تعلیم كو فالو اپ كریں

اب تك آپ نے انڑی كے لئے رجسٹریشن نہیں كیا
اپنی ترقی كے فالواپ كے لئے اور پوائنٹس اكٹھا كرنے كے لئے ،اور مسابقے میں شركت كے لئے منصہ تاء میں فورا رجسٹریشن كریں ،رجسٹرد ہونے كے بعد جن موضوعات كی آپ تعلیم حاصل كررہے ہیں آپ اس كی الكڑانك سرٹیفیكیٹ حاصل كریں گے

موجودہ قسم وبائیں اور بیماریاں

سبق: وبا عبرت و نصیحت حاصل كرنے كا سامان ہے

امراض اور وباووں كے نزول میں بہت سی ایسی عبرتیں اور نصحتیں ہیں ، اس پر تو وہی متنبہ ہوتے ہیں جن اہل ایمان كی بصیرت كو اللہ روشن كردیتا ہے ،اس سبق میں آپ كو بعض ایسی عبرتوں كے متعلق معلومات دی جائےگی جو مومنین كے ایمان میں اضافہ پیدا كرتی ہیں

وباؤں میں پنہا وہ عبرت و موعظت جو اللہ عزوجل سے دلوں كو جوڑتے ہیں اس كی معرفت

آزمائش اور وبائیں یہ تقدیر الہی میں سے ہیں جولوگوں پر چاہےوہ مسلم ہوں یا كافر سب پر نازل ہوتی ہیں ،لیكن آزمائش كے وقت ایك مسلمان كی حالت اس كے غیر كی حالت جیسی نہیں ہوتی،وہ اس كے ساتھ ایسا معاملہ كرتا جس كا حكم اس كے رب نے اسے دیا ہے ،یعنی صبركرتاہے اور اس كے واقع ہونے سے پہلے اسے ہٹانے كے لئے جائز اسباب كو بروئے كار لاتا ہے ،اور اس كے نازل ہوجانے كےبعد اللہ سے اس كی شفا كے حصول كے لئے درخواست كرتا ہے۔

انہوں نےاللہ كی كما حقہ قدر نہیں كی

كمزور مخلوق كے سبب وبا كے انتشار میں اعلانیہ خیال كیا جاتا ہے ،اور دلوں میں دہشت اور ڈر پیدا كیا جاتا ہے ،جیسا كہ كروناكی بیماری میں اس كا ملاحظہ ہوا ہے ،یہ اللہ كی قدرت عظیم اور مخلوق كی كمزوری كی پہچان ہے ،وہ جتنی بھی ترقی حاصل كرلیں اور ٹكنالوجی كے مالك بن جائیں پھر بھي وہ كمزوری اور بشری لاچاری كے دائرے سے باہر نہیں نكل سكتے،اور یہ اس بات كی دلیل ہے كہ اللہ ہی مضبوط قوتوں والا ہے ،جسے زمین و آسمان كی كوئی بھی چیز عاجز و لاچار نہیں بنا سكتی

قضا اور قدر حق ہے

اللہ نے جو چاہا وہی ہوا، اور جو نہیں چاہا وہ نیہں ہوا،اور اسی قبیل سے ہے مصبیتوں و وباؤں كا آنا جانا، جیسا كہ اللہ كا ارشاد ہے :کوئی مصیبت نہ زمین پر پہنچتی ہے اور نہ تمھاری جانوں پر مگر وہ ایک کتاب میں ہے، اس سے پہلے کہ ہم اسے پیدا کریں۔ یقینا یہ اللہ پر بہت آسان ہے

مسلمانوں كا یہ اعتقاد ہے كہ مخلوق كی پیدائش سے پہلے كائنات میں تمام واقع ہونے والی چیزوں كو اللہ نے مقدر كیا ہے اور لكھ دیا ہے ،اور اسی اعتقاد نے انہیں گھبراہٹ كے نزول كے وقت مطمئن و ثابت قدم بنا دیا ہے ، اس لئے وہ اللہ كے فیصلے كا شرح صدر كے ساتھ استقبال كرتے ہیں

نصیحت و عبرت حاصل كرنا

مصیبتوں كے اترنے كے وقت بے یار و مددگار محسوس كرنا یہ عبرت و نصیحت پكڑے بغیر لوگوں كا افواہوں میں مشغول ہونا ہے ،بلاؤں كے آنے اور وباؤں كے پھیلینے سے عبرت و نصیحت حاصل كرنا ایك چھوٹی ہوئی سنت ہے اور عظیم عبادت ہے ،حلیۃ الاولیاء میں ابو درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : ایك گھنٹہ تفكر و تدبر كرنا پوری رات كے قیام سے بہتر ہے

ایك مسلمان كا مصائب اور آزمائشوں سے دوچار ہونے كے چند حالات ہیں :

١
سياه كاري كا انكار اور بلندی درجات:اس كے ساتھ بندہ ایمان ، یقین اور صبر و ثابت قدمی كا محتاج ہوتا ہے
٢
نصیحت كرنا: اس كے ساتھ ایك مسلم غفلت و گمراہی اور اللہ سے دوری كی بیداری كا محتاج ہوتا ہے
٣
سزا:اس وقت توبہ ، گریہ و زاری اور كثرت سے اللہ كی فرمانبرداری لازم ہے

اللہ سے دعا كے ذریعہ گریہ وزاری اور عاجزی و انكساری كرنا :

مصیبتوں كے آنے كے وقت كی سب سے بڑی عبادت: گریہ و زاری، فرمانبرداری ، عاجزی و انكساری كی شكل میں اللہ كی بندگی ، مدد طلب كرنے ،اور مصیبت و بلاء كے چھٹنے كی درخواست صرف ایك اللہ سے كرنے كی بندگی ، جیسا كہ اللہ كا ارشادہے ﴿ فَلَوْلَا إِذْ جَاءَهُم بَأْسُنَا تَضَرَّعُوا وَلَٰكِن قَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾ (الأنعام 43)(پھر انھوں نے کیوں عاجزی نہ کی، جب ان پر ہمارا عذاب آیا اور لیکن ان کے دل سخت ہوگئے اور شیطان نے ان کے لیے خوش نما بنا دیا جو کچھ وہ کرتے تھے) سچي دعا سے آسمان كے دروازے كھول دئیے جاتے ہیں ،پردے ہٹ جاتے ہیں ، دوریاں سمیٹ دی جاتی ہیں ، رحمن كی قربت حاصل ہو جاتی ہے ، جیسا كہ اللہ كا فرمان ہے ﴿ وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ ﴾. (البقرة: 186).(اور جب میرے بندے تجھ سے میرے بارے میں سوال کریں تو بے شک میں قریب ہوں، میں پکارنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے، ) وہب بن منبہ كا قول ہے ،دعاؤں كو باہر لانے كے لئے بلائیں آتی ہیں

ابن كثیر رحمہ اللہ نے آیت كی تفسیر كرتے ہوئےیوں فرمایا﴿ فلولا إذ جاءهم بأسنا تضرعوا ﴾( پھر انھوں نے کیوں عاجزی نہ کی، جب ان پر ہمارا عذاب آیا )یعنی جب ہم نے انہیں اس عذاب سے آزمایا تو انہوں نے ہم سے عاجزی كیوں نہیں كی ، اور ہم سے لو كیوں نہیں لگایا ،﴿ ولكن قست قلوبهم ﴾؛(اور لیکن ان کے دل سخت ہوگئے )یہنی ان كے دل نہ تو نرم ہوئے اور نہ ہی جھكے ﴿ وزين لهم الشيطان ما كانوا يعملون ﴾؛( اور شیطان نے ان کے لیے خوش نما بنا دیا جو کچھ وہ کرتے تھے)یعنی شرك اور گناہوں كے ذریعہ

وہ اس کی وجہ سے ہے جو تمھارے ہاتھوں نے کمایا

سب سے بڑا دھوكا اور اللہ تعالی كے مكر سے سلامتی اس میں ہے كہ ان بیماریوں اور مصیبتوں كے آنے كے وقت ہمارا یہ اعتقاد ہو كہ ہماری آخری تفكیر گناہوں او رآزمائش كے درمیان پائے جانے والے رشتے كے وجود كے بارے میں ہو ،اس كے باوجود كہ قرآنی تسلیم شدہ بات ہے اور بیشتر آیتوں میں اس كی تاكید بھی ملے گی ، اللہ كا ارشادہے ﴿ أَوَلَمَّا أَصَابَتْكُم مُّصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُم مِّثْلَيْهَا قُلْتُمْ أَنَّىٰ هَٰذَا ۖ قُلْ هُوَ مِنْ عِندِ أَنفُسِكُمْ ۗ ﴾ (آل عمران: 165)( اور کیا جب تمھیں ایک مصیبت پہنچی کہ یقینا اس سے دگنی تم پہنچا چکے تھے تو تم نے کہا یہ کیسے ہوا؟ کہہ دے یہ تمھاری اپنی طرف سے ہے، )ایك دوسری جگہ اللہ نے فرمایا{وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ} (الشورى: 30).( اور جو بھی تمھیں کوئی مصیبت پہنچی تو وہ اس کی وجہ سے ہے جو تمھارے ہاتھوں نے کمایا )

اللہ اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے

آفتوں كے آنے اور بار باربحران لاحق ہونے كے وقت اہل ایمان پر اللہ كی مہربانی مختلق شكلوں میں نمودار ہوتی ، كبھی ان پر اسے ہلكا كركے ، اور كبھی برائی سے ان كی حفاطت فرما كر ، اور كبھی غیروں پر آئی ہوئی مصیبتوں سے انہیں بچا كر، اور كبھی مشكلات درپیش ہونے كے وقت اللہ كے فیصلے پر صبر و رضا كے پیكر بنا كر انہیں اپنی تو فیق سے نواز كر۔

شیخ سعدی رحمہ اللہ اس آیت كی تفسیر میں فرماتے ہیں﴿ إِنَّ رَبِّي لَطِيفٌ لِمَا يَشَاءُ ﴾: (یوسف :100) (بے شک میرا رب جو چاہے اس کی باریک تدبیر کرنے والا ہے) یعنی و اپنی بھلائی و احسان بندے تك اس طرح پہونچا دیتا ہے كہ اسے پتہ بھي نہین چلتا،اور اور بندے كے ناپسندیدہ امور سے اسے بلند منازل تك پہونچا دیتا ہے

اللہ عز وجل پر بھروسہ كرنا:

مصیبت و آزمائشوں سے درگذر كی عظیم راہیں اللہ پر حسن توكل اور كامل اعتماد ہے،آپ جلد ہی مصیبتوں سے چھٹكارے پر یقین ركھیں ،اور اپنے آس پاس كے لوگوں میں نیك فال كو پھلائیں اور بے صبری و بد فالی سے بچیں ، تو دونوں آسانیوں كی سختی تمہارے اوپر غالب نہیں ہوگی اللہ كا فرمان ہے ﴿ فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا * إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا ﴾ (الشرح: 5، 6).(پس بے شک ہر مشکل کے ساتھ ایک آسانی ہے۔ [5] بے شک اسی مشکل کے ساتھ ایک اور آسانی ہے)

اے مسلمانو! اپنے بچاؤ کا سامان لے لو (النساء:71)

اس كائنات میں اللہ نے اپنا ایك نظام بنایا ہے كہ برائیوں كو دور كرنے كے لئے ممكن جائز مادی اسباب اختیار كریں ،اور اس كا استعمال نبیوں نے اور نیك لوگوں نے كیا ہے ،اور اس میں اللہ پر كامل توكل ہے ، اور بھر پور ادائگی بندگی ہے

توكل كی حقیقت:اسباب كو بروئے كار لاتے ہوئے اللہ پر دل كو جمائے ركھناو، اللہ پر اعتماد ركھنا ، اور اسباب سے دوری بنانا یہ شریعت میں طعن و تشنیع اور عقل كی كمی ہے ، اور صرف اسباب پر اكتفا كرنا اور اللہ پر دل سے اعتماد نہ كرنا یہ توحید كے مخالف اور اسباب میں شرك كرنا ہے

یہ حیات دنیا متاع فانی ہے(غافر:39

پوشیدہ مخلوق ہے جس نے اہل دنیا كی نعمتوں ، لذتوں اور ان كے چین و سكون اور ان كی معیشت كو مكدر كردیا ہے ،تو كیا یہ كسی دانشمند كو زیب دیتا ہےچہ جائے كہ وہ مومن ہو كہ اس دنیا كو وہ اپنا وطن ، جائے استقرار بنالے ، اسی میں اطمینان حاصل كرے، اور اسی كے لئے باہم جنگ و جدال كرے ،اور اس كے ملبے كے لئے مقابلہ آرائی كرے

(اور مجھ سے ڈرو، اگر تم مومن ہو)(ال عمران:175)

اس میں كوئی شك نہیں ہے كہ یہ جراثیم اللہ كے كائناتی نشانیوں میں سے ہے جس كے ذریعہ اللہ اپنے بندوں كو ڈراتا ہے ،اور انہیں اس كے ذریعہ عبرت پكڑنے اور نصیحت حاصل كرنے كےلئے آگے ڈھكیلتا ہے ،اور ان میں بندگی خوف كو زندہ كرتا ہے ،اللہ ارشاد فرماتاہے : ﴿ وَمَا نُرْسِلُ بِالآيَاتِ إِلا تَخْوِيفًا ﴾ (الإسراء: 59).(ور ہم نشانیاں دے کر نہیں بھیجتے مگر ڈرانے کے لیے)

خوف كی بندگی كو زندہ كرنااللہ كی نشانیوں میں سے ہے

اللہ كی آیتوں كے ڈرنے كے تعلق سے نبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم كی رہنمائی ہے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب تیز ہوا چلتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر ڈر محسوس ہوتا تھا۔(البخاري 1034).

(پس جب تو فارغ ہو تو عبادت میں محنت کر) (الشرح:7)

وقت دنیا میں ایك مسلمان كا راس مال ہے ،وہ مال سے زیادہ عمدہ ، اور ہر قیمت سے زیادہ منہگاہے، ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے كہ اللہ كے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «نعمتان مغبونٌ فيهما كثيرٌ من الناس: الصحة والفراغ». (البخاري 6412).”دو نعمتیں ایسی ہیں کہ اکثر لوگ ان کی قدر نہیں کرتے، صحت اور فراغت۔“

دانشمند ہمیشہ اپنےوقت كو غنیمت سمجھتا ہے ،پریشانی اور بحران كے وقت اس پر اور زور دیتاہے ،پھر تو وہ اپنا سارا وقت ان چیزوں میں صرف كرتاہے جن سے اسے تقرب الہی حاصل ہوتا ہے ،ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں،وقت ضائع كرناموت سے زیادہ سخت ہے ،اس لئے كہ تضیع وقت آپ كو اللہ سے اور دار آخرت سے كاٹ دیتا ہے، اور موت تو صرف آپ كو دنیا اور دنیاوالوں سے كاٹ دیتی ہے

شنقیطی رحمہ اللہ اللہ كے اس فرمان كے بارے میں فرماتے ہیں :﴿فَإِذَا فَرَغْتَ فَانصَبْ﴾(پس جب تو فارغ ہو تو عبادت میں محنت کر )اس آیت نے فراغ كے مشكل كو حل كردیا جس نے پوری دنیا كو مشغول كر ركھا ہے ،لیكن اللہ نے ایك مسلمان كے وقت میں فراغ نہیں چھوڑا ہے ، اس لئے كہ یا تو وہ دنیا كے كاموں میں مشغول رہے یا پھر آخرت كے عمل مشغول رہے

كامیابی سے آپ نے درس مكمل كیا


امتحان شروع كریں