موجودہ قسم قرآن كریم
سبق: قراءت قرآن كےآداب و احكام
حفظ قرآن كا حكم
عائشہ رضی اللہ عنہا نےسے مروی ہے كہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس شخص کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے اور وہ اس کا حافظ بھی ہے، مکرم اور نیک لکھنے والے (فرشتوں) جیسی ہے ۔( البخاري (4937).
قرآن كریم كی تلاوت كا حكم
ایك مسلمان كے لئے تلاوت قرآن مستحب ہے ،بلكہ حسب استطاعت زیادہ تلاوت كرنی چاھئے ،اللہ كا ارشادہے: ﴿ إِنَّ الَّذِينَ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً يَرْجُونَ تِجَارَةً لَنْ تَبُورَ ﴾ [فاطر 29]. جو لوگ کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز کی پابندی رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو عطا فرمایا ہے اس میں سے پوشیده اور علانیہ خرچ کرتے ہیں وه ایسی تجارت کے امیدوار ہیں جو کبھی خساره میں نہ ہوگی
تلاوت قرآن غور سے سننے اورخاموش رہنے كا حكم
جب فرض نماز میں اورخطبہ جمعہ میں قرآن كریم كی تلاوت ہو رہی ہو تو ایك مسلمان پر اس كا غور سے سننا اورخاموش رہنا واجب ہے ،جیسا كہ اللہ كا فرمان ہے : ﴿ وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ﴾ [الأعراف: 204]. اور جب قرآن پڑھا جایا کرے تو اس کی طرف کان لگا دیا کرو اور خاموش رہا کرو امید ہے کہ تم پر رحمت ہو
قرآن كریم كو غور سے سننا اور خاموش رہنا مستحب ہے ، كیونكہ اس میں اللہ كے كلام كا ادب اور توقیر ہے
قرآن پر ایمان لانا اور اس كے احكام كے مطابق عمل كرناہر شخص پر واجب ہے،جو اس نے حلال بتایا اسے حلال تسلیم كرنا اور جو اس نے حرام بتایا اسے حرام ماننا،جس سے اس نے روكا وہیں ٹھہر جانا ، اور جسے كرنے كا حكم دیا ہے اس حكم كو مان لینا اوراس كے مطابق عمل پیرا ہونا
اللہ تعالی كا ارشاد ہے: {الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلَاوَتِهِ} (البقرة: 121)،وہ لوگ جنھیں ہم نے کتاب دی ہے، اسے پڑھتے ہیں جیسے اسے پڑھنے کا حق ہے، ابن عباس اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم نے اس آیت كی تفسیر كرتے ہوئے فرمایا:یعنی اس كے حلال كردہ كو حلال سمجھتے ہیں ، اور اس كے حرام كردہ چیزوں كو حرام سمجھتے ہیں ، اور جو اس كا مقصود ہوتا ہے اس میں تحریف نہیں كرتے ہیں (تفسیر ابن كثیر 1/403)
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں كہ جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن كی دس آیتیں سیكھ لیتے تو ہم اس كے بعد نازل ہونے والی آیتوں كو نہیں سیكھتے جب تك ہم اس میں موجود حكم كو جان لیتے (حاكم:2047)،یعنی اس میں جس عمل كا مطالبہ ہوتا ہم وہ عمل كرتے ، جیسا كہ اس كی وضاحت حدیث كے ایك راوی نے كی ہے
ایك مسلمان كو قرآن كریم كی تلاوت كی مداومت پر معاہدہ كرنا چاھئے اور اس كےلئے یہ مناسب ہے كہ ہر دن كچھ نہ كچھ قرآن كی تلاوت كرتا رہے تاكہ وہ اسے نہ بھولے اور نہ ہی اسے چھوڑے اللہ كا ارشاد ہے: ﴿وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآَنَ مَهْجُورًا ﴾ [الفرقان: 30].اور رسول کہے گا اے میرے رب! بے شک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑا ہوا بنا رکھا تھا
ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نےسے مروی ہے كہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «تعاهدوا القرآن، فوالذي نفسي بيده لهو أشد تفصياً من الإبل في عقلها» البخاري (5033).”قرآن مجید کا پڑھتے رہنا لازم پکڑ لو“ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے وہ اونٹ کے اپنی رسی تڑوا کر بھاگ جانے سے زیادہ تیزی سے بھاگتا ہے۔
قرآن كریم كی تلاوت كے آداب
تلاوت قرآن كے كچھ آداب ہیتں جن كی رعایت كرنا مناسب ہے ،تاكہ تلاوت قبول ہوجائے اور اس پر ثواب ملے ،اور ان آداب میں سے كچھ ایسے ہیں جوتلاوت سے پہلے ہیں اور كچھ كا تعلق دوران تلاوت سے ہے