تعلیم كو فالو اپ كریں

اب تك آپ نے انڑی كے لئے رجسٹریشن نہیں كیا
اپنی ترقی كے فالواپ كے لئے اور پوائنٹس اكٹھا كرنے كے لئے ،اور مسابقے میں شركت كے لئے منصہ تاء میں فورا رجسٹریشن كریں ،رجسٹرد ہونے كے بعد جن موضوعات كی آپ تعلیم حاصل كررہے ہیں آپ اس كی الكڑانك سرٹیفیكیٹ حاصل كریں گے

موجودہ قسم مسلم خاتون

سبق: مسلم عورت كی طہارت

اس درس میں ہم مسلمان عورت كی طہارت كے متعلق احكام كے بارے میں جانكاری حاصل كریں گے ،

  • عورت كے اپنے مخصوص احكام سیكھنے كے حكم كا بیان ۔
  • جنابت ، حیض اور نفاس  كی تعریف ، اور اس سے متعلق بعض احكام ۔
  • بعض ان احكام كا بیان جو كہ حیض و نفاس كے خون كے علاوہ عورت سے نكلتا ہے ،

شریعت نیے مسلم خاتون پر اپنی ضرورت كی چیزوں كے سیكھنے كو واجب قرار دیا ہے یعنی اس كے اپنے مخصوص طہارت كے احكام ۔ جیسے حیض ، استحاضہ (بیماری كا خون) اور نفاس ۔

ایسے امور جن كی جانكاری اور اس پر عمل كرنا عورت پر واجب ہے ۔

١
غسل جنابت
٢
حیض ختم ہونے پر غسل كرنا۔
٣
نفاس ختم ہونے پر غسل كرنا۔

جنابت كا غسل

جنابت كا لغوی معنی دوری ہے ، اور شریعت میں جنب اس كو كہتے ہیں جس نے منی نكالی ہو یا مجامعت كی ہو ، اور اس كا اطلاق مردو عورت دونوں پر ہوتا ہے ، اور اس كا نام جنب اس لئے ركھا گیا كیونكہ پاك ہونے تك اسے نماز كی جگہوں كے قریب جانے سے اسے روكا گیا ہے ، اور جنابت كا غسل واجب ہے ، اللہ تعالی كے اس قول كی وجہ سے: {وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوا} [المائدة: 6].(اور اگر جنبی ہو تو غسل کر لو)

حیض كا خون منقطع ہونے كے وقت غسل كرنا

مسلمان عورت پر حیض كے خون منقطع ہونے پر غسل كرنا واجب ہے، جیسا كہ اللہ تعالی كا فرمان ہے : {وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ} [البقرة: 222]( آپ سے حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں، کہہ دیجیئے کہ وه گندگی ہے، حالت حیض میں عورتوں سے الگ رہو اور جب تک وه پاک نہ ہوجائیں ان کے قریب نہ جاؤ، ہاں جب وه پاک ہوجائیں تو ان کے پاس جاؤ جہاں سے اللہ نے تمہیں اجازت دی ہے، اللہ توبہ کرنے والوں کو اور پاک رہنے والوں کو پسند فرماتا ہے) تو اللہ تعالی كا فرمان: (فإذا تطهرن)(جب وہ پاك ہو جائیں ) یعنی غسل كركے ۔

حیض اور استحاضہ

حیض: وہ خون جو عورت كے رحم (بچہ دانی ) سے ولادت اور مرض كے خون كے علاوہ نكلے ،اور استحاضہ وہ خون جو عورت كے رحم سے بہے جو اس كے حیض كے ایام (عادت كے اوقات )كے علاوہ بیماری یا كسی خرابی كی وجہ سے ہو ۔

حیض كی مدت عورتوں كے درمیان الگ الگ ہوتے ہیں ، اہل علم كے راجح اقوال كے مطابق حیض كے اقل مدت كی كوئی تحدید نہیں ، اور جمہور علماء كے نزدیك حیض كی اكثر مدت پندرہ دن ہے ، اگر اس سے بڑھ جائے تو وہ استحاضہ كا خون ہے نہ كی حیض كا خون ، اور عموما عورتوں كے احوال كے مطابق حیض كے ایام چھ یا سات دن ہوتے ہیں ۔

نفاس كے ختم ہونے كے وقت غسل كرنا۔

اہل علم كا اس بات پر اتفاق ہے كہ نفاس والی عورت كا نفاس ختم ہونے كے وقت اس پر غسل واجب ہے۔

نفاس كی تعریف

یہ وہ خون ہے جو رحم سے ولادت كے وقت یا اس سے دو تین دن پہلے جاری ہوتا ہے، علامت كے ساتھ -جیسے درد كا ہونا - اور یہ ولادت كے بعد مكمل چالیس دن تك جاری رہتا ہے ، رہی بات نفاس كی مدت تو اس كی اكثر مدت چالیس دن ہے ، اور اس كی كوئی اقل مدت كی حد نہیں ،اس لئے جب بھی عورت پاكی دیكھے تو وہ غسل كرے اورنماز پڑھے ۔

حیض و نفاس پر مرتب ہونے والے امور

١
وطی یعنی جماع كی حرمت
٢
طلاق كی حرمت
٣
نماز اور روزے كی حرمت
٤
كعبہ كے طواف كی حرمت
٥
مصحف چھونے كی حرمت
٦
مسجد میں ٹھہرنے كی حرمت

وطی (جماع ) كرنے كی حرمت

آدمی كا اپنی حائضہ بیوی سے جماع كرنا حرام ہوتا ہے ، جیسا كہ اللہ تعالی كا فرمان ہے : {وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ} [البقرة: 222]،( آپ سے حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں، کہہ دیجیئے کہ وه گندگی ہے، حالت حیض میں عورتوں سے الگ رہو اور جب تک وه پاک نہ ہوجائیں ان کے قریب نہ جاؤ، ہاں جب وه پاک ہوجائیں تو ان کے پاس جاؤ جہاں سے اللہ نے تمہیں اجازت دی ہے، اللہ توبہ کرنے والوں کو اور پاک رہنے والوں کو پسند فرماتا ہے ) اور اسی طرح نفاس والی عورت سے اہل علم كے اجماع كے مطابق وطی كرنا حرام ہے ۔

طلاق كی حرمت

جیسا كہ اللہ تعالی كا ارشاد ہے : {يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ} [الطلاق: 1].( اے نبی! جب تم عورتوں کو طلاق دو تو انھیں ان کی عدت کے وقت طلاق دو)اور اللہ تعالی كے اس فرمان (فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ)كا معنی ہے كہ عورت كو اس حالت میں طلاق نہ دے جب كہ وہ حائضہ ہو یا نفاس والی ہو ، یا وہ اس پاكی كی حالت می‍ں ہو جس میں اس نے اسے جماع كیا ہو اور اس كاحمل واضح نہ ہوا ہو ۔

نماز اور روزہ كی حرمت

اور اس وجہ سے بھی كہ اللہ كے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : «أليس إذا حاضت لم تصل ولم تصم، فذلك نقصان دينها» (البخاري 1951).(کیا جب عورت حائضہ ہوتی ہے تو نماز اور روزے نہیں چھوڑ دیتی؟ یہی اس کے دین کا نقصان ہے)۔

طواف كا حرام ہونا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كا عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرماناجس وقت كہ وہ حج میں حائضہ ہوئیں : «فإن ذلك شيء كتبه الله على بنات آدم، فافعلي ما يفعل الحاج، غير أن لا تطوفي بالبيت حتى تطهري» (البخاري 305، ومسلم 1211).(یہ چیز تو اللہ تعالیٰ نے آدم کی بیٹیوں کے لیے مقرر کر دی ہے۔ اس لیے تم جب تک پاک نہ ہو جاؤ طواف بیت اللہ کے علاوہ حاجیوں کی طرح تمام کام انجام دو)۔

مصحف چھونے كی حرمت

اور اللہ تعالی كے اس قول پرعمل كرتے ہوئے : {لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ} [الواقعة: 79](اسے کوئی ہاتھ نہیں لگاتا مگر جو بہت پاک کیے ہوئے ہیں)،اور راجح قول كے مطابق جس نے قرآن حفظ كیا اس كے لئے قرآن پڑھنا جائز ہے ، جنبی شخص كے برخلاف ، كیونكہ وہ اس وقت تك قرآن نہیں پڑھ سكتا جب تك كہ وہ غسل نہ كرلے،اور جب حائضہ عورت یا نفاس والی عورت كو كسی آیت كے مراجعہ كی ضرورت پڑجائے یا كسی غیر كو اس كی تعلیم دینے كی ضرورت ہوتو اس كے لئے كسی حائل كے ذریعہ جیسے دستانے یا اسی جیسی چیز پہن كر چھونا جائز ہے ۔

مسجد میں ٹھہرنے كی حرمت

جیسا كہ اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم كا فرمان ہے : «فإني لا أُحِلُّ المسجد لحائض ولا جنب» (أبو داود 232)( میں حائضہ اور جنبی کے لیے مسجد کو حلال نہیں سمجھتا)(ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کی سند میں جسرہ بنت دجاجہ لین الحدیث ہیں، لیکن حدیث کا معنی دیگر احادیث سے ثابت ہے) لیكن اس كا مسجد سے گذرنا یا كسی ضرورت كے پیش نظر مسجد میں داخل ہوسكتی ہے ، عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے فرمایا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: «ناوليني الخُمْرة [أي سجادة الصلاة] من المسجد»، قالت: فقلت: إني حائض، فقال: «إن حيضتك ليست في يدك» (مسلم 298).(مجھےمسجد سے جانماز اٹھا دیں ۔“ میں نے کہا: میں حائضہ ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حیض تیرے ہاتھ میں تو نہیں ہے)۔

حیض سےواجب ہونے والے امور

١
بلوغت
٢
مطلقہ كے لئے اسے شمار كرنا

بلوغت

بلوغت سے مكلف ہونا حاصل ہوتا ہے ، اور لڑكی كے بالغ ہونے كی حیض یقینی علامتوں میں سے ہے ۔

مطلقہ كے لئے اس كی عدت شمار كرنا

یعنی جسے حیض آتا ہےوہ مطلقہ كے حق میں تین حیض كی مدت پوری كرےگی ، جیسا كہ اللہ تعالی كا فرمان ہے: {وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ} [البقرة: 228].(طلاق والی عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھی)

عورت كے حیض سے پاكی پر دلالت كرنےوالی چیز

١
عورت كے رحم سے سفیددھاگےجیسا نكلنے والا پانی
٢
خون بند ہونا اور خشكی

سفید دھاگے كے مشابہ نكلنے والا پانی

ایسی چیز جو سفید دھاگے كے مشابہ ہو، جو عورت كی شرمگاہ سے اس كے حیض كے آخری دنوں میں نكلتا ہے ، اور وہ اس كے پاك ہونے كی علامت ہوتی ہے ۔

خون كا منقطع ہونا اور خشك ہونا

وہ یہ كہ عورت اپنی شرمگاہ كے اندر كپڑے كاایك ٹكڑا داخل كرے ،اور وہ بغیر خون لگے نكلے یا بھورے یا پیلے رنگ كے آلود ہوئے بغیر نكلے ۔

غسل كے فرائض

غسل كے دو فرض ہیں:پہلا نیت ، اور دوسرا سارے بال اور چمڑے كو دھونا ، اور بال كے جڑوں تك پانی پہنچانا واجب ہے، اس طور سے كہ وہ بال كے نیچے چمڑے تك پہوچ جائے ، بال چاہے ہلكا ہو یا گھنا ۔

عورت كے حیض و جنابت سے غسل كی كیفیت

‏‏‏‏ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اسماء (شکل کی بیٹی یا یزید بن سکن کی بیٹی) نے پوچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، حیض کا غسل کیسے کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پہلے پانی بیری کے پتوں کے ساتھ لے اور اس سے اچھی طرح پاکی کرے (یعنی حیض کا خون جو لگا ہوا ہو دھوئے اور صاف کرے) پھر سر پر پانی ڈالے اور خوب زور سے ملے یہاں تک کہ پانی مانگوں (بالوں کی جڑوں) میں پہنچ جائے۔ پھر اپنے اوپر پانی ڈالے (یعنی سارے بدن پر) پھر ایک پھاہا (روئی یا کپڑے کا) مشک لگا ہوا لے کر اس سے پاکی کرے۔“ اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا: کیسے پاکی کرے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سبحان اللہ پاکی کرے۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے چپکے سے کہہ دیا کہ خون کے مقام پر لگا دے پھر اس نے جنابت کے غسل کو پوچھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانی لے کر اچھی طرح طہارت کرے۔ پھر سر پر پانی ڈالے اور ملے یہاں تک کہ پانی سب مانگوں میں پہنچ جائے، پھر اپنے سارے بدن پر پانی ڈالے۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: انصار کی عورتیں بھی کیا عمدہ عورتیں تھیں۔ وہ دین کی بات پوچھنے میں شرم نہیں کرتی تھیں (اور یہی لازم ہے کیونکہ شرم، گناہ اور معصیت میں ہے اور دین کی بات پوچھنا ثواب اور اجر ہے)۔

ایسی كوئی بھی ركاوٹ جوجسم كے كسی حصے میں پانی پہنچنے سے روك دے تو وہ غسل كو فاسد كردےگا اور اسے غیر صحیح بنادےگا، جیسے عورت كا اس پالش كا استعمال كرنا جو ناخن تك پانی پہنچنے كے لئے ركاوٹ بنے ، یا كسی بھی ایسے روكنےوالےمادے كاپایا جانا جو كہ اس نیچے ہو ۔

پیلا اور بھورا

وہی ہے جو حیض كے پہلے یا اس كے بعد عورت كی شرمگاہ سے بعض رطوبتیں نكلتی ہیں،اگر وہ رطوبت حیض سے جڑی ہو تو وہ حیض ہی كا حصہ ہے ، تو اس وقت عورت پر نماز سے ركنا اور ان تمام چیزیں سے جو حیض كے سبب ركا جاتا ركنا واجب ہے ، لیكن اگر وہ زردی یا بھورا پن حیض سے الگ ہوكر آئے تو اس كا كوئی اثر نہ ہوگا ، جیسا كہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا كی حدیث میں ہے : «كنا لا نعد الكُدرة والصُّفرة بعد الطُّهر شيئاً» (البخاري 326، وأبو داود 307 واللفظ له).( ہم حیض سے پاک ہو جانے کے بعد زردی اور گدلے پن کو کچھ نہیں سمجھتے تھے)۔

كامیابی سے آپ نے درس مكمل كیا


امتحان شروع كریں