موجودہ قسم ایمان
سبق: آخرت كے دن پرایمان
آخرت كے دن پر ایمان كا معنی
پختہ تصدیق كہ اللہ تعالی قبر سے لوگوں كو اٹھائے گا، پھر ان كا حساب لےگا ، اور ان كے عملوں كا انہیں بدلہ دے گا ،یہاں تك كہ جنتی اپنے گھروں میں بس جائیں گے ، اور جہنمی اپنے جہنم كے گھروں میں بس جائیں گے ،اور آخرت پرایمان لاناایمان كے اركان میں سے ایك ركن ہے،اس كے بغیر ایمان صحیح نہیں ہے ، جیسا كہ اللہ كا ارشاد ہے : (وَلَـكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ) (البقرة: 177).( حقیقتاً اچھا وه شخص ہے جو اللہ تعالی پر، قیامت کے دن پر،ایمان رکھنے واﻻ ہو)
آخرت كا دن كیا ہے ؟
یوم آخرت: وہ دن ہے جس میں سارے لوگ حساب اور بدلے كے لئے اٹھائے جائیں گے ، اور لوگ جینت میں یا آگ میں ٹھہر جائیں گے ،اور اس كا نام یوم آخر اس لئے ركھا گیا كیونكہ وہی آخری دن ہوگا اور اس كے بعد كوئی دن نہ ہوگا،اور اس كے بہت سارے نام ہیں جو كتاب و سنت میں آئے ہوئے ہیں ،اسے یوم القیامہ بھی كہتے ہیں ، كیونكہ اس دن بڑے بڑے معاملے قائم ہوں گے ، اور اس وجہ سے كہ لوگ رب العالمین كے سامنے كھڑے ہوںگے،اور اس كا ایك نام ساعہ ہے ، اور اسے یوم الفصل كا نام بھي دیا گیا ہے ، اور اس كا ایك نام یوم الدین بھی ہے ،ان كے علاوہ بھی اور بہت سارے نام ہیں
قرآن كریم نے یوم آخرت پرایمان كے لئے كیوں زیادہ زور دیا ہے ؟
قرآن كریم نے یوم آخرت پر ایمان پر زور دیا ہے ،اور اس كے متعلق ہر مناسبت سے آگاہ كیا ہے ،اور عربی میں مختلف اسلوبوں سے اس كےواقع ہونے كی تاكید كی ہے ،اور اس كی اہمیت كو بیان كرنے كے لئے بے شمار جگہوں پراس پرایمان كو اللہ پرایمان لانے سے جوڑا گیاہے ،اور اس لئے بھی كہ لوگ اس سے غافل نہ ہوجائیں ،اور ایمان و عمال صالح سے اس دن كی تیاری كرلیں
اور آخرت كے دن پر ایمان یہ اللہ پراور اس كے عدل پر ایمان كا لازمی نتیجہ ہے ، اور اس كی وضاحت یہ ہے :
اللہ نہ ظلم كا اقرار كرتا ہے اورنہ ہی ظالم كو بغیر سزا دئے چھوڑتا ہے،اور نہ ہی بغیر انصاف دئیے مظلوم كو اور نہ ہی كسی محسن كو بغیر ثواب و بدلہ دئے چھوڑتا ہے ،اور ہر حقدار كو اس كا حق دیتاہے ،جب كہ ہم اس دنیا كی زندگی میں دیكھتے ہیں كہ جو ظالم ہو كر زندگی گذارتا ہے وہ ظالم ہوكر مرتا ہے ، اور اسے كوئی سزا نہیں ملتی ،اور جو مظلوم ہوكرجیتا ہے ، اور بحالت مظلوم مرجاتا ہے اور اپنا حق حاصل نہیں كرپاتا ،تو اس كا كیا مطلب ہے كہ اللہ ظلم كو قبول نہیں كرتا ،؟ اس كا مطلب یہ ہے كہ جس زندگی میں ہم جی رہے ہیں ضروری ہے كہ ایك دوسری زندگی ہو جس میں ایك وقت مقرر ہو جس میں بھلائی كرنے والے كو بدلہ دیا جائے اور برے كو اس كی سزا ملے ، اور ہر حقدار اپنا حق حاصل كرسكے
قیامت كی نشانیاں
آخرت كے دن پرایمان لانا یہ قیامت اور اس كی نشانیوں پر ایمان لانے كا ایك جزء ہے،اور یہ قیامت كے دن سے پہلے رونما ہونے والے واقعات ہیں ،جو قرب قیامت كے لئے اشارہ ہیں ، اور قیامت اور اس كی نشانیاں دو قسموں میں بٹی ہوئی ہیں :
1-چھوٹی نشانیاں
یہ وہ نشانیاں ہیں جو الگ الگ وقت میں قیامت سے پہلے نمودار ہوں گی ،انہیں میں سے ننگے پاؤں والے ، ننگے بدہ والے، بكری چرانے والے اپنےبلند بالا عمارتوں میں فخر كریں گے وجیسا كہ حدیث جبریل علیہ السلام میں اس كا ذكر ہے: «قال فأخبرني عن الساعة. قال: ما المسؤول عنها بأعلم من السائل. قال: فأخبرني عن أمارتها، قال: أن تلد الأَمَةُ ربَّتَها، وأن ترى الحفاة العراة العالة رعاء الشاء يتطاولون في البنيان» (مسلم 8)(پھر وہ شخص بولا: بتائیے مجھ کو قیامت کب ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو جس سے پوچھتے ہو وہ خود پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔“ وہ شخص بولا تو مجھے اس کی نشانیاں بتلائیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک نشانی یہ ہے کہ لونڈی اپنی مالکہ کو جنے گی۔ دوسری نشانی یہ ہے کہ تو دیکھے گا ننگوں کو جن کے پاؤں میں جوتا نہ تھا، تن پہ کپڑا نہ تھا، کنگال بڑی بڑی عمارتیں ٹھونک رہے ہیں)
2-قیامت كی بڑی نشانیاں
یہ بڑے امور ہیں جو قیامت قائم ہونے كے قریب ظاہر ہوںگے ،اور یہ دس نشانیاں ہیں جیسا كہ حذیفہ بن اسید غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں آیا ہے ، فرماتے ہیں : «اطلع النبي صلى الله عليه وسلم علينا ونحن نتذاكر، فقال: ما تذاكرون؟ قالوا: نذكر الساعة. قال: إنها لن تقوم حتى ترون قبلها عشر آيات: فذكر الدخان والدجال، والدابة، وطلوع الشمس من مغربها، ونزول عيسى ابن مريم صلى الله عليه وسلم، ويأجوج ومأجوج، وثلاثة خسوف: خسف بالمشرق وخسف بالمغرب وخسف بجزيرة العرب، وآخر ذلك نار تخرج من اليمن تطرد الناس إلى محشرهم» (مسلم 2901).(قیامت نہیں قائم ہو گی جب تک دس نشانیاں اس سے پہلے نہیں دیکھ لو گے۔“ پھر ذکر کیا دھوئیں کا اور دجال کا اور زمین کے جانور کا اور آفتاب کے نکلنے کا پچھم سے اور سیدنا عیسٰی علیہ السلام کے اترنے کا اور یاجوج ماجوج کے نکلنے کا اور تین جگہ خسف ہونا یعنی زمین میں دھنسنا، ایک مشرق میں، دوسرے مغرب میں، تیسرے جزیرہ عرب میں اور ان سب نشانیوں کے بعد ایک آگ پیدا ہو گی جو لوگوں کو یمن سے نکالے گی اور ہانکتی ہوئی محشر کی طرف لے جائے گی .)
آخرت پرایمان كن چیزوں كو شامل ہے ؟
ایك مسلمان كا ایمان آخرت كے دن پر چند امور كو شامل ہے ، جن میں سے كچھ یہ ہیں :
1_دوبارہ اٹھائے جانے اور اكٹھا ہونے پر ایمان:
اور وہ ہے قبروں سے مردوں كو زندہ كرنا ، ان كے جسموں میں روح كا دوبارہ لوٹانا ، لوگ رب العالمین كے سامنے سربستہ كھڑے ہوں گے ،پھر وہ ایك جگہ جمع كئے جائیں گے ،وہ ننگے پیر اور ننگے بدن ہوں گے جیسے كہ وہ پہلی بار پیدا كئے گئے تھے ،اوردوبارہ اٹھائے جانے پر ایمان پر كتاب و سنت ،عقل ، فطرت سلیمہ كی واضح دلائل موجود ہیں ، ہم اس پر ایمان ركھتے ہیں كہ اللہ سارے قبروالوں كو اٹھائے گا ، ساری روحیں جسموں میں لوٹائی جائیي گی ، اور سارے لوگ اپنے رب كے سامنے سربستہ كھڑے ہوں گے
اللہ تعالی نے فرمایا: (ثُمَّ إِنَّكُمْ بَعْدَ ذَلِكَ لَمَيِّتُونَ • ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تُبْعَثُون) (المؤمنون:15-16).( اس کے بعد پھر تم سب یقیناً مر جانے والے ہو [15] پھر قیامت کے دن بلا شبہ تم سب اٹھائے جاؤ گے)اور اس پرتمام آسمانی كتابوں نے اتفاق كیا ہے ،اور یہی حكمت كا تقاضا بھی ہے ،اس حیثیت سے یہ تقاضا ہے كہ اس مخلوق كے لئے ایك دن واپسی كا ایسا مقرر كیا جائے جس میں اس كے رسول كی زبانی جن چیزوں كا انہیں مكلف بنایا گیا تھا اس كا انہیں بدلہ دیا جائے ،اللہ تعالی كا ارشاد ہے ،: (أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُون) (المؤمنون: 115).(کیا تم یہ گمان کئے ہوئے ہو کہ ہم نے تمہیں یوں ہی بیکار پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹائے ہی نہ جاؤ گے)
2-حساب اور میزان قائم كرنے پرایمان:
اللہ دنیوی زندگی میں كئے گئے تمام خلائق كے اعمال كا محاسبہ فرمائے گا، تو جو ان میں اہل توحید اور اللہ اور اس كے رسول كے فرمانبردار ہوں گے تو ان كا حساب آسان ہوگا ،اور جو اللہ اور اس كے رسول كے نافرمان ہوں گے ان كا حساب كٹھن و مشكل ہو گا۔
سارے اعمال ایك بڑے ترازو میں تولے جائیں گے ،تو نیكیاں ایك پلرے میں اور برائیاں دوسرے پلرے میں ركھی جائیں گی، جس كے نیكی كا پلرا برائی كے پلرے پر جھك گیا تو وہ جنتی ہے ، اور جس كی برائی كا پلرا نیكی كے پلرے پر جھك گیا تو وہ حہنمی ہے ،اور تمہارا رب كسی پر ظلم نہیں كرےگا،اللہ كا ارشاد ہے : (وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا وَإِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا وَكَفَى بِنَا حَاسِبِين) (الأنبياء: 47).( قیامت کے دن ہم درمیان میں ﻻ رکھیں گے ٹھیک ٹھیک تولنے والی ترازو کو۔ پھر کسی پر کچھ بھی ﻇلم نہ کیا جائے گا۔ اور اگر ایک رائی کے دانے کے برابر بھی عمل ہوگا ہم اسے ﻻ حاضر کریں گے، اور ہم کافی ہیں حساب کرنے والے)
3-جنت اور جہنم:
جنت نعمت اور قیام كا گھر ہے ، اللہ نے اپنے تقوی والے ،اللہ اور اس كے رسول كی اطاعت كرنے والے مومنوں كے لئے تیار كیا ہے، اس میں ہمیشہ رہنے والی ہر قسم كی نعمتیں ہیں جنہیں دل چاہیں گے،اور تمام قسم كی پسندیدہ چیزوں سے آنكھیں ٹھنڈی ہو جائیں گی، اللہ تعالی نے اپنے بندوں كو فرمانبرداری میں جلدی كرنے ، اور اس جنت میں داخل ہونے كی رغبت دلاتے ہوئے فرماتا ہے جس كی كشادگی زمین و آسمان كی كشادگی كی مانند ہے ،: (وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِين) (آل عمران: 133).( اور اپنے رب کی بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف دوڑو جس کا عرض آسمانوں اور زمین کے برابر ہے، جو پرہیزگاروں کے لئے تیار کی گئی ہے)
اور جہنم قائم رہنے والے عذاب كا گھر ہے ، اللہ نے اسے ایسے كافروں كے لئے بنایا ہے جنہوں نے اللہ كے ساتھ كفر كیا ، اور اللہ كے رسول كے ساتھ نافرمانی كی ،اس میں عذاب ، آلام اور سزا كی ایسی ایسی قسمیں ہیں جنہیں كسی عقل انسانی نے سوچا تك نہ ہوگا، اللہ سبحانہ تعالی نے اپنے بندوں كو اس آگ سے ڈراتے ہوئے فرمایا ہے جو اس نے كافروں كے لئے تیار كر ركھا ہے : (فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِين) (البقرة: 24).(س آگ سے بچو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں، جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے)
اے اللہ !میں تجھ سے جنت كا طلب گار ہوں ، اور اس قول وعمل كا جو جنت سے قریب كردیں ، اور میں جہنم سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور اس قول وعمل سے جو جہنم سے قریب كردے۔
4-قبر كا عذاب اور اس كی نعمتیں:
ہمارا ایمان ہے كہ موت برحق ہے ،اللہ تعالی نے فرمایا: (قُلْ يَتَوَفَّاكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ تُرْجَعُون) (السجدة: 11).(کہہ دیجئے! کہ تمہیں موت کا فرشتہ فوت کرے گا جو تم پر مقرر کیا گیا ہے پھر تم سب اپنے پروردگار کی طرف لوٹائے جاؤ گے )یہ ایسا معاملہ ہے جس كا مشاہدہ ہم روز كرتے ہیں جس پر كسی كو ئی شك نہیں ہے ،اور ہم اس پر بھي ایمان ركھتےہیں كہ جوشخص مرگیا یا اسے قتل كردیا گیا كسی بھي سبب سے اس كا مرنا ہو،یہ اس كے مقررہ وقت كی وجہ سے ہے اس میں سے كچھ بھی كم نہیں كیا گیا ہے ،اللہ تعالی فرماتا ہے : (فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلَا يَسْتَقْدِمُون) (الأعراف: 34).( سو جس وقت ان کی میعاد معین آجائے گی اس وقت ایک ساعت نہ پیچھے ہٹ سکیں گے اور نہ آگے بڑھ سکیں گے )اور جو مرگیا اس كی قیامت قائم ہوگئی اور وہ آخرت كی طرف منتقل ہوگیا
كافروں اور نافرمانوں كے لئے عذاب قبر كے اثبات میں بہت ساری قرآنی آیات اور احادیث شریفہ آئی ہوئی ہیں ،اور ایسے ہی مومنوں اور اہل صلاح كے لئے قبر كی نعمتوں كے اثبات میں آئی ہیں، ہم ان پر ایمان ركھتے ہیں اور اس كی كیفیت كے متعلق بےجا بحث و مباحثہ نہیں كرتے ،اس لئے كہ اس كی حقیقت اور كیفیت كی معرفت حاصل كرنے میں عقل میں وہ صلاحیت نہیں ہے ،كیونكہ وہ غیبی دنیا ہے جیسے جنت و جہنم ، اوروہ مشاہدہ كی دنیا نہیں ہے ،اورعقلی صلاحتیں اندازے ،نتیجے پر منحصر ہوتی ہیں ،اور فیصلے ان چیزوں میں ہوتے ہیں جن كا كوئی اس مشاہدے والی دنیا میں نظیر اور قانون ہو ،
جیسے كہ قبر كے احوال ان غیبی امور سے متعلق ہیں جن كا ادراك حس نہیں كرسكتی،اور اگر حس اس كا ادراك كرلیتی تو غیب پر ایمان كا فائدہ ہی فوت ہو جاتا ،اور مكلف بنانے كی حكمت ہی ختم ہو جاتی ،اور لوگ كیوں قبر میں دفن كرتے ،جیسا كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لولا أن لا تَدافَنوا لدعوت الله أن يسمعكم من عذاب القبر" (مسلم 2868، النسائي 2058).(اگر تم دفن کرنا نہ چھوڑ دو (قبر کے عذاب کے ڈر سے) البتہ میں دعا کروں کہ اللہ تعالیٰ تم کو قبر کا عذاب سنا دے)لیكن چوپایوں كے حق میں یہ حكمت نفی كی گئی ہے كیونكہ اس كو سنتے اور ادراك كرتے ہیں ،جیسا كہ اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (إِنَّهُمْ يُعَذَّبُونَ عَذَابًا تَسْمَعُهُ الْبَهَائِمُ) (البخاري 6366، ومسلم 586).( قبر والوں کو ایسا عذاب ہوتا ہے جس کو جانور تک سنتے ہیں)
دوبارہ اٹھائے جانے كے ثبوت پر قرآن كی كچھ دلیلیں:
-
اللہ نے آغاز ہی سے بشر كو پیدا كیا ہے ،اور شروع میں پیدا كرنے پر قدرت ركھنے والاكبھی اسے دوبارہ واپس لانے پرعاجز و لاچار نہیں ہوسكتا،جیسا كہ اللہ تعالی نےفرمایا: (وَهُوَ الَّذِي يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُه) (الروم: 27)(وہی ہے جو اول بار مخلوق کو پیدا کرتا ہے پھر سے دوباره پیدا کرے گا )بوسیدہ ہڈیوں كے دوبارہ زندہ كرنے كے منكرین كی تردید كرتے ہوئے اللہ نے حكما یہ كہا : (قُلْ يُحْيِيهَا الَّذِي أَنْشَأَهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ) (يس: 79).(آپ جواب دیجئے! کہ انہیں وه زنده کرے گا جس نے انہیں اول مرتبہ پیدا کیا ہے، جو سب طرح کی پیدائش کا بخوبی جاننے واﻻ ہے)
زمین بالكل بے جان میت تھی جس میں كوئی ہرے بھرے درخت نہیں تھے ،پھر اس پر بارش نازل ہوتی ہے ، پھر وہ زندہ ہوكر ہریالی سے بھر جاتی ہے ،اور اس میں قسمہا قسم كی خوشنما چیزیں ہیں ،جو ان كے مرنے كے بعد انہیں زندہ كرنے پر قادر ہے، وہی مردوں كے زندہ كرنے پر بھي قادرہے ،اللہ تعالی كا ارشاد ہے: (وَنَزَّلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً مُبَارَكًا فَأَنْبَتْنَا بِهِ جَنَّاتٍ وَحَبَّ الْحَصِيدِ • وَالنَّخْلَ بَاسِقَاتٍ لَهَا طَلْعٌ نَضِيدٌ • رِزْقًا لِلْعِبَادِ وَأَحْيَيْنَا بِهِ بَلْدَةً مَيْتًا كَذَلِكَ الْخُرُوجُ) (ق: 9-11).( اور ہم نے آسمان سے بابرکت پانی برسایا اور اس سے باغات اور کٹنے والے کھیت کے غلے پیدا کیے [9] اور کھجوروں کے بلند وباﻻ درخت جن کے خوشے تہ بہ تہ ہیں [10] بندوں کی روزی کے لئے اور ہم نے پانی سے مرده شہر کو زنده کر دیا۔ اسی طرح (قبروں سے) نکلنا ہے)
ہر عقلمند اس بات كو اچھی طرح جانتا ہے كہ جو بڑی چیز پر قادر ہو وہ اس سے بہت ہی كمتر پر تو اور ہی زیادہ قادر ہوگا ،اللہ سبحانہ و تعالی نے آسمانوں ، زمین اور افلاك كو ان كی عظمت شان اور وسعت اور عجوبہ خلقت كے باوجود شروع سے پیداكیا ،تو وہ بوسیدہ ہڈیوں كو دوبارہ زندہ كرنے پر بہت ہی زیادہ قادر ہے، اللہ كا ارشاد ہے: (أَوَلَيْسَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يَخْلُقَ مِثْلَهُمْ بَلَى وَهُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِيم) (يس: 81).(جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے کیا وه ان جیسوں کے پیدا کرنے پرقادر نہیں، بےشک قادر ہے۔ اور وہی تو پیدا کرنے واﻻ دانا (بینا) ہے)
آخرت كے دن پرایمان كے فائدے:
1- آخرت كے دن پر ایمان سے ایك مسلمان كی رہنمائی ، اور اس كے پابند ہونے ، اور عمل صالح و تقوی الہی كے التزام كرنے میں اور بری صفات و اخلاق سے دوری اختیار كرنے میں شدید اثر ہے ،اسی وجہ سے بیشتر اوقات میں عمل صالح اور آخرت كے دن پرایمان كو ایك دوسرے سے مربوط كیا گیا ہے ،جیسا كہ اللہ كا فرمان ہے ، : (إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللهِ مَنْ آَمَنَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآَخِر) (التوبة: 18) ( اللہ کی مسجدوں کی رونق وآبادی تو ان کے حصے میں ہے جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں) ایك اور مقام پر اللہ نے فرمایا (وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْآَخِرَةِ يُؤْمِنُونَ بِهِ وَهُمْ عَلَى صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُون) (الأنعام: 92). ( اور جو لوگ آخرت کا یقین رکھتے ہیں ایسے لوگ اس پر ایمان لے آتے ہیں اور وه اپنی نماز پر مداومت رکھتے ہیں)
2-دنیاوی امور اور اس كے مال و متاع میں ڈوبے ہوئے غافل لوگوں كو آگاہ كرنا ، كہ وہ طاعات میں مقابلہ كریں اور اطاعتوں كے ذریعہ اللہ كی قربت كے لئے وقت كو غنیمت جانتے ہوئے حقیقی زندگی كی طرف آئیں، اور آخرت ہی قرار اور ہمیشگی كا گھر ہے ،اور جب اللہ نے قرآن میں رسولوں كی تعریف فرمائی ، اور ان كے اعمال كوذكر كیا، اور انكی مدح كو اس سبب كے ساتھ جس نے انہیں ان اعمال اور فضائل كی طرف دھكا دے رہا تھا ، فرمایا: (إِنَّا أَخْلَصْنَاهُمْ بِخَالِصَةٍ ذِكْرَى الدَّار) (ص: 46). ( ہم نے انہیں ایک خاص بات یعنی آخرت کی یاد کے ساتھ مخصوص کر دیا تھا)یعنی ان اعمال فاضلہ كا سبب كہ وہ لوگ دار آخرت كو یاد كرنے كی وجہ سے ممتاز ہوئے ،تو اسی یاد نے انہیں ان اعمال اور نظریات كی طرف دھكیلا
اور جب بعض مسلمانوں نے اللہ او راس كے رسول كے حكم كی بجا آوری میں بوجھ محسوس كیا تو اللہ نے انہیں تنبیہ كرتے ہوئے فرمایا: (أَرَضِيتُمْ بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآَخِرَةِ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الْآَخِرَةِ إِلَّا قَلِيل) (التوبة: 38). (کیا تم آخرت کے عوض دنیا کی زندگانی پر ہی ریجھ گئے ہو۔ سنو! دنیا کی زندگی تو آخرت کے مقابلے میں کچھ یونہی سی ہے) تو اسی وقت انسان آخرت كے دن پرایمان لاتا ہے ، اور وہ یہ یقین كرلیتا ہے كہ دنیا كی تمام نعمتوں كو آخرت كی نعمت پر قیاس نہیں كیا جاسكتا ،عذاب میں اس كی وجہ سے ایك ڈبكی كے برابر بھی نہیں ہوگا ،اور اللہ كی راہ میں دنیا كا عذاب آخرت كے عذاب پر قیاس نہیں كیا جاسكتا ،اور نعمت میں ایك ڈبكی اس كے برابر نیہں ہوسكتی
3- یہ اطمنان كہ حق ضائع نہیں ہوگا، جس كا ناحق ایك ذرہ كے برابر بھی كسی نے لیا ہوگا ،تو وہ اسے قیامت كے دن جب وہ اس كے زیادہ ضرورت مند ہوگا تب وہ اسے حاصل كرے گا، تو بھلا وہ شخص كیوں كر غم كرے گا جسے یہ پتہ ہو كہ اہم خطرناك لمحوں میں لامحالہ اسے اس كا حق دیا جائے گا،اور بھلا وہ كیونكر غمزدہ ہوگا جسے یہ معلوم ہو كہ جو اس كے اور اس سے جھگڑنے والے كے درمیان فیصلہ كرنے والاہے وہ اللہ احكم الحاكمین كی ذات ہے ؟