موجودہ قسم مسلم فیملی (مسلم خاندان )
سبق: اولاد كے حقوق
اللہ تعالیٰ نے باپ اور ماؤں کے دلوں كو حصول ذریت كی آرزو پر پیدا كیا ،اوریہ كہ وہ اولاد صحت مند اور تندرست ہوں ، اور یہی آرزو ہمارے باپ آدم اور ان كی بیوی علیہما السلام كی تھی ، جیسا كہ اللہ تعالی ارشاد ہے : {هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا فَلَمَّا تَغَشَّاهَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيفًا فَمَرَّتْ بِهِ فَلَمَّا أَثْقَلَتْ دَعَوَا اللَّهَ رَبَّهُمَا لَئِنْ آتَيْتَنَا صَالِحًا لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ} [الأعراف: 189]،(وه اللہ تعالیٰ ایسا ہے جس نے تم کو ایک تن واحد سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ وه اس اپنے جوڑے سے انس حاصل کرے پھر جب میاں نے بیوی سے قربت کی تو اس کو حمل ره گیا ہلکا سا۔ سو وه اس کو لئے ہوئے چلتی پھرتی رہی، پھر جب وه بوجھل ہوگئی تو دونوں میاں بیوی اللہ سے جو ان کا مالک ہے دعا کرنے لگے کہ اگر تو نے ہم کو صحیح سالم اوﻻد دے دی تو ہم خوب شکر گزاری کریں گے)، اور اس آرزو كا حصول محض اللہ عزوجل كی جانب سے فضل و احسان ہے جو برابر اس پر اللہ كے شكریے كا مطالبہ كررہا ہے ۔
ذریت اور اس جڑے معاملے كو اسلام نے بڑی اہمیت دی ہے ،ور آسمانوں اور زمین پر اللہ کی حاکمیت کے بارے میں بات کرنے کے بعد اولاد اور اولاد کی نعمت کے بارے میں قرآن کریم میں جو الفاظ ہیں اس کی طرف اشارہ كرتے ہیں ، اللہ تعالی نے فرمایا: {لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ الذُّكُورَ (49) أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا وَيَجْعَلُ مَنْ يَشَاءُ عَقِيمًا إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌ} [الشورى: 49، 50]( آسمانوں کی اور زمین کی سلطنت اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے، وه جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جس کو چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے [49] یا انہیں جمع کردیتا ہے بیٹے بھی اور بیٹیاں بھی اور جسے چاہے بانجھ کر دیتا ہے، وه بڑے علم واﻻ اور کامل قدرت واﻻ ہے)اور اللہ تعالی نے ذریت كو دنیاوی زندگی كی زینت میں شمار كیا ہے ،اللہ تعالی نےفرمایا: {الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا} [الكهف: 46].( مال اور بیٹے دنیا کی زندگی کی زینت ہیں)۔
شریعت نے اولاد اور ان كی تربیت كو بڑی اہمیت دی ہے ، وہ مستقبل كے ستون ہیں ، اور ان كی درستگي سے زمین پراللہ عزوجل كی پندگي جاری و ساری رہے گی ،اور اس كی تعمیر نو اسی شكل میں ہوتی رہے گی جس سے اللہ عزوجل راضی ہوتا ہے ، اللہ سبحانہ تعالی نے فرمایا : {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ} [التحريم: 6]( اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر)۔اور علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا، یعنی انہیں علم و ادب سكھاؤ ،اور نبی كریم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: «من عال جاريتين حتى تبلغا، جاء يوم القيامة أنا وهو» وضم أصابعه. (مسلم 2631).(جو شخص دو لڑکیوں کو پالے ان کے جوان ہونے تک قیامت کے دن، میں اور وہ اس طرح سے آئیں گے۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیوں کو ملایا )۔
والدین پر اولاد كے حقوق
یہ حقوق رہائش ،كھانے و پینے اور لباس ، اور صحت كی دیكھ بھال جیسی چیزوں كو فراہم كرنے كو شامل ہے ، اور اولاد پر خرچ كرنا شریعت كے حكم كے مطابق ہے ، اور ان حقوق كی ادائیگی والد كی طاقت كی حالت كے پیش نظر واجب ہے ،۔
اولاد كی وہ عظیم معنوی حقوق جو والدین پر واجب ہے ؛ان كی صالح نشو نما كرنا جو دین كے صحیح اساس پر قائم ہو ، انہیں قرآن كریم اور صحیح سنت نبی اور سیرت رسول كی تعلیم دی جائے ،اور ان كی تربیت اسلامی تعلیمات پر كی جائے ، انہیں اللہ كے حكم كردہ كاموں كو بجا لانے اور اس كے منع كردہ چیزوں كو چھوڑنے كی تعلیم دی جائے ۔اور تمام امور میں اخلاق حسنہ كی پابندی كی جائے ،اور یہ تمام چیزیں اللہ كی عظمت اور اس كی محبت اور اللہ كے نبی كی اور اس كے دین و شریعت كی محبت كے سایے تلے عمل میں لائے جائیں ۔
اولاد پر شفقت كے برتاؤ سے ان كی پرورش اور ان كے خیالات كو كھولنے پر بہت موثر ہوتا ہے ، بشرطیکہ یہ ضرورت سے زیادہ لاڈ پیار کا باعث نہ بنے جس سے زندگی میں ان کے سنجیدہ طرز عمل پر اثر پڑے، بچوں کے ساتھ رحم و کرم کا فقدان، ان کے ساتھ سنگ دلی اور سختی سے پیش آنا، یا والدین کی طرف سے ان کو بے پروا کرنا، ان کی روحوں کو تاریک کرنے، ان کے ذہنوں میں عقل کے شعلے کو بجھا دینے، اور انہیں نافرمانی اور بغاوت کی طرف مائل کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ اور بسا اوقات یہ گمراہی اور بدعنوانی كا پیش خیمہ بن سكتا ہے ۔
بعض معوی حقوق ؛ احترام اور چین و سكون ، اور خاندان میں محبت كی فضا ہموار كرنا ،اور والدین یا بڑے بھائیوں كے درمیان كی لڑائی غالب نہ آئے كہ اس كی وجہ سے بچوں كے طور طریقوں كو متاثر كردے ، اور انہیں تناؤ و دشمنی و دلی نفرت كی فضا میں ڈھكیل دے ۔
چند معنوی حقوق :والدین كا اپنی اولاد كے لئے نیك صحبت فراہم كرنے كی كوشش كرنا ، اور انہیں برے چال و چلن والے لوگوں یا مذموم خصلتوں كے حامل لوگوں سے ملنے جلنے كی اجازت نہ دینا ، كیونكہ اس سے ان كے چال و چلن متاثر ہوں گے ، اور غیروں كے برے اخلاق كے جراثیم ان میں منتقل ہوں گے ۔
ماؤں اور باپوں كے لئے ضروری ہے كہ وہ اپنے بیٹوں اور بیٹیوں كی حالات پر نظر ركھیں ، اور ان كے سلوك و برتاؤ اور تصرفات كی نگرانی كریں ، اور جب بھی ضرورت محسوس ہو تو ارشاد و توجیہ اور نصیحت كے ساتھ مداخلت كریں ، لیكن یہ حد اعتدال سے باہر نہ جائے ، اور یہ بھی ضروری نہیں ہے كہ تو جیہ و تعلیق مسلسل اور پے در پے ہو ، اور نہ ہی ہر چھوٹے و بڑے پر ہو ، كیونكہ خاموش كرنے سے یا نصیحت كے اس عمل سے بچہ تھكاوٹ اور سستی كا شكار ہو جائے گا۔اس لئے ہر ماں و باپ كے لئے یہ ضروری ہے كہ وہ نصیجت اور مشورہ كے لئے مناسب اوقات اور اسلوب كا انتخاب كریں ۔
والدین پر اولاد كے حقوق
نیك شوہر اور نیك بیوی كے انتخاب كا حق ۔
مرد كو یہ حق حاصل ہے كہ وہ اس عورت كو منتخب كرے جو اس كے خیال میں نیك ماں بن سكتی ہے ۔اور عورت كو یہ حق حاصل ہے كہ وہ اس مرد كو منتخب كرے جو اس كے خیال میں نیك باپ بن سكتا ہے ۔
اولاد كا وجود اور زندگي كاحق ۔
اولاد كانسب كا حق ۔
وہ باپ كی جانب بچے كے منسوب كا حق ، اس لئے كہ اولاد سے جڑے تمام مادی و معنوی حقوق اسی حق سے مربوط و منسلك ہیں ،اس لئے یہ كسی آدمی كو یہ حق حاصل نیہں كہ وہ بچے سے براءت كرلے یا اپںی طرف اس كی نسبت كا انكار كردے ۔ مگر ایسی دلیل سے جس میں شك كی كوئی گنجائش نہ ہو ۔
فطری دودھ پلانے كا اولاد كاحق ۔
جدید سائنس نے اس دودھ پلانے کے بہت سے طبی ، نفسیاتی اور سماجی فوائد کو ثابت کیا ہے، اس لئے یہ بچے کی ضرورت اور قوت مدافعت، اور اس کی اچھی نفسیاتی اور ذہنی تشکیل کے لیے سب سے موزوں اور مکمل ہے، جو مستقبل میں ذہانت اور رویے پر اثر انداز ہوتا ہے، اور حالات و احساسات کے ساتھ اچھا تال میل اور محفوظ ہوتا ہے ۔
عمدہ نام كا اولاد كا حق
وہ ثانوی درجہ كا حق نہیں ، بلكہ یہ ان بنیادی فرائض میں سے ہے جس كی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ كرام رضی اللہ عنہم كو ترغیب دی ہے ، جیسا كہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں برے معانی والے ناموں سے بچنے كا حكم دیتے تھے ،اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كی اچھے ناموں كے لئے حرص اس درجہ تك پہنچ گئی كہ آپ نے بعض صحابہ كے اسلام میئں داخل ہونے كے بعد ان كے ناموں كو تبدیل كردیا ، كیونكہ اس كے شخصیات اور چال و چلن پر اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔
عقیقہ كا اولاد كا حق
عقیقہ كہتے ہیں اللہ كے شكریہ كے نام پر -نیت اور مخصوص شرط كے ساتھ - بچے كی جانب سے ذبح كیا جائے ۔جیسا كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «كل غلام رهينة بعقيقته، تذبح عنه يوم سابعه، ويُحلق ويُسمَّى» (أبو داود 2838)(صحیح)،(ہر لڑکا اپنے عقیقہ کے بدلے گروی ہے، ساتویں روز اس کی طرف سے ذبح کیا جائے، اس کا سر منڈایا جائے اور اس کا نام رکھا جائے)اور ایك حدیث مین اللہ كے رسول نے یوں فرمایا : «عن الغلام شاتان مكافئتان، وعن الجارية شاة» (أبو داود 2834)(صحیح).((عقیقہ) میں لڑکے کی طرف سے دو بکریاں برابر کی ہیں، اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ہے)۔
اولاد کا منصفانہ سلوک کا حق
مادی اور نفسیاتی برتاؤ میں چاہے لڑكا ہو یا لڑكی دونوں كا درمیان كوئی فرق نہیں كیا جائے گا ، جیسا كہ نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: تصدَّق عليَّ أبي ببعض ماله، فقالت أمي عمرة بنت رواحة: لا أرضى حتى تُشهِدَ رسولَ الله صلى الله عليه وسلم، فانطلق أبي إلى النبي صلى الله عليه وسلم ليُشهدَه على صدقتي، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أفعلت هذا بولدك كلهم؟» قال: لا. قال: «اتقوا الله، واعدلوا في أولادكم»، فرجع أبي، فردَّ تلك الصدقة. (البخاري 2587، ومسلم 1623).(میرے باپ نے کچھ مال اپنا مجھے ہبہ کیا۔ میری ماں عمرہ بنت رواحہ رضی اللہ عنہا بولی: میں جب خوش ہوں گی تو اس پر گواہ کر دے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو۔ میرا باپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا تو نے اپنی سب اولاد کو ایسا ہی دیا ہے؟“ اس نے کہا: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ سے ڈرو اوراپنے مال میں انصاف کرو ۔“ پھر میرے باپ نے وہ ہبہ پھیر لیا)۔
اولاد كا دعا كا حق اور ان پر بد دعا نہ كرنے كا حق ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «ثلاث دعوات يستجاب لهن، لا شك فيهن: دعوة المظلوم، ودعوة المسافر، ودعوة الوالد لولده» (ابن ماجه 3862)(حسن)، (تین دعائیں ہیں جن کی قبولیت میں کوئی شک نہیں: مظلوم کی دعا، مسافر کی دعا، والد (اور والدہ) کی دعا اپنی اولاد کے حق میں)اور ایك حدیث میں اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لا تدعوا على أنفسكم، ولا تدعوا على أولادكم، ولا تدعوا على أموالكم، لا توافقوا من الله ساعةً يُسأل فيها عطاءً، فيستجيب لكم» (مسلم 3009).( مت بددعا کرو اپنی جانوں کے لیے اور مت بددعا کرو اپنی اولاد کے لیے اور مت بددعا کرو اپنے مالوں کے لیے۔ ایسا نہ ہو یہ بددعا اس ساعت میں نکلے جب اللہ سے کچھ مانگا جاتا ہے اور وہ قبول کرتا ہے۔“ (تو تمہاری بددعا بھی قبول ہو جائے اور تم پر آفت آئے)۔