موجودہ قسم موسم سرما (ٹھنڈی )كے احكام
سبق: موسم سرما اور نماز و روزہ
جب موسم سرما میں سخت ٹھنڈی ہو تو دیكھا جائے گا:كہ اگر ٹھنڈی لوگوں كو نماز كے لئے نكلنے سے نییں روكتی ہے تو اذان اپنی حالت پے باقی رہے گی
اگر ٹھنڈی اتنی سخت ہو كہ عام لوگوں كا نكلنا دشوار ہو تو تو موذن اپنے اذان میں یوں كہے گا: "ألا صلوا في رحالكم" خبردار اپنے كجاوے (ٹھكانوں) میں نماز پڑھ لو ، یا موذن یوں كہے "الصلاة في الرحال" كجاوے (ٹھكانوں)میں نماز پڑھو ،یا یوں موذن كہے صلوا في بيوتكم اپنے گھروں میں نماز پڑھ لو، یعنی موذن لوگوں كو یہ بتائے كہ مسجد میں نماز پڑھنا چھوڑ دیں
نافع نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک سرد رات میں مقام ضجنان پر اذان دی پھر فرمایا «ألا صلوا في الرحال» کہ لوگو! اپنے اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھ لو اور ہمیں آپ نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مؤذن سے اذان کے لیے فرماتے اور یہ بھی فرماتے کہ مؤذن اذان کے بعد کہہ دے کہ لوگو! اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھ لو۔ یہ حکم سفر کی حالت میں یا سردی یا برسات کی راتوں میں تھا۔
موسم سرما میں لوگ آگ جلاتے ہیں ،اور بسا اوقات قبلہ رخ جلاتے ہیں ، اور افضل یہ ہے كہ آپ كے سمت نماز نہ پڑھی جائے ، مجوسیوں كی مشابہت سے دوری بناتے ہوئے كیونكہ وہ آگ كی پوجا كرتے ہیں، اور دوسری وجہ یہ ہے كہ آگ نمازی كو نماز سے غافل كردےگی ،اگر گرمی حاصل كرنے كے لئے آگ كی ضرورت ہو یا جگہ بدلنا مشكل ہو تو كوئی حرج كی بات نہیں
ایسی انگیٹھی جس میں نكلتے شعلے نہ ہوں ، اس طرف رخ كركے نماز ادا كرنے میں كوئی كراہت نہیں
دو نمازوں میں جمع كرنا
جمع بین الصلاتین ،اسطرح كہ آپ نماز ظہر پڑھیں اور اسے عصر كے ساتھ جمع كردیں ،یا نماز مغرب پڑھیں اور اسے عشاء كے ساتھ جمع كردیں ،بایں طور كہ دو نمازوں ایك نماز كے وقت میں ادا كرنا ،(چاہے وہ جمع تقدیم ہو یا جمع تاخیر،اوریہ اس وقت ہے جب جمع كرنے كے عذر پائیں جائیں
جمع كو جائز كرنے والے عذر جو بیشتر ٹھنڈ كے موسم میں ہوتے ہیں: وہ بارش ہے ،اوربعض علماء اس میں اضافہ كرتے ہیں : سخت ٹھنڈي والی ہوا یا شدید ترین ٹھنڈی ، برف جس سے راستے بند ہو جاتے ہیں،یا وہ كیچر راستے میں بھر جاتے ہیں
جمع كو جائز كرنے والے عذروں كا مقصود : ایسے دشوار كن حالات كا پیدا ہونا جس سے لوگوں كا بار بار نماز باجماعت ادا كرنے كے لئے مسجد نكلنے میں دشوار ہو،تب انہیں جمع كا حكم دیا جائے گا ،اس كے برخلاف ہے ایسی ہلكی بارش جولوگوں كو سیر و تفریح اور ان كی ضروریات پوری كرنے كے لئے نكلنے سے مانع نہ ہو
اصل یہ ہے كہ مسلمانوں پر نماز كو ان اوقات میں ادا كرنا واجب ہے ،اللہ كا ارشاد ہے: { فَإِذَا اطْمَأْنَنتُمْ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ ۚ إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا} [النساء:103]، (اور جب اطمینان پاؤ تو نماز قائم کرو! یقیناً نماز مومنوں پر مقرره وقتوں پر فرض ہے) اس وجہ سے جب تك جائز كرنے والے عذر كے پائے جانے كا ثبوت نہ تو جمع كرنا درست نہیں ہے ،عمر خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، وہ ابن عباس اور دیگر صحابہ سے روایت كرتے ہیں كہ بغیر عذر كے دو نمازوں كا جمع كرنا گناہ كبیرہ میں سے ہے
اور وہ جو باجماعت نماز نہیں پڑھتے - جیسے عورت ، بیمار ، اور جماعت میں كوتاہی كرنے والے _ تو ایسے لوگ جمع نہیں كریں گے ،كیونكہ انہیں جمع كی ضرورت ہی نہیں ہے ،اور نماز وقت پر ہی مطلوب ہے ،اور ایسے ہی دوسری نماز پڑھنے سے پہلے ہی اگر عذر ختم ہو جائے تو جمع نہیں كیا جائے گا
جمع كی حالت میں ایك مسلمان كے لئے ایك ہی اذان دینا كافی ہے ،اور ہر نماز كے لئے الگ الگ اقامت كہے،ان دونوں كے بعد سنن و رواتب پڑھے ، اور ان دونوں كےپھڑھنے كے بعد نماز كے اذكار پڑھے
جمع كےجائز كرنے والے عذر كے پائے جانے كے سلسلے میں بہت سے مساجد میں اختلاف برپا ہو جاتا ہے ،اصل میں ،امام ہی اس كا ذمہ دار ہے ، اگر اس پاس علم ہے تو اجتہاد كرے اور اہل علم سے مشورہ كرے ،اور اگر اس كا ظن غالب جمع كے جواز پر نہ ہوتو وہ جمع نہ كرے ،اور مسجد كے مصلیان پر تنازع نہ كرنا واجب ہے
بعض آثار میں آیا ہے :موسم سرما مومن كے لئے موسم بہار ہے ،اس كا دن چھوٹا ہوا تو روزہ ركھا، اس كی رات لمبی ہوئی تو قیام كیا ،(البيهقي في "السنن الكبرى" (8456)اس كا نام موسم بہار اس لئے ركھا گیا كہ مومن اس میں عبادت كے باغ میں چہل قدمی كرتاہے،اس لئے كہ ٹھنڈی میں دن كے چھوٹے ہونے كی وجہ سے بغیر بھوك و پیاس كی مشقت كے دن كے روزے ركھنے پر قادر ہوتا ہے ،اور اس كی راتوں میں رات دراز ہونے كی وجہ سے قیام اللیل كرنے پر قدرت ركھ پاتاہے ،اس طرح وہ نیند اور نماز دونوں كےجمع پرقادر ہو جاتا ہے
اور بعض آثار میں آیا ہے :ٹھنڈی كے موسم میں روزہ ٹھنڈ غنیمت ہے (مسند أحمد (18959, إسناده ضعيف) عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا:ٹھنڈی عابدوں كے لئے غنیمت ہے"الحلية" (1 /51).