تعلیم كو فالو اپ كریں

اب تك آپ نے انڑی كے لئے رجسٹریشن نہیں كیا
اپنی ترقی كے فالواپ كے لئے اور پوائنٹس اكٹھا كرنے كے لئے ،اور مسابقے میں شركت كے لئے منصہ تاء میں فورا رجسٹریشن كریں ،رجسٹرد ہونے كے بعد جن موضوعات كی آپ تعلیم حاصل كررہے ہیں آپ اس كی الكڑانك سرٹیفیكیٹ حاصل كریں گے

موجودہ قسم موت و جنازہ

سبق: موت و زندگی كی حقیقت

اللہ عزوجل نے ہمیں اس دنیوی زندگی میں پیدا كیا اور وجود بخشا تاكہ وہ ہمیں آزمائے اور طرح طرح سے ہمارا امتحان لے، اور انسان كا معاملہ موت سے ختم نہیں ہوتا لیكن صرف آزمائش كا مرحلہ ختم ہوتا ہے ،تاكہ اس كے بعد آخرت كے مراحل كا پہلا مرحلہ شروع ہو جائے ،اس حیثیت سے كہ لوگ اپنے كئے ہوئے اعمال كے نتائج پا لیں ،آپ اس درس میں موت و حیات كی حقیقت كے متعلق كچھ چیزیں سیكھیں گے۔

  • موت وحیات كی حقیقت كی جانكاری ۔
  • موت سے متعلق آداب و احكام كی جانكاری۔

موت و حیات كی حقیقت

موت معاملے كا اختتام نہیں ، لیكن وہ انسان كا ایك نیا مرحلہ ہے اور آخرت كے كامل حیات كاآغاز ہے ، اور اسلام نے پیدائش سے لیكر تمام حقوق كی پاسداری كی ترغیب دی ہے ، اور میت كے اور اس كے گھر والوں و رشتے داروں كےحقوق كے تحفظ كے احكام پر زیادہ زور دیا ہے ،

ہمارے آزمانے اور ہمارے امتحان كی خاطر اس دنیوی زندگی میي اللہ نے ہمیں پیدا كیا اور وجود بخشا،جیسا كہ اللہ تعالی نے فرمایا: (الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا) (الملك: 2)( وہ جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا، تاکہ تمھیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل میں زیادہ اچھا ہے) تو جو ایمان لاے، اور متقی بنے تو وہ جنت میں داخل ہوگا ،اور جس نے گمراہی اور انحراف كو اختیار كیا تو وہ جہنم میں داخل ہوگا ۔

اس دنیا میں انسان كی زندگی كتنی ہی دراز كیوں نہ ہو جائے وہ بہرحال ختم و زائل ہونے والی ہے، اور بقا و ہمیشگي اور ابدی زندگي تو آخرت ہی میں ہے ،جیسا كہ اللہ كا ارشاد ہے : (وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ) (العنكبوت: 64).( اور بے شک آخری گھر، یقینا وہی اصل زندگی ہے، اگر وہ جانتے ہوتے)

اللہ عزوجل نے اپنے افضل مخلوق ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایاكہ عنقریب آپ كو موت آئے گي جیسے كہ آپ سے پہلے لوگوں كو موت آئی ہے ،پھر تمام لوگ اللہ كے پاس جمع كئے جائیں گے ، تاكہ ان كے درمیان فیصلہ كرے (إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ (30) ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عِنْدَ رَبِّكُمْ تَخْتَصِمُونَ) (الزمر: 30، 31).(قیناً خود آپ کو بھی موت آئے گی اور یہ سب بھی مرنے والے ہیں [30] پھر تم سب کے سب قیامت والے دن اپنے رب کے سامنے جھگڑو گے)

اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم لوگوں سے اپںے حال كی _اور ہر انسان كے حال كی _دنیا اور اس كے قصیر ہونے كی آخرت سے مقابلہ كرتے ہوئے تشبیہ دی ، ایك ایسے مسافر كی حالت سے كہ جس نے ایك درخت كے سایہ تلے آرام كیا اور تھوڑی دیر سویا ، پھر وہاں سے اٹھ كر اسے چھوڑ كر چلا گیا ،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ما لي وللدنيا، ما أنا في الدنيا إلا كراكب استظل تحت شجرة ثم راح وتركها". (الترمذي 2377، ابن ماجه 4109).(صحیح)(مجھے دنیا سے کیا مطلب ہے، میری اور دنیا کی مثال ایسی ہے جیسے ایک سوار ہو جو ایک درخت کے نیچے سایہ حاصل کرنے کے لیے بیٹھے، پھر وہاں سے کوچ کر جائے اور درخت کو اسی جگہ چھوڑ دے)

اور جیسا كہ اللہ تعالی نے ہمارے لئے یعقوب علیہ السلام كے اس واقعہ كو بیان كیاہے جس میں انہوں نے اپنے بیٹوں كو وصیت فرمائی ہے ، اللہ نے فرمایا: (إِنَّ اللهَ اصْطَفَى لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ) (البقرة: 132).( اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے اس دین کو پسند فرمالیا ہے، خبردار! تم مسلمان ہی مرنا )

جب كہ كسی كو یہ پتہ نہیں كہ اللہ نے جو موت اس كےلئے مقدر كر ركھی ہے وہ كب آئے گی ، اور كہاں آئے گی ، اور اسے بدلنے كی كسی میں دم بھي نہیں ،تو ایسی صورت حال میں ایك دانشمند كے لئے ضروری ہے كہ وہ اپنے ایام ، گھنٹوں و لمحات كو خیر و صلاح اوردین كے كاموں سے بھر دے ،اس وجہ سے كہ اللہ تعالی كا یہ ارشاد ہے : (وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ) (الأعراف: 34).(] اور ہر گروه کے لئے ایک میعاد معین ہے سو جس وقت ان کی میعاد معین آجائے گی اس وقت ایک ساعت نہ پیچھے ہٹ سکیں گے اور نہ آگے بڑھ سکیں گے)

اور ہر شخص جس كے بدن سے روح نكل كر موت ہو جائے تو اس كی قیامت قائم ہو گئی ،اور دار آخرت كی طرف اس كے كوچ كا آغاز ہوگیا ،اور یہ علم غیب سے متعلق ہے ، جو كسی بھي انسانی عقل كے لئے ممكن نہیں كہ بالتفصیل اس كی كیفیت كو جان سكے ۔

اور جیسا كہ شریعت نے انسان كی ولادت ، اس كی پرورش ، اور بچپن ، جوانی و بڑھاپے كے آداب و احكام كا خیال ركھا ہے ،تو ایسے ہی ہمارے لئے وہ احكام و آداب مشروع كیا ہے جو میت كے حقوق كی حفاظت كرتے ہیں ،اوراس كے اہل خانہ و رشتہ داروں كے حال كا خیال ركھتے ہیں ،تو تمام تعریف اس اللہ كے لئے ہے جس نے اس دین كی تكمیل فرمائی ،اورنعمت كا اتمام كیا ،ہماری اس دین عظیم كی جانب رہنمائی فرمائی۔

میت سے متعلق آداب و احكام

1-مریض كی عیادت كے لئے حاضر ہونے كے وقت

جو شخص مریض كی زیات كرے اسے چاہئے كہ وہ اس كےلئے شفا اور عافیت كے لئے دعا كرے ،اور یہ كہ یہ بیمارے گناہوں كے دھونے كا سبب بنے اور ہماری خطاؤں كے لئے كقارہ ہو ،جیسا كہ اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مریض سے كہتے تھے : "لا بأس، طهور إن شاء الله" (البخاري 3616).( کوئی حرج نہیں ان شاءاللہ (یہ بخار) گناہوں کو دھو دے گا)

اس كے لئے یہ ہے كہ ایسے الفاظ و عبارات كو منتخب كرے جو مریض كو بیماری سے لڑنے اور شفا كے لئے ہماہنگ ہو، اور دعوت الی اللہ كے لئے مناسب موقف كا فائدہ اٹھائے ،اور مریض كو حكمت و عمدہ موعظت كے ساتھ اللہ كا اور یوم آخرت كا یاد دلائے ،اور اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس كی عظیم مثال پیش كی ہے ،انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں : كان غلام يهودي يخدم النبي صلى الله عليه وسلم، فمرض، فأتاه النبيُّ صلى الله عليه وسلم يعوده، فقعد عند رأسه، فقال له: «أسلم»، فنظر إلى أبيه وهو عنده فقال له: أطع أبا القاسم صلى الله عليه وسلم، فأسلم، فخرج النبي صلى الله عليه وسلم وهو يقول: «الحمد لله الذي أنقذه من النار» (البخاري 1356).( ایک یہودی لڑکا (عبدالقدوس) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا، ایک دن وہ بیمار ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا مزاج معلوم کرنے کے لیے تشریف لائے اور اس کے سرہانے بیٹھ گئے اور فرمایا کہ مسلمان ہو جا۔ اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا، باپ وہیں موجود تھا۔ اس نے کہا کہ (کیا مضائقہ ہے) ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ کہتے ہیں مان لے۔ چنانچہ وہ بچہ اسلام لے آیا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شکر ہے اللہ پاک کا جس نے اس بچے کو جہنم سے بچا لیا۔)

2-نزاع كی حالت میں تلقین كرنا

قرب موت كی نشانیاں جب بیمار پر ظاہر ہو جائے تو اسے تلقین كرنا اور اس كی حونصلہ افزائی كرنامستحب ہے ،اور اس كی تلقین كلمہ توحید اور جنت كی كنجی (لا إله إلا الله) كے ساتھ حكمت كے ساتھ اچھے اسلوب میں كرنا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لقنوا موتاكم لا إله إلا الله" (مسلم 916).(اپنے بیماروں کو جو قریب مرنے کے ہوں ان کو «لَا إِلَـٰہَ إِلَّا اللَّـہُ» سکھاؤ)

یہی وہ عظیم كلمہ ہے جسے آدمی اپنی زندگی میں اور اپنی موت كے وقت كہتا ہے،اور جسے یہ توفیق ملی كہ اس كا آخری كلام لاالہ الا اللہ ہو تو اس نے شرف عظیم حاصل كرلیا ،جیسا كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "من كان آخر كلامه "لا إله إلا الله" دخل الجنة" (أبو داود 3116). (صحیح)(جس کا آخری کلام «لا إله إلا الله» ہو گا وہ جنت میں داخل ہو گا )

3- میت كو قبلہ رخ كرنا

قبلہ كی جانب میت كا رخ كرنا مستحب ہے، جیسا كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كا فرمان ہے: "البيت الحرام قبلتكم أحياءً وأمواتًا" (أبو داود 2875)، (حسن)(اور بیت اللہ جو کہ زندگی اور موت میں تمہارا قبلہ ہے ) اور میت كو داہنے پہلو پر قبلہ رخ كردیا جائے جیسے كہ لحد میي ركھا جاتا ہے ۔

كامیابی سے آپ نے درس مكمل كیا


امتحان شروع كریں