موجودہ قسم وبائیں اور بیماریاں
سبق: وباؤں كے ساتھ مسلمان كا كردار
ہم بھلی و بری تقدیر پر ایمان ركھتے ہیں ، اور یہ اركان ایمان كا ایك ركن ہے ،وبائی امراض، بیماریاں ، تباہیاں،اور پریشانیاں جیسی كوئ بھی چیز بندوں كو لاحق ہوتی ہیں تو یہ اللہ كی قضاء اور اس كے قدر سے ہے ،اور ہم اللہ كے قضاء(فیصلے) سے راضی ہیں ،ہم نہ تو اس سے ناراض ہوتے ہیں اور نہ ہی اس كا شكوہ كرتے ہیں اور نہ ہی چیخ و پكار كرتے ہیں، اللہ تعالی كا ارشاد ہے : ﴿ مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۗ وَمَن يُؤْمِن بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ ۚ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ﴾ (التغابن: 11).(کوئی مصیبت نہیں پہنچی مگر اللہ کے اذن سے اور جو اللہ پر ایمان لے آئے وہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے)
ایك مومن كا یہ اعتقاد ہے كہ كوئی بھي بیمار ی اپنی طاقت كے بل بوتے متعدی نہیں ہوتی ، بلكہ وہ اللہ كے حكم اور اس كی تقدیر یے ہوتی ہے ،اس كے باوجود ہمیں مادی طبی اور وقائی اسباب اختیار كرنے كاحكم دیا گیا ہے ،اور وبائی جگہوں اور بیماری لانے والے اسباب سے دوری بنائے ركھنے كا حكم ہے ،بیماروں سے ملنے جلنے كو ترك كركے احتیاط اور بچاؤ اختیار كرنے كا حكم ہے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: «لاَ عَدْوَى وَلاَ طِيَرَةَ، وَلاَ هَامَةَ وَلاَ صَفَرَ، وَفِرَّ مِنَ المَجْذُومِ كَمَا تَفِرُّ مِنَ الأَسَدِ» (البخاري 5707).(چھوت لگنا، بدشگونی لینا، الو کا منحوس ہونا اور صفر کا منحوس ہونا یہ سب لغو خیالات ہیں البتہ جذامی شخص سے ایسے بھاگتا رہ جیسے کہ شیر سے بھاگتا ہے۔)
وبائی بیماریاں كفار و منافقین كے لئے اللہ كی جانب سے غذاب معجل (جلدی والا) ہے ، اوریہ مومنوں كے لئے رحمت ہے ، كیونكہ اس سے ان كے درجات بلند ہوتے ہیں اور ان كے گناہ مٹتے ہیں ، جیسا كہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے طاعون کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ ایک عذاب ہے، اللہ تعالیٰ جس پر چاہتا ہے بھیجتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کو مومنوں کے لیے رحمت بنا دیا ہے۔ اگر کسی شخص کی بستی میں طاعون پھیل جائے اور وہ صبر کے ساتھ اللہ کی رحمت سے امید لگائے ہوئے وہیں ٹھہرا رہے کہ ہو گا وہی جو اللہ تعالیٰ نے قسمت میں لکھا ہے تو اسے شہید کے برابر ثواب ملے گا۔
ایسی صورت حال میں سركاری ایجنسیوں كی نصیحتوں كو قبول كرناہر مسلمان پر واجب ہے ،اور ذاتی مفاد پر مفاد عامہ كو مقدم كرنا ذمہ داری اٹھانا ہے ،اور ان تمام امور میں كواپریٹ كرنا ہےجو استقرار اور زندگی كو اس كے فطری حالت پر واپس لانے كی ضمانت دیتا ہے ،اللہ كا ارشاد ہے: ﴿ وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ﴾ (المائدة: 2). (نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو اور گناه اور ﻇلم و زیادتی میں مدد نہ کرو، )
وباؤں كے وقت حرام ہیں
اس میں كوئی شك نہیں ہے كہ افواہوں كا پھیلانا حرام كردہ جھوٹ میں شمار ہوتا ہے ،اور جیسا كہ یہ لوگوں میں دہشت پھیلانے كےاسباب میں سے ہے ،بڑی بات یہ ہے كہ غیر معتبر معلومات كو نقل نہ كرنےكا حرص كریں ،اللہ نے منافقین كے صفات بیان كرتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ ۖ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَىٰ أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ ۗ ﴾ (النساء: 83).( جہاں انہیں کوئی خبر امن کی یا خوف کی ملی انہوں نے اسے مشہور کرنا شروع کر دیا، حاﻻنکہ اگر یہ لوگ اسے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اور اپنے میں سے ایسی باتوں کی تہہ تک پہنچنے والوں کے حوالے کر دیتے، تو اس کی حقیقت وه لوگ معلوم کر لیتے جو نتیجہ اخذ کرتے ہیں)
اسلام نے ذخیرہ اندوزی اور دھوكا كو ، اور لوگوں كے كھانے كی چیزوں میں دام بڑھانے اور كھیل كرنے كو حرام كیا ہے ،اور بالخصوص بحرانی كیفیت میں ،اور یہ باطل طریقے ، خیانت كركے لوگوں كا مال كھانے كے قبیل سے ہے ، اور امانتوں كو ضائع كرناہے ،اور نفس كو حقیر و كمتر بنانا ہے ،اللہ كے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : «من احْتَكرَ حُكْرَةً يريدُ أن يُغْلِيَ بها على المسلمين فهو خاطِئٌ». (المسند 8617).(جس نے مال كو ڈمپ كرلیا تاكہ اس كے ذریعہ مسلمانوں پر ریٹ مہنگا كردے،تو وہ گنہ گار ہے)
مریض آدمی سے ایك صحت مند آدمی كی طرف جان بوجھ كر بیماری منتقل كرنا ، اور وہ عمدا كرنے كی جو بھی شكل ہو وہ عمل حرام ہے ،اور اسے كبیرہ گناہوں میں سے شمار كیا جائے گا،اور یہ دنیاوی سزا كو واجب كرنے والا ہے ،اور فعل كے جسامت كے مقدار اور افراد پر اس كے اثرات اور پوری سوسائٹی پر اسكی تاثیر كو دیكھتے ہوئے الگ الگ سزائیں ہوں گی ،
غیر میں جان بوجھ كر وبائی بیماری منتقل كرنے والے كی سزا
4-بیماری كو گالی دینا
بخار كو گالی دینے سے اللہ كے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے فعن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لأم السائب: «لا تَسُبي الحُمَّى، فإنها تُذْهِبُ خطايا بني آدم، كما يُذْهِبُ الكِيْرُ خَبَثَ الحديد» (مسلم 2575). سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام السائب یا ام المسیب کے پاس گئے تو پوچھا: ”اے ام السائب یا ام المسیب! تو کانپ رہی ہے کیا ہوا تجھ کو؟“ وہ بولی: بخار ہے، اللہ اس کو برکت نہ دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مت برا کہہ بخار کو کیونکہ وہ دور کر دیتا ہے آدمیوں کے گناہوں کو جیسے بھٹی لوہے کا میل دور کر دیتی ہے۔“