موجودہ قسم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق معلومات
سبق: نبی اكرم محمد صلی اللہ علیہ وسلم كی سیرت (2)
پیغام اسلام كے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كی بعثت
رسول الله صلي الله عليه وسلم كي وحي كا آغاز سچے خواب سے ہوا،آپ جو بھی خواب دیکھتے تھے اس کی تعبیر صبح کے پو پھٹنے کی طرح ظاہر ہو جاتی تھی، اور آپ كی یہی حالت چھ مہینے رہی ،پھر كلامی وحی كا آغاز ہوا
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم كی عمرچالیس سال كے قریب ہوئی تو آپ كو تنہائی بہت محبوب ہوگئی،آپ ماہ رمضان غارحرا میں گذارنے لگے ، آپ تنہائی اختیار كر كے اللہ كی عبادت میں لگ گئے ،اور آپ اسی حالت پرتین سال باقی رہے یاں تك كہ آپ كی ایك تنہائی ہی كے عالم میں كلامی وحی آپ پر آگئی،
اور جب آپ كی عمر مكمل چالیس برس كی ہو گئی تو آپ پر نبوت كی تجلی واضح ہوگئی ،اور اللہ نے آپ كو رسالت سے نواز دیا،اور تمام لوگوں كی طرف آپ مبعوث فرما دیا،اور اپنی كرامت كے لئے آپ كو خاص كرلیا،اورآپ كو اپنے اوراپنےبندوں كے درمیان اپنا امین بنالیا،پھر آپ كے پاس اللہ كا حكم لے كر جبریل علیہ السلام آئے،اور آپ كو اللہ نے رحمۃ للعالمین بنا كربھیجا،اورتمام لوگوں كی طرف آپ كو بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا كر بھیجا
جس دن سے نبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب كے حكم كو لوگوں كی طرف پہنچانےكی ذمہ داری اللہ كے اس فرمان سے قبول كی :( اے کپڑا اوڑھنے والے*کھڑا ہوجا اور آگاه کردے) تو فورا آپ نےلوگوں كے ایك اللہ كی عبادت كرنے اور اس دین كو قبول كرن كی دعوت دینی شروع كردی جو دین دے كر اللہ نے آپ كو بھیجا تھا
خفیہ دعوت
نبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم نےخفیہ طور پر اسلام كی طرف لوگوں كو بلانا شروع كردیا ،تاكہ اہل مكہ میں ہیجانی كیفیت نہ پیدا ہوجائے ،پہلے آپ نے اپنے اہل خانہ اور دوستوں میں سے جو آپ سے زیادہ قریبی تھے ان پر اسلام پیش كرنے لگے،اور جن میں آپ حق و بھلائی سے محبت كی علامت دیكھتے ان پر اسلام پیش كرتے۔
سب سے پہلے جس نے اسلام قبول كیا
آپ صلی اللہ علیہ وسلم كی دعوت پر سب سے پہلے جس نے اسلام قبول كیا وہ آپ كی بیوی خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا تھیں،اور آپ كے ساتھی و دوست ابو بكرصدیق رضی اللہ عنہ تھے،اورآپ كے چچہرے بھائی علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تھے ،اور آپ كے غلام زید بن حارثہ تھے
پھر اللہ كی طرف سےعلی الاعلان آپ كو دعوت دینےكا حكم آیا(پس آپ اس حکم کو جو آپ کو کیا جارہا ہے کھول کر سنا دیجئے! [الحجر:94]،اس كےبعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےاعلانیہ اسلام كی دعوت دینے شروع كردی،اوركھول كھول كر آپ حق بیان كرنے لگے جیسا كہ اللہ نے آپ كوحكم دیا تھا
جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلانیہ دعوت دینا شروع كیا قریش كے سرداروں اور لیڈروں نے مختلف انداز سے آپ كی دعوت كو روكنے كی كوشش كرنے لگے اور اس سے اعراض كرنے لگے ،كبھی تو مزاق اڑا كر،كبھی حقارت كی نظر سے دیكھ كر،اوركبھي استہزا و تكذیب كے كركے ،تاكہ مسلمانوں كوجھكا سكیں ،اوران كی معنوی طاقتوں كوكمزور كرسكیں ،اوردین اسلام كی تعلیمات كےچہرے كوبگاڑ دیں، شك و شبہات كو بھڑكادیں ،جھوٹی افواہیں پھیلائیں،اورمتعین فوائد كے مقابلے میں ترك دعوت پر نبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم خرید لیں۔
جب مشركین نے دیكھا كہ ان كا یہ انداز بھی ان كے لئے مفید ثابت نہیں ہورہا ہے اور نبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعوت میں برابر آگے بڑھ رہے ہیں تو انہوں نے اسلام سے جنگ لڑنے كافیصلہ لے لیا،اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم كو ایذا پہونچانا شروع كردیا ،اور آپ كے اصحاب كو جوآپ پر ایمان لے آئے تھے انہیں پكڑ پكڑ كر عذاب دینے لگے اور ستم ڈھانے لگے،جب مشركین كی اذیتیں حد سے زیادہ بڑھ گئیں تونبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم نےاپنے اصحاب كو حبشہ كی طرف ہجرت كرنے كا حكم دے دیا،اس كے بعد مسلمان مردو خواتین كے چند لوگ بعثت كے پانچویں سال حبشہ كی طرف ہجرت كر گئے ،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم كی دعوت كامیابی اور ظلم و ستم كے انہیں دشوار گذارراستوں سے اسی مرحلے میں تھی ،كہ اسراء و معراج كا واقعہ رونما ہوا،اور یہ واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كومضبوط بنانے كے لئے اوردعوت كے كئی سال كے بعد آپ كی تكریم كے لئے پیش آیا تھا،اورمشركوں كی اذیت وظلم وجور ، اور مسلسل ان كے انكارو جفا كے پاداش میں آپ كی دل جوئی كے لئے اللہ نےعطا كیا تھا،
مكہ كے باہر دعوت
نبی صلی اللہ علیہ وسلم مكہ كے باہر اسلام پیش كرنے لگے،اسی لئے آپ طائف گئے ،لیكن اہل طائف سے جو سختیاں اوراعراض آپ نے جھیلا اس كے بعد آپ طائف سے واپس مكہ آگئے،اورآپ موسم حج میں قبائل اور افراد كو اسلام كی دعوت دینے لگے
عقبہ كی دونوں بیعتیں
بعثت كے گیارہویں سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم كی ملاقات موسم حج میں اہل یثرب كے چھ لوگوں سے ہوئی،-بعد میں آپ نےیثرب كانام مدینہ ركھا-آپ نے ان پر اسلام پیش كیا،اوران كےسامنےاسلام كی حقیقت كو واضح كیا،اور انہیں اللہ كی طرف دعوت دی ،اور انہیں قرآن پڑھ كرسنایا،وہ مشرف بہ اسلام ہوگئے ،اورمدینہ واپس جاكر اپنی قوم كو دعوت دینے لگے،یہاں تك كہ ان میں اسلام پھیل گیا،پھر بعثت كے بارہویں سال موسم حج میں پہلی بیعت عقبہ لی گئی ،اور پھر اس كےبعد بعثت كے تیرہویں سال موسم حج میں دوسری بیعت عقبہ ہوئی،اور یہ سب پوشیدہ طور سے ہوتا رہا،جب یہ مكمل ہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےاپنے رہنے والے مسلمان ساتھیوں كو مدینہ ہجرت كرنے كا حكم فرمایا،پھر وہ سب ایلچی بن كر مدینہ نكل گئے
مكہ سے بیشتر مسلمانوں كےہجرت كے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبكر صدیق رضی اللہ عنہ مدینہ ہجرت كے غرض سے نكل پڑے ،لیكن آپ دونوں نے الٹے رخ كی طرف چل پڑے تاكہ قریش كے لوگ اس معاملے میں اندھیرے میں رہیں ،پھر آپ دونوں غارثور میں چلے گئے اور وہاں تین دن قیام كیا ،پھر اس كے بعدبحر احمر كے ساحلی راستوں سے ہوتے ہوئے مدینہ كا رخ كیا ،اوریہ راستہ بہت سارے لوگوں كومعلوم نہ تھا،جب آپ اور آپ كے غار كے ساتھی ابو بكر مدینہ كی چوپٹیوں پر پہونچے تو اہل مدینہ كے مسلمانوں نے انتہائی فرح و مسرت كے ساتھ بڑی گرم جوشی سے آپ كا استقبال كیا
مدینہ پہونچنے كے بعد رسول اللہ صلی اللہ نے سب سے پہلے جو كام كیا وہ مسجد نبوی كی تعمیر تھي،اور مہاجرین و انصار كے درمیان بھائی چارہ قائم كروانا تھا ،اس سے نئے اسلامی معاشرے كے اصول و ضوابط كی تاسیس تھی ،
مدینہ ہجرت كے بعد پے در پے اسلام كے شرائع و قوانین نازل ہوتے رہے ،جیسے زكاۃ ، روزے ،حج ، جہاد ، اذان ، بھلا ئی كے كاموں كا حكم دینا اور منكرسے منع كرنا ،جیسے بہت سے اسلامی قوانین
اللہ نے مسلمانوں كے لئے قتال كا حكم نازل فرمایا تاكہ وہ اپنے دین و ملك كا دفاع كرسكیں،اور اسلام كے ہمیشہ ہمیش باقی رہنے والے پیغام كی نشرو اشاعت میں سعی و كوشش كریں،جیسا كہ اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿أُذِنَ للَّذينَ يُقَاتَلوُنَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا﴾ [الحج:39].( جن (مسلمانوں) سے (کافر) جنگ کر رہے ہیں انہیں بھی مقابلے کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ وه مظلوم ہیں)قتال كے سلسلے میں یہی وہ پہلی آیت ہے جو نازل ہوئی ہے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس غزوات كئے اور آپ نے چھپن سریہ بھیجا۔
ہجرت كے بعد رونما ہونے والے اہم واقعات
مدینہ منورہ كی جانب ہجرت كے بعد حاصل ہونے والےچند اہم واقعات كی مختصر جھلكیاں، ملاحظہ ہو آنے والے سطور میں
ہجرت كا پہلا سال
ہجرت كا دوسرا سال
زكاۃ و روزہ كی فرضیت ،جنگ بدر جس میں اللہ نے اہل ایمان كو عزت و شرف سے نوازا،اور كفار قریش كے مقابلے میں فتح و نصرت سے ہمكنار كیا
ہجرت كا تیسرا سال
عزوہ احد كا وقوع ، اور اس میں مال غنیمت حاصل كرنے كے لئے تیر اندازوں كا جبل احد سے اتر كر تعلیمات مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم كی مخالفت كے سبب ہزیمت سے دوچار ہونا
ہجرت كا چوتھا سال
غزوع بنی نضیر كا واقع ہونا ،اور جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نضیر كے یہودیوں كومدینہ سے جلاوطن كردیا كیونكہ انہوں نے مسلمانوں سے كئے گئے اپنے عہد و پیمان كو توڑ دیا تھا،
ہجرت كا پانچواں سال
غزوہ بنی مصطلق، وغزوہ احزاب و غزوہ بنی قریظہ كا واقع ہونا
ہجرت كا چھٹا سال
مسلمانوں او رقریش كے درمیان صلح حدیبیہ كا ہونا
ہجرت كا ساتواں سال
غزوہ خیبر كاوقوع ، اور اسی سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمان مكہ میں داخل ہوئے اور عمرہ قضاء كیا
ہجرت كا آٹھواں سال
مسلمانوں اور رومیوں كے بیچ معركہ مؤتہ كا وقوع ، فتح مكہ ، قبیلہ ہوازن و ثقیف كے خلاف غزوہ حنین كا وقوع
ہجرت كا نواں سال
غزوع تبوك اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم كا آخری غزوہ تھا،اور اسی سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس باہر سے وفود آتے تھے اورلوگ اللہ كے دین میں فوج درفوج داخل ہو رہے تھے،اور اسی لئے اس سال كا نام سال وفود ركھا گیا ہے
ہجرت كا دسواں سال
حجۃ الوداع كا وقوع ،اور اس حج میں نبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم كے ساتھ ایك لاكھ مسلمانوں سے زائد لوگوں نے حج كیا
جب دعوت مكمل ہوگئی ،اور اسلام جزیرہ عرب كے كونے كونےتك پہنچ گيا ، اورلوگ جوق درجوق اسلام داخل ہونے لگے ،اور پوری دنیا میں بڑی تیزی سے اسلام كا انتشارظاہر ہوگیا ،اوردین اسلام تمام ادیان پرغالب آگیا ،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی موت كے قریب ہونے كا احساس كرلیا،اورآپ اپنے رب سے ملنے كی تیاری میں لگ گئے ،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم كے اقوال و افعال یہ ظاہر ہونے لگا كہ آپ اس فانی دنیا سے بہت جلد رحلت فرمانے والے ہیں
ہجرت كے گیارہویں سال بروز پیر ربیع الاول كی بارہ تاریخ كو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كی وفات ہوئی
وفات كے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم كی عمرتیرسٹھ سال كی تھی ،ان میں نبوت سے پہلے كی عمر چالیس سال اور نبی و رسول كی شكل میں آپ كی عمرتیئس سال تھي ،جن میں سے تیرہ سال آپ مكہ میں اور دس سال مدینہ میں رہے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو وفات پا گئے لیكن آپ كا دین ہمیشہ رہنے والا ہے ،وفات سے پہلے آپ نے امت كے حق میں جتنی چیزیں خیر و بھلائی كی تھیں سب كی طرف آپ نے رہنمائی فرما دی ہے ،اور جتنی چیزیں امت كے حق میں شر و برائی كی تھیں آب نے اس ڈانٹا و بچایا ہے ،اور بھلائی وہی ہے جس پر توحید دلالت كرے اورہر وہ كام جس سے اللہ پسند كرے اور اس سے راضی ہو ،اور شر وہی شرك ہے جس سے آپ نے ڈرایا ہے ،اور ہر وہ كام ہے جسے اللہ نا پسند كرے اور جسے وہ قبول نہ كرے