہے ،پھر داہنے جانب ایك یا دو قدم آگے بڑھائے اور عمر رضی اللہ عنہ كی قبر كے سامنے كھڑا ہو جائے ،آپ كو سلام كرے ،اور رضی اللہ عنہ پڑھے ،
5-مسجد نبوی كی زیارت كرنے والے شخص كے لئے مستحب ہے كہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم كی مسجد میں كثرت سےنماز پڑھے،تاكہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے فرمان میں جو وعدہ كیا گیا ہے وہ اجر عظیم وہ حاصل كرسكے ،: "صلاةٌ في مسجدي هذا خيرٌ من ألفِ صلاةٍ فيما سِواه إلاَّ المسجد الحرام" (البخاري 1190، ومسلم 1394).( میری اس مسجد میں نماز مسجد الحرام کے سوا تمام مسجدوں میں نماز سے ایک ہزار درجہ زیادہ افضل ہے۔)
6-قبا مسجد میں نماز پڑھنے كےلئے زیارت كرنا مسنون ہے ،جیسا كہ اس كی فضیلت آئی ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «مَنْ خَرَجَ حَتَّى يَأْتِيَ هَذَا الْمَسْجِدَ - مَسْجِدَ قُبَاءَ - فَصَلَّى فِيهِ كَانَ لَهُ عَدْلَ عُمْرَةٍ» (النسائي 700).(صحیح)(جو شخص (اپنے گھر سے) نکلے یہاں تک کہ وہ اس مسجد یعنی مسجد قباء میں آ کر اس میں نماز پڑھے تو اس کے لیے عمرہ کے برابر ثواب ہے)
7-بقیع قبرستان كی زیارت مسنون ہے ، اور شہدائے احد كے قبرستان كی ، اس لئے كہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان كی زیارت كرتے اور ان كے حق میں دعا فرماتے تھےاور آپ صلی اللہ علیہ وسلم كی قبروالوں كے لئے یہ دعا تھي "السَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الدِّيَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللهُ لَلَاحِقُونَ، أَسْأَلُ اللهَ لَنَا وَلَكُمُ الْعَافِيَةَ" (مسلم 975).(سلام ہو تم پر اے صاحب گھروں کے مؤمنوں اور مسلمانوں سے اور تحقیق ہم اگر اللہ نے چاہا تو تمہارے ساتھ ملنے والے ہیں۔ ہم اپنے اور تمہارے لیے عافیت مانگتے ہیں۔)
8- مسلمان اس بات پر حریص رہے كہ اللہ كے حكم پر اس مدینہ میں بالكل سیدھا رہے ،اللہ كی او راس كے رسول كی اطاعت كا التزام كرے ،بدعت و معصیت میں داخل ہونے سے شدت كے ساتھ بچنے كی كوشش كرے
9-اور مدینہ میں كسی پیڑ كے كاٹنے یا كسی شكار كے شكار كرنے كی پیش قدمی نہ كرے ، كیونكہ اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے كئی حدیثیں وارد ہوئی ہیں ،جیسا كہ اللہ كے رسول كا یہ فرمان: "إنَّ إبراهيمَ حرَّم مكَّةَ، وإنِّي حرَّمتُ المدينةَ ما بين لابتيها، لا يُقطَع عِضاهُها، ولا يُصادُ صيدُها"، (مسلم 1362).(ابراہیم علیہ السلام نے حرم مقرر کیا مکہ کا اور میں حرم مقرر کرتا ہوں مدینہ کا دونوں کالے پتھر والے میدانوں کے بیچ میں (یعنی جو مدینہ کے دونوں طرف واقع ہیں) کوئی کانٹے دار درخت نہ کاٹا جائے اور نہ کوئی جانور شکار کیا جائے)
10- جب كوئی مسلمان اس مدینہ میں ہو تو اس كا یہ احساس ہو كہ وہ ایسے شہر میں ہے جہاں سے روشنی پھوٹی ہے ، اوردنیا بھر میں نفع بخش علم نشر ہوا ہے ،تواسے علم شرعی كے حصول كی لالچ كرنی چاہئے جواسے اللہ كی جانب بصیرت كے ساتھ لے جائے ، اور بالخصوص جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كی مسجد میں علم كا طلب ہے ، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ كی حدیث كی وجہ سے كہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كو فرمات ہوئے سنا: "مَن دخل مسجدَنا هذا يتعلَّمُ خيراً أو يُعلِّمه كان كالمجاهدِ في سبيلِ الله، ومَن دخلَه لغير ذلك كان كالنَّاظرِ إلى ما ليس له"، (أحمد 10814، وابن حبان 87)(تعليق شعيب الأرنؤوط , إسناده حسن) .(جو شخص ہاری اس مسجد میں داخل ہو اور خیر سیكھے اور سكھائے تو وہ اللہ كی راہ میں جہاد كرنے والے كی طرح سے ہے ،اور جو اس مقصد كے علاوہ كے لئے داخل ہو توہ اس دیكھنے والے كے مانند جوایسی چیز كی طرف دیكھتاہے جو اس كا نہیں ہے ) یعنی اسے دیكھنے میں اچھا لگتا ہے لیكن وہ چیز كسی اور كی ہے )