موجودہ قسم مسلم خاتون
سبق: عورت اور دور حاضر كی دعوتیں
قدیم زمانے میں اور عموما قدیم تہذیبوں میں خواتین كو كسی بھی باعزت انسانی نظریے كے ساتھ كوئی مراعات حاصل نہیں تھیں ، وہ ایك بے قیمت چیز تھی جس كا كوئی حساب نہیں كیا جاتا تھا ، بلكہ اس كے لئے كوئی حقوق یا اہلیت نہ تھی ،اور وہ كسی انسانی وقار كا خیال كئے بغیر بیچی اور خریدی جاتی تھی ، اور اسے مرد سے كمتر درجہ میں خیال كیا جاتاتھا۔
اور یہی نقطہ نظر كچھ عرصہ پہلے تك مختلف كلچر س اور تہذیبوں میں عورتوں كی شان كو كمتر دكھاتا رہا ، اور اس كے باوجود مثال كے طور پر مغربی دنیا ، اس كے بعد سلطنتوں كے جبر اور كنییسہ كے استبداد سے تبدیلی كے مرحلے كا آغاز ہوا ، مگراس تبدیلی كا بھی خواتین اور ان كے مسائل تك بڑی دیر سے رسائی ہو سكی ۔
اور خواتین كے متعلق ان كے اس مسخ شدہ سوچ كی دو بنیادی پہلؤوں سے تائیید ہوتی ہے :
قدیم صدیوں میں فلاسفہ عورت كو حقیر سمجھتے تھے ، اور وقار كو كمتر سمجھتے تھے ، اور اس كے لئے كوئی مرتبہ اور حقوق نہیں مانتے تھے ، اور انہیں فلسفیوں میں سے سقراط ، افلاطون اور ارسطو ہیں ۔
ہندو مذہب میں عورت كا اپنے والد كی جائداد میں كوئی حق نہ تھا ، اور جب شوہر مر جاتا تو اسی كے ساتھ اس كا بھی جلنا(ستی ہونا) واجب تھا ،اس لئے كہ شوہر كے مرنے كے بعد اس كا جینا بہتر نہیں تھا ، رہی بات یہود و نصاری كی تو عورت كا مقام ان كے یہاں پست تھا ، اور اس پر یا اتہام تہا كہ یہی برائی ، فجور اور گناہوں كی جڑ ہے ، اور وہ نجس و ناپاك سمجھی جاتی تھی ، اور ان كی یہ نظریات ان كی محرف كتابوں سے ماخوذ تھیں ،اور یہ ان كی دینی كانفرنسوں سے نكلتی تھیں ، اور پادریوں اور چرچ كی اتھارٹی سے تائیید شدہ تھیں ۔
دور حاضر میں اعتفادات و افكارو نظریات كا ایك ایسا گروپ نمودار ہوا جس نے خواتین سے جڑے بہت سی سوسائیٹیوں اور ان كے افكار و تصورات پر اثر ڈالی ہے اور برابر وہ اثر انداز ہوتا جارہا ہے ۔
1- جدت اور جو جدت كے بعد ہے ۔
جدت انسان كو كائنات كا منبع نظر بناتی ہے ،اور وحی سے اس كی آزادی كا فیصلہ كرتی ہے ،جبكہ وہ اپنی دانشمندی كی روشنی میں اپنے نفس اور ماحول اور كائنات كی وضاحت پیش كرنے پر بھر پور قدرت ركھتا ہے ، اور بیشتر افكار و تصورات اور تجزیات اسی جدییت سے پھوٹ كر باہر آئی ہے ۔
2-عقلانیت
یہ عقل اور اس كے معیار كی بلندی ہے ؛انسان كو كائنات كا مركز اعتبار كرنے كی بنیاد پر۔
3-آزادی اور انفرادیت
اس كا مطلب یہ ہے كہ انسانی حق پر اس طرح زور دیا جائے كہ وہ اپنے شہری معاملات كے قسمت كا فیصلہ اس شكل پر كرے جسے وہ اپںے لئے مناسب سمجھتا ہے ،
یہ وہی نظریہ ہے جو انسان كے لاكھوں برسوں سے گذر كر آج تك كی ہیئت پراس كے اصل اور اس كی ترقی كے متعلق گفتگو كرتا ہے ۔
5-عورت كی آزادی
یورپ میں عورت كی آزادی كا نظریہ اس وقت منظر عام پر آیا جبكہ وہ طرح طرح كی ظلم و انصافی كا شكار تھی ، اس كے بعد آزادی كا نعرہ بلند كیا گیا اور فرسودہ وراثت سے آزادی سے آزادی كی آواز بلند كی گئی ، اور وہاں عورت نے متعدد انسانی ، معاشرتی ، سیاسی اور اقتصادی حقوق حاصل كئے ، تاہم مطالبات كو منظم كرنے والا كوئی دینی یا اخلاقی ضابطہ نہیں تھا ، اس لئے ان كے یہ نعرے دین و اقدار سے آزادی كی طرف پلٹ گئے ، نہ كہ ظلم و نا انصافی سے آزاردی ، اور اس كے اوپر مردوں یا والدین كے اقتدار سے آزادی كے دعوی كی ملمع سازی كردی گئی ،
سیكولرازم اور عورت كی آزادی
وہ بعض نظریات اور نعرے جو عورت كی آزادی كے مفہوم سے جڑے ہیں :دین كو تمام زندگی كے شعبوں سے جدا كرنا ،اور سیكولرازم كو نظام زندگی جیسے لاگو كرنا ،اور یہ تصورسیكولرازم سے جڑا ہوا ہے اور اسے ہر اس چیز سے آزاد كرنے كا مطالبہ كرتا ہے جو اس كی خواہشات كے لئے روكاوٹ بنتی ہیں بالخصوص ضوابط اور دینی تعلیمات ۔
اس كا مطلب ہے شعبہ حیات سے جڑی تمام چیزوں كو دین الگ كرنا ، اور زندگی كے مختلف شعبہ جات میں آدمی كی دوڑ انسانی پیشوں كے لئے ایك بنیادی مفہوم جیسے ہو ؛سیاست ، اقتصاد ، معاشرت وغیرہ ۔
7-دو جنس كے درمیان برابری
عورت اور مرد كے درمیان حق تعلیم ، عمل اور مدنی و سیاسی وغیرہ كے مساوات كی بیناد پر یہ نعرہ بلند كیا جاتا ہے ، اور عورت كے خلاف تمییز كی تمام شكلوں كو ختم كرنے كی بنیاد پر یہ آواز اٹھائی جاتی ہے ، تاہم حقوق میں مساوات كے تمام مطالبات اپنی بنیادی تناظر و موضوع سے ہٹے ہوتے ہیں ، تاكہ فرق و اختلافات كی تمام رعایتیں مرد و عورت كے درمیان سے مٹ جائیں ، تو ان كا یہ نعرہ صرف دو مختلف جنسوں كے درمیان برابر كا رہ گیا ۔
عورت كی آزدی كی اور دو جنسوں میں مساوات كی دعوت دینے والی فكركو نسوانی فكر (فیمنسٹ سوچ) كہتے ہیں ، اور اسی فكر و نظریہ كے نتیجے میں بہت سی تحریكیں ابھری ہیں جو فكری و سیاسی اور اجتماعی سرگرمیوں كو انجام دیتی ہیں ، اور اسی دوران اس فیمسٹ سوچ نے اپنی مختلف سرگرمیوں كی روشنی میں معاشرے میں متعدد افكار و عمل پیوست كرنے میں كو شاں رہیں ۔
نسائی فكر كے مبادی و اصول
CEDAW كا معاہدہ (كنونشن )
حقوق نسواں كی تنظیمیں اور نسائی تنظیموں نے سیاسی مدد حاصل كرنے كے لئے بڑی كوشش كی ہیں ، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1979 ء میں خواتین کے خلاف ہر قسم کے امتیازی سلوک کو ختم کرنے کے لیے منظور کیے گئے بین الاقوامی معاہدے کی ممالک کی توثیق کے ذریعے، جو کہ CEDAW كے معاہدے كے نام سے مشہور ہے ۔
CEDAW كے معاہدہ (كنونشن )كا جوہری بنود
یہ معاہدہ مطلق مساوات اور تمام شعبوں سیاسی ، اقتصادی ، معاشرتی ، كھیل اور قانونی وغیرہ میں مردو عورت كے درمیان برابری پر مبنی ہوگا؛اور یہ مبدا , اصول درستگی كے دوسرے سمت پر ہے ۔اور آسمانی شریعتوں كے مخالف ہے ، اور یہ كتاب و سنت اور جسے عقل سلیم نے عمدہ قرار دیا ہے اسے كے ظاہر سے ٹكراؤ ہے ، اور اس كے مخالف ہے جسے كہ درست و صحیح جبلت نے ثابت كیا ہے ، رہی بات اس كی قرآن سے مخالفت كی تو اللہ سبحانہ تعالی كا یہ فرمان ہے : {وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنْثَى} [آل عمران: 36]( اور لڑکا لڑکی جیسا نہیں ) اور اللہ كے اس فرمان كی وجہ سے بھی : {الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ} [النساء: 34]( مرد عورتوں پر نگران ہیں)اور اللہ عزوجل كے اس فرمان كی وجہ سے بھی : {وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ} [البقرة: 228]( ہاں مردوں کو عورتوں پر فضلیت ہے)، اور اس كے سنت كے مخالف ہونے كی بات تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے اس فرمان كی وجہ سے ہے : «كلكم راع، وكلكم مسؤول عن رعيته... والرجل راع في أهله وهو مسؤول عن رعيته، والمرأة راعية في بيت زوجها ومسؤولة عن رعيتها» (البخاري 893، ومسلم 1829).( تم میں سے ہر ایک نگراں ہے اور اس کے ماتحتوں کے متعلق اس سے سوال ہو گا۔ انسان اپنے گھر کا نگراں ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگراں ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا)،اور رہی بات اس كا ٹكراؤ اس سے جو افہام و اذہان میں بیٹھ چكا ہے ، جس كی زیادہ وضاحت كی ضرورت ہی نہیں ، كیونكہ یہ بات واضح ہے كہ جسمانی و نفسیاتی بناوٹ میں اختلاف یہ زندگی كی صلاحیتوں اور افعال میں فرق كا لازمی سبب بنتا ہے ، اس لئے برابری اور ہماہنگی كا حصول مرد و عورت كی اصل تخلیق كے مخالف ہے ۔
سیداؤ اور مرد و عورت كے دمیان دشمنی
CEDAW كا تصوراور حقوق نسواں کی تحریکیں مردوں اور عورتوں کے درمیان تعلق کو مسابقت اور تاریخی تنازعات کے رشتے کے طور پر پیش کرتی ہیں جس كے لئے وہ حدود متعین كرنا چاہتے ہیں ،اور اس كا راستہ فقط مرد و عورت كے درمیان مكمل مساوات كا ہے ،اس زعم كے ساتھ كہمرد کے لیے کوئی بھی اضافی خصوصیت عورت کی قیمت پرہوگی اور یہ ایک تنگ نظری ہے،اس لئے مرد اور عورت کا رشتہ ایک تکمیلی اور تعاون کا ہے، مسابقت اور دشمنی كا نہیں ، اور دونوں میں سےہر ایك كا اپنا كردار اور عمل ہے ، ہم آہنگی اور تکمیل کے ساتھ۔ زندگی کو مالا مال کرنے کے لیے اور واقفیت، پیار اور شفقت حاصل کرنے کے لیے، اور نوع کو محفوظ رکھنے کے لیے، جیسا كہ اللہ تعالی كا ارشاد ہے : {يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِير} [الحجرات: 13]( اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک (ہی) مرد وعورت سے پیدا کیا ہے اور اس لئے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو کنبے اور قبیلے بنا دیئے ہیں، اللہ کے نزدیک تم سب میں باعزت وه ہے جو سب سے زیاده ڈرنے واﻻ ہے۔ یقین مانو کہ اللہ دانا اور باخبر ہے)ایك دوسری جگہ اللہ نے فرمایا: {وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ} [الروم: 21]،(] اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے آرام پاؤ اس نے تمہارے درمیان محبت اور ہمدردی قائم کر دی، یقیناً غور وفکر کرنے والوں کے لئے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں)، اس كے بعد زندگی كے مختلف ادوار حقوق و اجبات میں بھي بلاظلم و تعصب انفرادیت كے تقاضا كرتے ہیں ، اس لئے كہ ہر اضافی ذمہ داری كا اپنے مقابلے میں اضافی حق ہے ، اور یہی عین عدل ہے ۔
كیا شریعت مردوں اور عورتوں كے درمیان مساوات و برابری كی دعوت دیتی ہے ؟
شریعت انسانی اصل اور اخلاقی وقار کے لحاظ سے عورتوں کی مردوں کے ساتھ برابری کو قائم کرتی ہے۔اور ایسے ہی ذمہ داری نبھانے میں ، امانت كا بوجھ اٹھانے میں ، اور دنیاوی و اخروی بدلے میں ، اور ان دونوں میں سے ہر ایك اپنے حقوق كے مطالبے میں ، شغائر كو قائم كرنے میں ، شریعت كو احكام تسلیم كرنے میں، اور بلندی اخلاق میں شریعت برابری طے كرتی ہے ، پھر شریعت ان دونوں كے درمیان ان كے جسمانی و نفسیاتی بناوٹ كے فرق كو دیكھتے ہوئے مثبت تمییز مقرر كرتی ہے ،اس لئے عورت كے ڈھانچے كی كمزوری كی وجہ سے اس سے جہاد كا مطالبہ نہیں كیا گیا ، اور وہ اپنے حیض و نفاس كے ایام میں نہ نماز پرھے گی اور نہ ہی وہ روزے ركھے گی ، اور نہ یہ اس كو گھر كے خرچے پر مجبور كیا جائے گا گرچہ و ہ مالدار ہی كیوں نہ ہو ، جبكہ اس كے برعكس شریعت نے مرد پر جہاد فرض كیا ہے ، اور عورت اور ان دونوں كے بیٹوں بر نان و نفقہ كو ایسا واجب قرار دیاہے كہ اس كے انكار كی صورت یا كوتاہی كی صورت میں اسے سزا دی جائے گی ، اور اس كےلئے ان اضافی فرائض كے مقابل میں اضافی حقوق بنائے گئے ہیں ، اور یہ عین عدل ہے ۔
میراث میں شریعت كا عدل
اسلامی قانون میں عورت كے لئے میرث میں كوئی ظلم نہیں پایا جاتا ، اس طرح سے كہ وہ كبھی مرد كے حصے سے تھوڑا پاتی ہے ، اور كبھی مرد كے حصے جیسا پاتی ہے ، اور كبھی مرد كے حصے سے زیادہ بھی پاتی ہے ، اور كبھی ایسا بھی ہوتا ہے كہ وہ وارث ہوتی ہے اور مرد وارث ہی نہیں ہوتا ، اور یہ تمام اس حكمت كی وجہ سے ہے جسے اللہ جانتا ہے ، اور اس كی وضاحت اہل علم كی كتابوں میں مذكور ہے ۔
عورت كے لئے شریعت كے احترام كی بعض شكلیں
اسلامی شریعت میں عورت كو تحفظ اور عزت حاصل ہے ، جیسا كہ اللہ تعالی فرماتا ہے : {مَنْ عَمِلَ سَيِّئَةً فَلَا يُجْزَى إِلَّا مِثْلَهَا وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ يُرْزَقُونَ فِيهَا بِغَيْرِ حِسَابٍ} [غافر: 40]،(جس نے گناه کیا ہے اسے تو برابر برابر کا بدلہ ہی ہے اور جس نے نیکی کی ہے خواه وه مرد ہو یا عورت اور وه ایمان واﻻ ہو تو یہ لوگ جنت میں جائیں گے اور وہاں بےشمار روزی پائیں گے)اور نبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : «إِنَّ النِّسَاءَ شَقَائِقُ الرِّجَالِ» (الترمذي 113)(عورتیں بھی (شرعی احکام میں) مردوں ہی کی طرح ہیں)اور عورت كے ولی (باپ یا خاوند)پر اس كا گھر اور نان و نفقہ لازم ہے ، اور اسے ایك دینار بھی خرچ كرنے پر مكلف نہیں بنایا جاسكتا وہ جس قدر بھی مالدار ہو ، مگر اس كی اپنی خوش دلی سے ، اوروہ اپنی مالی اہلیت میں بالكل مرد جیسی ہے ، اور اس پر كسی كو مالی ولایت حاصل نیہں چاہے وہ اس كا باپ یا شوہر ہی كیوں نہ ہو ، اور عورت كو بیع و شراء ، كرایہ دای ، شراكت ، رہن ، تقسیم ، اقرار، كفالہ اور صلح میں حق تصرف حاصل ہے ، اور ایسے ہی اسے تمام معاہدوں اور التزامات میں بھی پورا حق تصرف ہے ۔