موجودہ قسم مالی لین دین
سبق: كمپنی (شراكت)
حق طلبی یا تصرف میں اكٹھا ہونے كو شركہ كہتے ہیں ،چاہے وہ دویا اس سے زیادہ كے بیچ ہو؛ پہلے كی مثال؛یہ كہ میراث یا عطیہ میں دو آدمی شریك ہوں ، اور دوسرے كی مثال؛ بیع و شراء میں دو آدمی شریك ہوں ۔
شراكت كا حكم
شراكت جائز ہے ؛لین دین كی اصل اباحت (جواز ) ہے ، روزی كے حصول كی خاطر اللہ تعالی نے اپنےبندوں پر آسانی كرتے ہوئے اسے جائز قرار دیا ہے ، اور یہ شراكت مسلم و غیر مسلم دونوں كے ساتھ صحیح ہے ، اس لئے كافر كی شراكت اس شرط كے ساتھ جائز ہے كہ وہ مسلمان كو چھوڑ كر تنہا تصرف نہ كرے ۔
آدمی كو اس كے مال میں اضافہ و بڑھوتری كی ضرورت ہے ، اور كبھي كبھي وہ عدم قدرت اور عدم مہارت كی وجہ سے یا راس مال كافی نہ ہونے كی وجہ سے تنہا اسے انجام دینے كی طاقت نہیں ركھتا ،اور اسی طرح سے معاشرہ بڑے منصوبے كی ضرورت محسوس كرتا ہے ، بہت كم ایسا پایا جاتا ہے كہ كوئی ایك شخص اكیلے انہیں انجام دینے كی صلاحیت ركھتا ہو ، جبكہ شراكت سے سب چیزیں میسر ہوتی ہیں ۔
شراكت كی قسمیں
جائداد ( یا ملكیت )كی شراكت كی دو قسمیں ہیں :
یہ دو شراكت داروں كے فعل سےوجود پذیر ہوگی ، مثلا وہ دونوں كوئی زمین یا منقول چیز خریدیں ،اور وہ دونوں ملكیت كی شراكت میں مشترك ہوں ۔
غیر اختیاری شراكت
یہ شراكت دوشخص یا اس سے بڑھ كر كے لئے ان دونوں كے بغیر فعل كے ثابت ہوگی ، جیسے كہ دو شخص كسی چیز كے وارث ہوں ، تو وہ ورثہ كی چیز ان دونوں كے درمیان ملكیت كی شراكت میں مشترك ہوں گے ۔
ملكیت (جائداد) كی شراكت میں شركاء كا تصرف
دو شریكوں میں سے ہر ایك گویا كہ وہ اپنے صاحب كے حصے كے متعلق اجنبی ہے ، اس لئے اس كی اجازت كے بغیراس میں اس كا تصرف كرنا جائز نہیں ، اگر اس نے تصرف كی تو صرف اس كے حصے كا تصرف ہی نافذ كیا جائے گا ، مگر جب كہ اس كا ساتھی اسے تصرف كی اجازت دے دے ، تو اس تصرف كو سب پر لاگو كیا جائے گا،
معاہدے كی شراكت
شراكت وہی تصرف میں اكٹھا ہونا ہے ؛جیسے بیع و شراء میں اور كرایہ داری میں ، اور اسی طرح دیگر چیزوں میں ۔
معاہدے كی شراكت كی قسمیں
مضاربہ كی شراكت
یہ كہ دو شریكوں میں سے ایك دوسرے كو مال دے كہ وہ اس میں تجارت كرے ، اس شرط پر كہ اس كے لئے ایك متعین نفع ہے ، جیسے چوتھائی یا تہائی یا اسی جیسے ، اور بقیہ نفع صاحب مال كا ہوگا ، اور تصرف كے بعد اگر مال میں گھاٹا ہوا تو اس كی نفع سے تلافی كی جائے گی ، اور كام كرنے والے پر كچھ نہیں ہے ، اور اگر اس كی كوتاہی اور تفریط سے مال ضائع نہیں ہوا ہے تو كام كرنے والا اس كا ضامن نہیں ہے ، اور مضارب عامل مال قبضہ كرنے میں امین ہے اور تصرف میں وكیل ہے ، اور عمل میں مزدور ہے ، اور نفع میں شریك (پاٹنر ) كی حیثیت ركھتا ہے ۔
وجوہ كی شراكت
دو آدمی شراكت كریں اور ان دونوں كا اپنا كوئی راس مال نہ ہو ، اور وہ لوگوں كے درمیان اپنے اثر و رسوخ كی وجہ سے ادھار خریدیں اور كیش بیچیں ، اور اللہ جو انہیں نفع سے نوازے وہ دونوں آپس میں بانٹ لیں ، اور جو بھی گھاٹا ہو وہ دونوں اس كے ذمہ دار ہوں ، اور ان دونوں میں سے ہر ایك دوسرے كا وكیل ہے، اور بیع و شراء اور تصرف میں ایك دوسرے كے كفیل ہیں ، اور سے وجوہ كی شراكت كانام اس لئے دیا گیا كیونكہ ادھار نہیں بیچا جارہا ہے مگر لوگوں میں ان كے اثرو رسوخ كی بنا پر ۔
عنان كی شراكت
یہ كہ دو آدمی جسمانی محنت كرنے میں اور متعین رقم لگآنے میں ساجھے داری كریں ،گرچہ كسی كی رقم زیادہ ہو اور دوسرے كی كم ہو ،تاكہ وہ دونوں جسمانی محنت كریں ،اور اس میں یہ شرط لگائی جائے گی كہ ان دونوں كے راس مال متعین ہوں ، اور نفع و گھاٹا شرط اور رضامندی كے اعتبار سے ہوگا ۔
بدن كی ساجھے داری
دو آدمی جسمانی محنت سے كمانے میں شراكت كریں چاہے وہ حرفت ہو یا پیشہ ہو جیسے ویلڈنگ (لوہارپن ) یا كارپنٹر ی (لكڑی گاٹنے )ہو ، یا كسی بھی جائز كام میں شراكت ہو جیسے لكڑی اور چارہ كاٹنا وغیرہ ، اور جو كچہ اللہ انہیں نوازے وہ اتفاق اور رضامندی كی بنیاد پر ان دونوں كے درمیان تقسیم ہوگآ ۔
مفاوضہ كی شراكت
شركاء میں سے ہر ایك اپنے ساتھی كو مالی و بدنی ہر قسم كے تصرف كو اس كے سپرد كردے ،اس طرح ہر شریك كو بیع و شراء میں ، لین دین میں ، ضمان و توكیل میں ، قرض و تبرع میں یا اسی جیسی تجارت میں جن چیزوں كے تصرف كی ضرورت محسوس ہو اس میں اسے تصرف كا كلی اختیار ہوگا
ہر شریك كا جو اس كا پاٹنر كررہا ہے وہ اس كا پابند كیا جائے گا ، اور شراكت انہیں چیزوں میں ہوگی جن مالوں پر معاہدہ ہوا ہے ، اور شرط كے مطابق ان دونوں كے درمیان نفع ہوگا ، اور گھاٹا ان میں سے ہر ایك كے شراكت كی ملكیت كے مقدار ہوگا ، اور یہ ساجھی داری جائز ہے ، اور یہ چیزیں سابقہ چاروں شراكت كے درمیان اكٹھا ہیں، اور تمام كی تمام جائز ہیں ،كیونكہ اس میں روزی كمانے میں تعاون ہے ، اور لوگوں كی ضروریات كی تكمیل ہوتی ہے ، اور اس سے عدل و مفاد حاصل ہوتا ہے ۔
1-یہ مال میں اضافہ كے لئے ، اور مزدوروں كو كام فراہم كرنے كے لئے ، اور امت كے فائدے كے لئے ، روزی میں كشادگی كے لئے ، اور عدل كے حصول كے لئے سب سے بہتر ذریعہ ہے ،
2- حرام كمائی سے بے نیازی ؛ جیسے سود ، جوا وغیرہ
3- كمائی كے حلال طریقوں كا دائرہ وسیع كرنا؛اسلام نے آدمی كے لئے تنہا كمائی كو جائز كیا یا غیر كے ساتھ شراكت كے ذریعہ بھی ۔