تعلیم كو فالو اپ كریں

اب تك آپ نے انڑی كے لئے رجسٹریشن نہیں كیا
اپنی ترقی كے فالواپ كے لئے اور پوائنٹس اكٹھا كرنے كے لئے ،اور مسابقے میں شركت كے لئے منصہ تاء میں فورا رجسٹریشن كریں ،رجسٹرد ہونے كے بعد جن موضوعات كی آپ تعلیم حاصل كررہے ہیں آپ اس كی الكڑانك سرٹیفیكیٹ حاصل كریں گے

موجودہ قسم قرآن كریم

سبق: قرآن كریم كی تعریف

متعلم كو یہ سبق قرآن كریم كی حقیقت كے تصور اور اس كے نزول كی كیفیت اور اس كے جمع كے مراحل كے سمجھنے كی صلاحیت پرتعاون كرےگا۔

* قرآن كریم كی حقیقت اور اس كے پاروں اورسورتوں كی تعداد كی معرفت-* قرآن كریم كے جمع كرنے كے مراحل كی جانكاری۔

قرآن كریم

انسانوں كی ہدایت اور انہیں تاریكیوں سے روشنی كی طرف لانے كی خاطر اللہ عزو جل نے قرآن كریم كو اپنے سب سے بہتر مخلوق اور خاتم الانبیاء والرسل محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا، اللہ كا ارشاد ہے: ﴿قَدْ جَاءَكُمْ مِنَ اللهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُبِينٌ * يَهْدِي بِهِ اللهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلامِ وَيُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِهِ وَيَهْدِيهِمْ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ﴾ [المائدة: 15، 16].(تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے نور اور واضح کتاب آ چکی ہے [15] جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ انہیں جو رضائے رب کے درپے ہوں سلامتی کی راہیں بتلاتا ہے اور اپنی توفیق سے اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف ﻻتا ہے اور راه راست کی طرف ان کی رہبری کرتا ہے۔

قرآن كریم كی تعریف

قرآن كریم وہی اللہ كا معجزاتی كلام ہے ،محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل كیا گیا ہے ،اس كی تلاوت عبادت ہے ،سورہ فاتحہ سے شروع ہوكر سورہ الناس پر ختم ہوتا ہے۔

قرآن كریم كے بہت سے نام ہیں جواس كے شرف اور فضیلت كوواضح كرتے ہیں، انہی ناموں میں سے یہ ہیں:

١
قرآن: اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿إِنَّ هذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ﴾ [الإسراء: 9] (یقیناً یہ قرآن وه راستہ دکھاتا ہے جو بہت ہی سیدھا ہے۔
٢
الكتاب:اللہ تعالی نے فرمایا:﴿ذلِكَ الْكِتابُ لا رَيْبَ فِيهِ ﴾ [البقرة: 2].( اس کتاب (کے اللہ کی کتاب ہونے) میں کوئی شک نہیں)۔
٣
فرقان: جیسا كہ اللہ تعالی نے فرمایا:﴿تَبارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ ﴾ [الفرقان: 1]. (بہت بابرکت ہے وه اللہ تعالیٰ جس نے اپنے بندے پر فرقان اتارا)۔
٤
الذكر: جیسا كہ اللہ تعالی نے فرمایا:﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ ﴾ [الحجر: 9] (ہم نے ہی اس قرآن کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں)۔

قرآن كریم كا نزول

قرآن نازل ہوا ،اور ماہ رمضان میں لیلۃ القدر میں پہلا نزول آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوا، جیسا كہ اللہ كا ارشادہے: ﴿إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ﴾ (القدر: 1) (بلاشبہ ہم نے اسے قدر کی رات میں اتارا) اور اللہ نے فرمایا: ﴿شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ﴾ [البقرة: الآية 185].(رمضان کا مہینا وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا، جو لوگوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ہدایت کی اور (حق و باطل میں) فرق کرنے کی واضح دلیلیں ہیں)۔

اور اللہ كے پاس سے جو قرآن لیكر نبی صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس آئے وہ اللہ كے مكرم فرشتوں میں سے ایك فرشتہ جبریل علیہ السلام ہیں جیسا كہ قرآن كے متعلق اللہ كا ارشاد ہے: ﴿وَإِنَّهُ لَتَنْزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ (192) نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ (193) عَلَى قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنْذِرِينَ (194) بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ ﴾ [الشعراء: 192- 195].(اور بیشک و شبہ یہ (قرآن) رب العالمین کا نازل فرمایا ہوا ہے [192] اسے امانت دار فرشتہ لے کر آیا ہے [193] آپ کے دل پر اترا ہے کہ آپ آگاه کر دینے والوں میں سے ہو جائیں [194] صاف عربی زبان میں ہے )۔

نبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم پرقرآن كی جو آیتیں پہلے اتریں وہ سورہ علق كی ابتدائی پانچ آیتیں ہیں ، اللہ تعالی كا ارشاد ہے: ﴿اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ (1) خَلَقَ الْأِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ (2) اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ (3) الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ (4) عَلَّمَ الْأِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ ﴾ [العلق: 1- 5]. پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا [1] جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا [2] تو پڑھتا ره تیرا رب بڑے کرم واﻻ ہے [3] جس نے قلم کے ذریعے (علم) سکھایا [4] جس نے انسان کو وه سکھایا جسے وه نہیں جانتا تھا [5]

اس كے بعد مختلف اوقات میں مكہ و مدینہ میں تیئس سالہ دور نبوت میں حادثات و واقعات كے پیش نظر الگ الگ آیتیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پراتر تی رہیں

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے فرماتے ہیں : «أنزل القرآن جملة واحدة إلى سماء الدنيا في ليلة القدر، ثم نُزِّلَ بعد ذلك في عشرين سنة» (الأسماء والصفات للبيهقي 497) (پورا قرآن آسمان دنیا پر لیلۃ القدر میں ایك ہی بار نازل كیا گیا ،پھر تھوڑا تھوڑا اس كے بعد بیس سال میں اترتا رہا)

قرآن كریم كی سورتیں

قرآن كریم كی كل سورتوں كی تعداد (114)ہے،اس كی پہلی سورت سورت فاتحہ ہے اورآخری سورت الناس ہے

مكی و مدنی سورتیں

١
مكی سورتوں كی تعداد 86 ہے ،اور یہ وہ سورتیں ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ہجرت سے پہلے اتری ہیں
٢
مدنی سورتوں كی كل تعداد 28 ہے ، اور یہ سورتیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ہجرت كے بعد نازل ہوئی ہیں

قرآن كریم كے كل تیس (30) پارے ہیں اور 60 حزب ہیں

قرآن كا لكھنا اور اس كا جمع كرنا

قرآن كے لكھنے اور اسے تدوین كے تین مراحل ہیں

پہلا مرحلہ: عہد نبوت میں

اس مرحلہ میں لكھنے سے زیادہ لوگوں كا اعتماد حفظ پر تھا كیونكہ اس وقت لوگوں میں قوت حافظہ و سرعت حافظہ بہت تھی ، اور لكھنے والے اور لكھنے كے وسائل دونوں بہت محدود تھے ،اسی وجہ سے قرآن كو مصحف كی شكل میں جمع نہیں كیا گیا تھآ ،بلكہ اگر كسی نے ایك آیت بھی سنی تو اسے حفظ كرلیا ،یا جو بھی اسے ملااس پر اس كو لكھ لیا جیسے كھجوركی ٹہنی،چمڑے كے ٹكڑے ،پتلے سفید پتھر كے ٹكڑے پر اور ٹوٹی ہوئی چوڑی ہڈیوں بر ،اور اس وقت قراء كی تعداد كافی تھی

دوسرا مرحلہ:ابو بكر رضی اللہ عنہ كا عہد

ہجرت كے بارہویں سال جب یمامہ حادثے میں قراء كی ایك تعداد قتل كردی گئی تو ابو بكر رضی اللہ عنہ نے قرآن كے ضائع ہونے كے ڈر سے اسے جمع كرنے كا حكم دیا

زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جنگ یمامہ میں (صحابہ کی بہت بڑی تعداد کے) شہید ہو جانے کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے بلا بھیجا۔ اس وقت عمر رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ یمامہ کی جنگ میں بہت بڑی تعداد میں قرآن کے قاریوں کی شہادت ہو گئی ہے اور مجھے ڈر ہے کہ اسی طرح کفار کے ساتھ دوسری جنگوں میں بھی قراء قرآن بڑی تعداد میں قتل ہو جائیں گے اور یوں قرآن کے جاننے والوں کی بہت بڑی تعداد ختم ہو جائے گی۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ آپ قرآن مجید کو (باقاعدہ کتابی شکل میں) جمع کرنے کا حکم دے دیں۔ میں نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ ایک ایسا کام کس طرح کریں گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنی زندگی میں) نہیں کیا؟ عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا یہ جواب دیا کہ اللہ کی قسم! یہ تو ایک کارخیر ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ یہ بات مجھ سے باربار کہتے رہے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے اس مسئلہ میں میرا بھی سینہ کھول دیا اور اب میری بھی وہی رائے ہو گئی جو عمر رضی اللہ عنہ کی تھی۔ زید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا آپ (زید رضی اللہ عنہ) جوان اور عقلمند ہیں، آپ کو معاملہ میں متہم بھی نہیں کیا جا سکتا اور آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی لکھتے بھی تھے، اس لیے آپ قرآن مجید کو پوری تلاش اور محنت کے ساتھ ایک جگہ جمع کر دیں۔ اللہ کی قسم! اگر یہ لوگ مجھے کسی پہاڑ کو بھی اس کی جگہ سے دوسری جگہ ہٹانے کے لیے کہتے تو میرے لیے یہ کام اتنا مشکل نہیں تھا جتنا کہ ان کا یہ حکم کہ میں قرآن مجید کو جمع کر دوں۔ میں نے اس پر کہا کہ آپ لوگ ایک ایسے کام کو کرنے کی ہمت کیسے کرتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود نہیں کیا تھا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! یہ ایک عمل خیر ہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ یہ جملہ برابر دہراتے رہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میرا بھی ان کی اور عمر رضی اللہ عنہ کی طرح سینہ کھول دیا۔ چنانچہ میں نے قرآن مجید (جو مختلف چیزوں پر لکھا ہوا موجود تھا) کی تلاش شروع کر دی اور قرآن مجید کو کھجور کی چھلی ہوئی شاخوں، پتلے پتھروں سے، (جن پر قرآن مجید لکھا گیا تھا) اور لوگوں کے سینوں کی مدد سے جمع کرنے لگا۔ سورۃ التوبہ کی آخری آیتیں مجھے ابوخزیمہ انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس لکھی ہوئی ملیں، یہ چند آیات مکتوب شکل میں ان کے سوا اور کسی کے پاس نہیں تھیں «لقد جاءكم رسول من أنفسكم عزيز عليه ما عنتم‏» سے سورۃ براۃ (سورۃ توبہ) کے خاتمہ تک۔ جمع کے بعد قرآن مجید کے یہ صحیفے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس محفوظ تھے۔ پھر ان کی وفات کے بعد عمر رضی اللہ عنہ نے جب تک وہ زندہ رہے اپنے ساتھ رکھا پھر وہ ام المؤمنین حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا کے پاس محفوظ رہےالبخاري (4986).

تیسرا مرحلہ: عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ كا عہد

عہد عثمان بن عفان میں اسلامی ریاست كا دائرہ وسیع ہو رہا تھا اور ہر شہر والے جو كچھ انہوں نے صحابہ سے قرآن سیكھا تہآ اسی انداز میں وہ اس كی قراءت كر رہے تھے ،متعدد طریقوں سے قرآن كریم كی قراءت كے پیش نظر فتنہ پیدا ہونے كا اندیشہ ہوگیا بالخصوص ایسی صورت میں جب كہ اس نےنبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن سنا ہی نہ ہو ، اسی لئے عثمان رضی اللہ عنہ نے ایك ہی مصحف پر لوگوں جمع ہونے كا حكم دے دیاتاكہ لوگوں میں اختلاف نہ برپا ہو كہ لوگ اللہ كی كتاب كو لے كر لڑ پڑیں اور الگ الگ فرقوں میں بٹ جائیں

انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ امیرالمؤمنین عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اس وقت عثمان رضی اللہ عنہ ارمینیہ اور آذربیجان کی فتح کے سلسلے میں شام کے غازیوں کے لیے جنگ کی تیاریوں میں مصروف تھے، تاکہ وہ اہل عراق کو ساتھ لے کر جنگ کریں۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ قرآن مجید کی قرآت کے اختلاف کی وجہ سے بہت پریشان تھے۔ آپ نے عثمان رضی اللہ عنہ سے کہا کہ امیرالمؤمنین اس سے پہلے کہ یہ امت (امت مسلمہ) بھی یہودیوں اور نصرانیوں کی طرح کتاب اللہ میں اختلاف کرنے لگے، آپ اس کی خبر لیجئے۔ چنانچہ عثمان رضی اللہ عنہ نے حفصہ رضی اللہ عنہا کے یہاں کہلایا کہ صحیفے (جنہیں زید رضی اللہ عنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے حکم سے جمع کیا تھا اور جن پر مکمل قرآن مجید لکھا ہوا تھا) ہمیں دے دیں تاکہ ہم انہیں مصحفوں میں (کتابی شکل میں) نقل کروا لیں۔ پھر اصل ہم آپ کو لوٹا دیں گے حفصہ رضی اللہ عنہا نے وہ صحیفے عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دئیے اور آپ نے زید بن ثابت، عبداللہ بن زبیر، سعد بن العاص، عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ وہ ان صحیفوں کو مصحفوں میں نقل کر لیں۔ البخاري (4987).

اور وہی قرآن جو مسلمانوں كے درمیان متفقہ طور جمع كیا گیا تھا آج تك بلا كسی انقطاع كے مسلمانوں میں باقی ہے

كامیابی سے آپ نے درس مكمل كیا


امتحان شروع كریں