تعلیم كو فالو اپ كریں

اب تك آپ نے انڑی كے لئے رجسٹریشن نہیں كیا
اپنی ترقی كے فالواپ كے لئے اور پوائنٹس اكٹھا كرنے كے لئے ،اور مسابقے میں شركت كے لئے منصہ تاء میں فورا رجسٹریشن كریں ،رجسٹرد ہونے كے بعد جن موضوعات كی آپ تعلیم حاصل كررہے ہیں آپ اس كی الكڑانك سرٹیفیكیٹ حاصل كریں گے

موجودہ قسم قرآن كریم

سبق: قرآن كریم كی تفسیر اور اس كی آیتوں پر غور وفكر كرنا

قرآن كریم كی تفسیر اور تدبر دونوں بڑے پائے كے عمل ہیں ،یہ دونوں اللہ كے كلام كے مراد ومقصود كے ایك بندے مسلم كو قریب كردیتے ہیں، جس سے اس میں بیان كردہ چیزوں پر عمل میں مدد ملتی ہے،اور اس سبق میں آپ تدبر و تفسیر اور ان دونوں كی اہمیت كے مقصود و مراد كی آپ كو جانكاری حاصل ہوگي ،

-قرآن كریم كی تفسیر و تدبر كے مقصود كی معرفت-تفسیر و تدبر كا مقام اور ان دونوں كی ضرورت كی معرفت-قرآن كریم كی تفسیر كے مختلف راستوں كی جانكاری-تفسیر كی قابل اعتبار اہم كتابوں كی جانكاری

قرآن كریم كی تفسیر اورتدبر

ہر مسلمان كو لئے صحیح صحیح قرآن پڑھنے كا حریص ہوناچائیے ،اور اس میں تدبر اور اس كے معانی میں غورو فكر كرنی چائیے،اور اس كے حكم كردہ امور اور منع كردہ چیزوں میں غور كرنا چاہئے،اور اس كی تفسیر اور احكام كی تعلیمات حاصل كرنی چائیے ،اور اخیر میں اس پر عمل پیرا ہوكر دنیا و آخرت كی سعادت مندی كی كامیابی سے سرفراز ہونا چاہئے

تدبر كا معنی و مطلب

تدبر كا معنی: آیتوں كے بعد ٹھہر نا اوراس میں غور و فكر كرنا،اور حصول فوائد اور بجاآوری كی خاطر متحرك ہونا

قرآنی آیات میں غور وفكر كرنے والے كے لئے یہ ضروری ہے كہ وہ آیتوں كے اجمالی معانی كو سمجھتا ہو،تاكہ اس كی فہم و تدبر صحیح ہو

قرآنی تدبر كا مقام و مرتبہ

ایك مسلمان پر اس قرآن عظیم میں تدبر كرنا واجب ہے ،اور اس كی آیتوں اور معانی كو سمجھنا ضروری ہے ،اور یہ بھي ضروری ہے كہ وہ اس كےساتھ زندگی گذارے،اللہ تعالی كا فرمان ہے ﴿كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ﴾ [ص: 29]، یہ بابرکت کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف اس لئے نازل فرمایا ہے کہ لوگ اس کی آیتوں پر غور وفکر کریں اور عقلمند اس سے نصیحت حاصل کریں ایك اور مقام پر اللہ نے فرمایا : ﴿أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَى قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا﴾ [محمد: 24]. کیا یہ قران میں غور وفکر نہیں کرتے؟ یا ان کے دلوں پر تالے لگ گئے ہیں

تفسیر كا معنی و مطلب

تفسیر كہتے ہیں:قرآن كریم كے معانی كا بیان و وضاحت

تفسیر كی اہمیت اور اس كی ضرورت

علم تفسیر كا شمارسب سے نفع بخش اور معززعلوم میں ہوتاہے ، اس كا سیدھا تعلق اللہ كی كتاب سے ہے،اوركلام اللہ كے اور اس كے مراد و مقصود كےسمجھنے میں معاون ہے،اور علم تفسیر سےقرآن كریم كے معانی كو سمجھا جاتا ہے ،جس كے ذریعہ ایك مسلمان كو عمل صالح كی راہ پانے میں مددملتی ہے،اور اس سے اللہ تعالی كی خوشنودی ، اس كے جنت كی كامیابی حاصل ہوتی ہے ۔اور یہ اس وجہ سے كہ اللہ كی كتاب میں آئے ہوئے احكامات پر عمل داری اور اسے كے منع كردہ امور سے اجتناب كرنے ، اور اس میں بیان كردہ واقعات سے عبرت حاصل كرنے، اور اس میں بتائی گئی خبروں كی تصدیق كرنے سے ہوتا ہے،اور علم تفسیر سے انسان كو باطل سے حق واضح ہوتا ہے ،اور آیات كےمعانی اور اس كے حقیقی دلالات تك رسائی حاصل كرنےمیں سارے التباس و شبہات دور ہوجاتے ہیں

صحابہ كرام كا قرآن كے معانی اور اس كی تفسیر كی معرفت اللہ كے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل كرنے كا اہتمام

صحابہ كرام رضی اللہ عنہم اجمعین پر جب قرآن كا سمجھنا مشكل و دشوار ہوجاتا تو وہ اللہ كے بنی صلی اللہ علیہ وسلم سے فورا پوچھ لیتے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی «الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم‏» ”وہ لوگ جو ایمان لے آئے اور اپنے ایمان کے ساتھ ظلم کو نہیں ملایا“ تو صحابہ کو یہ معاملہ بہت مشکل نظر آیا اور انہوں نے کہا ہم میں کون ہو گا جو ظلم نہ کرتا ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا مطلب وہ نہیں ہے جو تم سمجھتے ہو بلکہ اس کا مطلب لقمان علیہ السلام کے اس ارشاد میں ہے جو انہوں نے اپنے لڑکے سے کہا تھا «يا بنى لا تشرك بالله إن الشرك لظلم عظيم‏» کہ ”اے بیٹے! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، بلاشبہ شرک کرنا بہت بڑا ظلم ہے۔“

قرآن كریم كی تفسیر اور اس كے معانی كی معرفت مندرجہ ذیل طریقوں سے ہوتی ہے :

١
قرآن كی تفسیر قرآن سے
٢
قرآن كی تفسیر حدیث سے
٣
صحابہ كرام كی تفسیر
٤
تابعین كی تفسیر

پہلی بات: قرآن كی تفسیر قرآن ہی سے

چونكہ اللہ تعالی نے ہی اسے نازل فرمایا ہے ، اس لئے وہی اس كے مقصود و مراد كو سب سے زیادہ جاننے والا ہے

مثال : اللہ كا ارشاد : ﴿ أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ۝ الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ ﴾ [يونس:62- 63] یاد رکھو اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی اندیشہ ہے اور نہ وه غمگین ہوتے ہیں [62] یہ وه لوگ ہیں جو ایمان ﻻئے اور (برائیوں سے) پرہیز رکھتے ہیں ، گذشتہ آیت كی تفسیر اللہ كے اولیاء نے اللہ كے اس قول سے كیا ہے(الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ).

دوسری بات: قرآن كی تفسیر سنت رسول اللہ سے كرنا

كیونكہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ كی طرف سے مبلغ ہیں ،اس لئے آپ اللہ كے كلام كے مراد كو سب سے زیادہ جاننے والے ہیں ،

مثال: جیسا كہ اللہ كے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت میں وارد لفظ قوۃ كو (رمی ) یعنی تیر اندازی سے كی ہے ، عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر فرماتے تھے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے « ﴿ وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ ﴾ [الأنفال: 60]،”تیار کرو کافروں کے لیے قوت کو، قوت سے مراد تیراندازی ہے، قوت سے مراد تیراندازی ہے، قوت سے مراد تیراندازی ہے۔“( مسلم (1917).

تیسری بات :صحابہ كرام رضی اللہ عنہم كی تفسیر

وہ اس كے متعلق سب سے زیادہ جاننے والے تھے ، كیونكہ انہوں نے قرینہ اور حالات كا مشاہدہ كیا تھا جن حالات سے وہ گذر رہے تھے ، اور اس وجہ سے بھی كہ انہیں فہم كامل ، علم صحیح ، اور عمل صالح حاصل تھا

مثال: اللہ كا ارشاد ہے: ﴿ وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنَ الْغَائِطِ أَوْ لامَسْتُمُ النِّسَاءَ﴾ [النساء: 43]( اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو )یہ بات ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ثابت ہے كہ انہوں نے ملامسہ كی تفسیر جماع سے كی ہے ، یعنی چھونے یا مباشرت سے مراد ہمبستری كرنا ہے (تفسير الطبري (8/ 389).

چوتھی بات :تابعین كی تفسیر

ان لوگوں نے صحابہ كرام رضی اللہ عنہم سے تفسیر اخذ كرنے كا اہتمام كیا كیونكہ تابعین صحابہ كرام كے بعد سب سے بہتر لوگ ہیں ،اور اپنے سے بعد والے لوگوں كے مقابلے میں نفس پرستی سے زیادہ محفوظ ہیں ،اور نہ ہی عربی زیان ان كے دور میں زیادہ تبدیل ہوئی تھی ،اسے لئے اپنے سے بعد والوں سے قرآن فہمی میں درستگی اور صحیح كے زیادہ قریب تھے

قرآن كریم كی تفسیر میں ایك مسلمان كی ذمہ داری

ایك مسلمان كے لئے ہیی مناسب ہے كہ جب قرآن كے سمجھنے میں یا اس كے معانی كی جانكاری میں كوئی مشكل درپیش ہو تو تفسیر كی كتابوں سے استفادہ كرے ،اور آیات كی تفسیر اور اس كے معانی كی شرح و بیان كےماہرین و قابل اعتماد مفسرین كے كلام كو پڑھے ،

قرآن كریم كی تفسیر كرنا ہرمسلمان كا كام نہیں ہے ،بلكہ علمائے مفسرین كا یہ كام ہے ،اس لئے عام مسلمانوں كے لئے یہ ہے كہ وہ بغیر علم كے اس پر اقدام نہ كریں،كیونكہ حقیقت میں مفسر اللہ كی جانب سے ایك مترجم ہوتا ہے،اور اللہ كے كلام كے مراد پر وہ شاہد و گواہ ہوتا ہے ،اورا سے چاہئے كہ اس گواہی كو بڑا سمجھے اور بلا علم اللہ كے متعلق بات كہنے سے ڈرے ،ایسا نہ ہو كہ اس كی وجہ سےاللہ كے حرام میں واقع ہو جائے اور قیامت كے دن اس كی وجہ سے اسے رسوائی كا سامنا ہو،اللہ كا ارشاد ہے﴿ قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْأِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَنْ تُشْرِكُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَاناً وَأَنْ تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لا تَعْلَمُونَ﴾ [الأعراف: 33]. آپ فرمائیے کہ البتہ میرے رب نے صرف حرام کیا ہے ان تمام فحش باتوں کو جو علانیہ ہیں اور جو پوشیده ہیں اور ہر گناه کی بات کو اور ناحق کسی پر ﻇلم کرنے کو اور اس بات کو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک ٹھہراؤ جس کی اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی اور اس بات کو کہ تم لوگ اللہ کے ذمے ایسی بات لگادو جس کو تم جانتے نہیں

فن تفسیر كی قابل بھروسہ اہم كتابیں

قرآن كریم كی تفسیر میں متعدد كتابیں تصنیف كی گئیں ہیں ،اور یہ سب قبول كے لحاظ سے ایك ہی درجے كی نہں ہیں ،ایك مسلمان كے لئے معتبر تفاسیر پر بھروسہ كرناواجب ہے، جن كےمولفین نے تفسیر كے ضوابط و اصول كا التزام كیا ہے، اور ان میں سے بہتر تفاسیر یہ ہیں :

تفسیر كی اہم كتابیں

١
تفسیر جوامع البیان عن تآویل آئ القرآن / امام ابن جریر الطبری
٢
تفسیر القرآن الكریم /ابن كثیر دمشقی
٣
تفسیر الكریم الرحمن فی تفسیر كلام المنان/شیخ عبدالرحمن السعدی
٤
التفسیر المیسر /ماہرین علماء كمیٹی ،ژ ناشر :شاہ فہد اكیڈمی برائے طباعت قرآن شریف ، مدینہ منورہ

كامیابی سے آپ نے درس مكمل كیا


امتحان شروع كریں