تعلیم كو فالو اپ كریں

اب تك آپ نے انڑی كے لئے رجسٹریشن نہیں كیا
اپنی ترقی كے فالواپ كے لئے اور پوائنٹس اكٹھا كرنے كے لئے ،اور مسابقے میں شركت كے لئے منصہ تاء میں فورا رجسٹریشن كریں ،رجسٹرد ہونے كے بعد جن موضوعات كی آپ تعلیم حاصل كررہے ہیں آپ اس كی الكڑانك سرٹیفیكیٹ حاصل كریں گے

موجودہ قسم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق معلومات

سبق: نبی محمّد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت اور آپ کی سنت کے مقام و مرتبہ کی جانکاری حاصل کرے

  • رسولوں کے بھیجے جانے کی حکمت کی معرفت حاصل کریں
  • غیروں پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت کا احساس بیدار کریں
  • امت پر نبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم كے بعض حقوق كی معرفت۔

بشریت کو رسولوں کی ضرورت

اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ ہر امت میں انہیں میں سے ایک ڈرانے والا بھیجے تاکہ وہ اللہ کی جانب سے اس کے بندوں کے لئے نازل کردہ دین و ہدایت کی وضاحت کرے، جو ان کے دنیوی و اخروی حالات کے سدھار کی ضمانت ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:(و إن من امة الا خلا فيها نذير)(فاطر:24)_()

دنیوی و اخروی سعادت مندی و كامرانی صرف رسولوں كے ہاتہوں ہی ممكن ہے ،اور ایسے ہی اچھے و برے كی معرفت تفصیلی طور پر انہیں كے ذریعہ ممكن ہے ،اور صرف انہی كے ہاتھوں رضائے الہی حاصل كی جا سكتی ہے،اعمال ، اقوال ، اور اخلاق كی عمدگی انہیں كی رہنمائی میں اور لائی ہوئی شریعت میں ہے۔

نبی و رسول مانتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا

ہم ایمان ركھتے ہیں كہ محمد صلی اللہ علبہ وسلم اللہ كے بندے اور اس كے رسول ہیں ،اور آپ تمام اگلے و پچھلے لوگوں كے سردار ہیں ،آپ تمام نبیوں كے ختم كرنے والے ہیں اور آپ كے بعد كوئی نبی آنے والا نیہیں ۔ آپ نے اللہ كے پیغام كو لوگوں تك پہونچا دیا ،اور امانت ادا كردی ،اور امت كی نصیحت كی ،اور كما حقہ اللہ كے لئے جہاد كیا ۔

اللہ تعالی نے فرمایا ﴿ مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ ﴾ [الفتح: 29] (محمد اللہ كے رسول ہیں)

جن چیزوں كے متعلق آپ نے خبر دی ہے اس كا تصدیق كرنا ہمارے اوپر واجب ہے ،اور جن كاموں كا حكم دیا ہے اس میں آپ كی فرمانبرداری كرنا ،اور جن چیزوں سے منع كیا ہے اور ڈانٹا ہے اس سے دوری اختیار كرنا واجب ہے ،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم كی سنت كے مطابق ہمارے اوپر اللہ كی عبادت كرنا واجب ہے ،اور آپ كی اقتدا ہمارے اوپر ضروری ہے۔

خاتم الانبیاء و الرسل

محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء والرسل ہیں ،اور آپ كے بعد كوئی نبی آنے والا نیہں، اور آپ كی رسالت گذری ہوئی تمام آسمانی رسالتوں كو ختم كرنے والی ہے،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم كا دین سابقہ تمام ادیان كو ختم كرنے والا ہے۔

اللہ تعالی كا فرمان : ﴿مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ﴾ [الأحزاب: 40]. (لوگو) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ محمد ﴿صلی اللہ علیہ وسلم﴾ نہیں لیکن آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور تمام نبیوں کے ختم کرنے والے،

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت كرتے ہیں كہ نبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا « إن مثلي ومثل الأنبياء من قبلي كمثل رجل بنى بيتًا فأحسنه وأجمله، إلا موضع لبنة من زاوية، فجعل الناس يطوفون به ويعجبون له ويقولون: هلا وضعت هذه اللبنة؟ قال: فأنا اللبنة وأنا خاتم النبيين» البخاري (3535).”میری اور مجھ سے پہلے کے تمام انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے ایک گھر بنایا اور اس میں ہر طرح کی زینت پیدا کی لیکن ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوٹ گئی۔ اب تمام لوگ آتے ہیں اور مکان کو چاروں طرف سے گھوم کر دیکھتے ہیں اور تعجب میں پڑ جاتے ہیں لیکن یہ بھی کہتے جاتے ہیں کہ یہاں پر ایک اینٹ کیوں نہ رکھی گئی؟ تو میں ہی وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔“

تمام رسولوں اور بنیوں میں سب سے افضل

ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم افضل الانبیاء ہیں ،بلكہ آپ مخلوقات میں سب سے افضل ہیں،اور ان میں مرتبے كے لحاظ سے سب عظیم ہیں ،اللہ عزوجل نے آپ كی شان اور مقام كو اعلی وبالا بنایا ہے،،اس لئیے آپ تمام خلائق میں افضل ،اور عنداللہ ان میں سب سے مكرم و محترم ، اور جاہ و منصب كے لحاظ سے ان میں سب سے عظیم ہستی ہیں،اللہ تعالی كا ارشاد ہے : ﴿وَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا﴾ [النساء: 113]،(للہ تعالیٰ نے تجھ پر کتاب وحکمت اتاری ہے اور تجھے وه سکھایا ہے جسے تو نہیں جانتا تھا اور اللہ تعالیٰ کا تجھ پر بڑا بھاری فضل ہے) اور ایك مقام پر اللہ جل و علا نے اپنے نبی كو مخاطب كرتے ہوئے فرمایا : {وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ} [الشرح: 4].(اور ہم نے تیرے لیے تیرا ذکر بلند کر دیا)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم اولاد آدم كے سردار ہیں،آپ ہی ہیں جس كے لئے سب سے پہلے قبر چاك ہوگی ،اورآپ پہلے سفارشی ہوں گے ،اور سب پہلے آپ ہی كی سفارش قبول كی جائے گی ،اور بروز قیامت آب كے ہاتھ میں پرچم حمد ہوگا،آپ ہی پل صراط سب سے پہلے عبور كریں گے ،آپ ہی سب سے پہلے جنت كا دروازہ كھٹكھٹائیں گے ،اور آپ ہی جنت میں سب سے پہلے داخل ہوں گے۔

سارے جہاں كے لئے رحمت ہیں،

اللہ تعالی نے آپ كو سارے جہان كے لئے رحمت بنا كر بھیجا ہے ،اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم كی رسالت عالم انس و جن دونوں كے لئے ہے ،اور آپ كی رسالت عمومی طور پر سارے بشر كے لئے ہے ،اللہ تعالی كا ارشاد ہے : ﴿وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ﴾ [ الأنبياء:107].(اور ہم نے آپ کو تمام جہان والوں کے لئے رحمت بنا کر ہی بھیجا ہے)

اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے : ﴿ وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِّلنَّاسِ﴾ [سبأ : 28]. (ہم نے آپ کو تمام لوگو ں كے لئے بھیجا ہے ) اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے : ﴿قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا﴾ [الأعراف:158](آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا ہوں،)

آپ كو اللہ تعالی نے سارے جہان كے لئے رحمت بنا كر مبعوث فرمایا تاكہ آپ لوگوں كو شرك و كفر اور جہالت كی تاریكیوں سے نكال كر علم ، ایمان اور توحید كی روشنی میں لے آئیں ،اور اس كے ذریعہ وہ رضائے الہی اور بخشش حاصل كرلیں ،اور اللہ كی نارضگی اور اس كے عتاب سے نجات پالیں

آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا اور آپ كی رسالت كا اتباع كرنا واجب ہے

رسالت محمدی تمام سابقہ رسالتوں كو منسوخ كرنےوالی ہے،اس لئے اللہ تعالی كسی بھی شخص كے دین كو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كی اتباع كے بغیر قبول نہیں فرماتا ہے ،اور نہ ہی كوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم كے راستے سے ہٹ كر جنت كی نعمتیں حاصل كر پائے گا،اس لئے آپ اكرم الرسل ہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم كی امت خیر الامم ہے ،اورآپ كی شریعت تمام شریعتوں میں سب سے اكمل ہے ۔

اللہ كا ارشاد ہے : ﴿وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ﴾ [آل عمران: 85] ( جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے، اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور وه آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا)

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں كہ اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : «والذي نفس محمد بيده، لا يسمع بي أحد من هذه الأمة يهودي، ولا نصراني، ثم يموت ولم يؤمن بالذي أرسلت به، إلا كان من أصحاب النار» مسلم (153) ”قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے اس زمانے کا (یعنی میرے وقت اور میرے بعد قیامت تک) کوئی یہودی یا نصرانی (یا اور کوئی دین والا) میرا حال سنے پھر ایمان نہ لائے اس پر جس کو میں دے کر بھیجا گیا ہوں۔ (یعنی قرآن) تو جہنم میں جائے گا۔“

آپ صلی اللہ كی رسالت پر دلالت كرنے والے چند معجزات

اللہ جل وعلا نے ہمارے نبیی محمد صلی اللہ علیہ وسلم كی واضح معجزات اور كھلی نشانیاں دے كر مدد فرمائی ،ان میں آپ كی نبوت و رسالت كی سچائی كی دلالت و شہادت ہے ،انہیں معجزات میں چند یہ ہیں :

قرآن كریم

ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم كو جو سب بڑی نشانی عطا كی گئی وہ قرآن كریم ہے،جو دل و دماغ كو مخاطب كرتا ہے ،اور یہ قیامت تك ہمیشہ باقی رہنے والی نشانی ہے ،اس نشانی میں كوئی تغیر و تبدیلی رونما نہیں ہوسكتی ،اور یہ قرآن اپنی زبان و اسلوب میں ،اورشریعت سازی و احكام میں ، نیز اپنے بیان كردہ اخبار میں سب كو عاجز و لاچار كرنے والا ہے۔

اللہ كا ارشاد ہے: ﴿قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا﴾ [ الإسراء :88]. (کہہ دیجیئے کہ اگر تمام انسان اور کل جنات مل کر اس قرآن کے مثل ﻻنا چاہیں تو ان سب سے اس کے مثل ﻻنا ناممکن ہے گو وه (آپس میں) ایک دوسرے کے مددگار بھی بن جائیں)

چاند كا پھٹ جانا

اللہ تعالی نے فرمایا : ﴿ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ * وَإِنْ يَرَوْا آيَةً يُعْرِضُوا وَيَقُولُوا سِحْرٌ مُسْتَمِرٌّ ﴾ [القمر: 1، 2] (قیامت بہت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا۔ [1] اور اگر وہ کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ (یہ) ایک جادو ہے جو گزر جانے والا ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم كے سامنے تھوڑے كھانے كا زیادہ ہوجانا

یہاں تك كہ آپ نے كھایا ، اور آپ كے ساتھیوں نے كھایا ، اور پھر اس سے بچ بھی گیا ،اور اسی قبیل سے وہ ہے جو سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ،فرماتے ہیں كہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے بیچ بیٹھے ہی تھے كہ آپ كے پاس ثرید سے بھری بڑی پلیٹ پیش كی گئی ، فرماتے ہیں كہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے كھایا اور آپ قوم نے بھی كھایا ،اور لوگ ظہر كے قریب تك آتے رہے اور ایك كے بعد دوسرےكھاتے رہے ، (مسند أحمد [20135])

غیبی امور كے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم كی پیشین گوئیاں

پھر آپ كے بتانے كے مطابق چیزیں واقع ہوتی رہیں ،اور بہت سی چیزیں آپ كے بیان كے مطابق واقع ہوئیں ،اور برابر ہم اس كا مشاہدہ كررہے ہیں كہ وہ چیزیں رونما ہو رہی ہیں جن كے متعلق آپ نے پیشین گوئی فرمائی ہے

انس رضی اللہ عنہ یے مروی ہے كہ عمربن خطاب رضی اللہ عنہ جب اہل بدركے واقعے كو بیان كرن شروع كرتے تو فرماتے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اہل بدر كے گرنے كی جگہ كذشتہ كل دكھائے تھے ،اور فرما رہےتھے : «هذا مصرع فلان غدا، إن شاء الله»، قال: فقال عمر: فو الذي بعثه بالحق ما أخطئوا الحدود التي حد رسول الله ﷺ" مسلم [2873].”اللہ چاہے تو کل کے دن فلاں یہاں گرے گا۔“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: قسم اس کی جس نے آپ کو سچا کلام دے کر بھیجا، جو حدیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کی تھیں وہ وہاں سے نہ ہٹے (یعنی ہر ایک کافر اسی مقام میں مارا گیا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کر دیا تھا)

امتیوں پر نبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم كے حقوق

امتیوں پر نبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم كے بہت سارے حقوق ہیں ان میں سے بعض كا بیان یہاں كیا جا رہا ہے ،

1-آپ صلی اللہ علیہ وسلم كی نبوت پرایمان

آپ كی نبوت و رسالت پر ایمان لانا ،اورآپ كی رسالت كو تمام سابقہ رسالتوں كے لئے ناسخ ہونےپر اعتقاد ركھنا

2- آپ صلی اللہ علیہ وسلم كی تصدیق كرنا

جو خبر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے اس كی تصدیق كرنا،اور جن كاموں كے كرنے كا آپ نے حكم دیا ہے اس میں آپ كی پیروی كرنا ،اور جن كاموں سے آپ نے روكا ہے یا ڈانٹا ہے اس سے اجتناب كرنا اوربچنا،اور جائز طریقوں سے ہی اللہ كی عبادت كرنا،جیسا كہ اللہ كا ارشاد ہے : ﴿وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا ﴾ [الحشر: 7]. (اور تمہیں جو کچھ رسول دے لے لو، اور جس سے روکے رک جاؤ )

3- آپ صلی اللہ علیہ وسلم كی لائی ہوئی شریعت كو قبول كرنا

نبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم كی لائی ہوئی شریعت كو قبول كرنا ہم سب پر واجب ہےاور ایسے ہی آپ كی سنت كی پیروی بھی ہمارے اوپر لازم ہے ،اور ہمارے اوپریہ بھی لازم ہے كہ آپ كی ہدایات كو عزت و تعظیم كا مقام دیں ،جیسا كہ اللہ تعالی كا ارشاد ہے: ﴿فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴾ [النساء: 65]. ( سو قسم ہے تیرے پروردگار کی! یہ مومن نہیں ہو سکتے، جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، پھر جو فیصلے آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں اور کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم كے حكم كی مخالفت سے ڈرنا

آپ صلی اللہ علیہ وسلم كے حكم كی مخالفت كرنے سے ہمیں بچنا واجب ہے اس لئے كہ آپ كے حكم كی مخالفت فتنہ ، گمراہی اور دردناك عذاب كا سبب ہے ،اللہ تعالی كا فرمان ہے : ﴿فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴾ [النور: 63].(سنو جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہیئے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آ پڑے یا انہیں درد ناک عذاب نہ پہنچے )

5-آپ صلی اللہ علیہ وسلم كی محبت كوكسی بھی بشر كی محبت پرمقدم كرنا

ہمارے لئے نبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم كی محبت كو اپنی ذاتی محبت ،باپ و اولاد كی محبت،نیز تمام مخلوقات كی محبت پرمقدم كرنا واجب ہے ،انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں كہ نبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،«لا يؤمن أحدكم، حتى أكون أحب إليه من والده وولده والناس أجمعين» البخاري (15)،( تم میں سے کوئی شخص ایماندار نہ ہو گا جب تک اس کے والد اور اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ اس کے دل میں میری محبت نہ ہو جائے) ایك دوسری روایت میں یوں ہے وقال عمر بن الخطاب رضي الله عنه : يا رسول الله، لأنت أحب إلي من كل شيء إلا من نفسي، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «لا، والذي نفسي بيده، حتى أكون أحب إليك من نفسك» فقال له عمر: فإنه الآن، والله، لأنت أحب إلي من نفسي، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «الآن يا عمر». (البخاري 6632).عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ مجھے ہر چیز سے زیادہ عزیز ہیں، سوا میری اپنی جان کے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ (ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا) جب تک میں تمہیں تمہاری اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز نہ ہو جاؤں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: پھر واللہ! اب آپ مجھے میری اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں، عمر! اب تیرا ایمان پورا ہوا۔

6-اس پرایمان كہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں تك رسالت پہونچا دی

اس بات پر ایمان لانا واجب ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےكامل رسالت لوگوں تك پہنا دی ،اوراللہ كی دی ہوئی امانت كو ادا كردیا،اورامت كی خیرخواہی كی ،سارے بھلائی كے كاموں كی جانب امت كی رہنمائی فرمائی اوراس كی ترغیب دی ،اور شركے تمام كاموں سے امت كو روكا اور اس سے ڈرایا،اللہ تعالی كا ارشاد ہے : ﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ﴾ [المائدة: 3]. (آج میں نے تمھارے لیے تمھارا دین کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمھارے لیے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کر لیا)

حجۃ الوداع كے موقعہ پر جب اللہ كے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ كرام كے ایك بہت بڑے مجمع كو خطاب كیا اسی دن صحابہ كرام نےآپ صلی اللہ علیہ وسلم كے دین كی تبلیغ كی گواہی دے دی تھی ،جیسا كہ جابر رضی اللہ عنہ كی حدیث میں ہے كہ نبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم نے كہا : «وأنتم تُسْألون عني، فما أنتم قائلون؟» قالوا: نشهد أنك قد بلغت وأديت ونصحت، فقال بإصبعه السبابة، يرفعها إلى السماء وينكتها إلى الناس: "اللهم اشهد، اللهم اشهد" ثلاث مرات. مسلم (1218). میرا حال پوچھا جائے گا پھر تم کیا کہو گے؟“ تو ان سب نے عرض کی کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ بیشک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کا پیغام پہنچایا اور رسالت کا حق ادا کیا اور امت کی خیر خواہی کی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا اپنی انگشت شہادت (کلمہ کی انگلی) سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے آسمان کی طرف اٹھاتے تھے اور لوگوں کی طرف جھکاتے تھے اور فرماتے تھے: ”یا اللہ! گواہ رہو، یا اللہ! گواہ رہو، یا اللہ! گواہ رہو۔“ تین بار یہی فرمایا اور یونہی اشارہ کیا

كامیابی سے آپ نے درس مكمل كیا


امتحان شروع كریں