تعلیم كو فالو اپ كریں

اب تك آپ نے انڑی كے لئے رجسٹریشن نہیں كیا
اپنی ترقی كے فالواپ كے لئے اور پوائنٹس اكٹھا كرنے كے لئے ،اور مسابقے میں شركت كے لئے منصہ تاء میں فورا رجسٹریشن كریں ،رجسٹرد ہونے كے بعد جن موضوعات كی آپ تعلیم حاصل كررہے ہیں آپ اس كی الكڑانك سرٹیفیكیٹ حاصل كریں گے

موجودہ قسم وبائیں اور بیماریاں

سبق: وباؤں كے متعلق احكام

اس سبق میں وباؤں او ربیماریوں كے متعلق مسائل اور بہت سے فقہی احكام پیش كئے جائیں گے

وباؤں او ربیماریوں كے متعلق اہم نصیحتیں اور بعض احكام كی جانكاری دی جائےگی 

1-علاج كرانا اور ویكسینشن لینا

بیماری واقع ہونے سے پہلے بچاؤ كی خاطر ویكسینشن لینا جائزہے ،او رایسا كرنا اللہ پر توكل كے خلاف نہیں ہے ،جیسا كہ حدیث صحیح میں اللہ كے رسول كا فرمان ہے : «مَنْ تَصَبَّحَ كُلَّ يَوْمٍ سَبْعَ تَمَرَاتٍ عَجْوَةً، لَمْ يَضُرَّهُ فِي ذَلِكَ اليَوْمِ سُمٌّ وَلاَ سِحْرٌ» (البخاري 5445، ومسلم 2047)،(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے ہر دن صبح کے وقت سات عجوہ کھجوریں کھا لیں، اسے اس دن نہ زہر نقصان پہنچا سکے گا اور نہ جادو۔)

2-بیماروں میں مشتبہ شخص كو الگ كرنا

شریعت نے تندرست لوگوں كو مریضوں سے میل و ملاپ سے بچنے پر ابھآرا ہے ،اللہ كے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لا يُورِدَنَّ مُمْرِضٌ على مُصِحٍّ». (البخاري 5771، ومسلم 2221).( کوئی شخص اپنے بیمار اونٹوں کو کسی کے صحت مند اونٹوں میں نہ لے جائے)

اس وجہ سے وہ اس مریض كے پاس جانے سے دور رہے گا جسے متعدی بیماری لاحق ہے ،لیكن اس كے گھر والوں سے ملنا،اور اس كے بارے میں ان سے پوچھ تاچھ كرنا ،اس كے لئے دعا كرنا ،اور اس كے دوا وعلاج میں مدد كرنا جتنا ہوسكے مال و جاہ سے اس كی مدد كرے ، لیكن بیمارے كے پھیلنے سے بچاؤ كے اسباب كو اختیاركرنے كے ساتھ ساتھ،

3-جس شہر میں وبائی بیماری ہو وہاں آنا و جانا منع ہے

جس شہر میں طاعون(حیضہ و كالرا) كی وباء ہو اس شہر میں داخل ہونا اور وہاں سے نكلنا جائز نہیں ،اور اس بات پر عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ كی حدیث ثبوت ہے كہ نبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إذا سَمِعتُم به بأرضٍ، فلا تَقْدمُوا عَلَيه، وإذا وقعَ بأرضٍ وأنتُم بها، فلا تخرُجُوا فِرارًا مِنه». (البخاري 5729، ومسلم 2219).(جب تم کسی سر زمین میں (وبا کے متعلق) سنو تو وہاں نہ جاؤ اور جب ایسی جگہ وبا آ جائے جہاں تم خود موجود ہو تو وہاں سے مت نکلو۔) اور یہی جمہور علماء كی رائ ہے ،جس شہر میں اس نوعیت كے وباء كا وجود ہو اس شہر كا سفر كرنا یا وہاں سے بیماری كی وجہ سے بھاگ نكلنا جائز نہیں

4-باجماعت نماز چھوڑنا

مردوں پر جماعت كے ساتھ نماز ادا كرنا واجب ہے ،لیكن اہل علم نے ذكر كیا ہے كہ اگر معتبر عذر شرعی پائی جائے تو یہ واجب ساقط ہو جاتا ہے ،اور اس بات كا ثبوت عائشہ رصی اللہ عنہا كی روایت ہے ، فرماتی ہیں كہ جب نبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار پڑے تو آپ لوگوں كو نماز پڑھانے سے پیچھے رہ كر بولے : «مُرُوا أبا بكر فليُصَلِّ بالناس». (البخاري 664، ومسلم 418).( ابوبکر سے کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں) اس سے معلوم ہوا كہ ایك مسلمان بیماری یا ظاہری مشقت كی وجہ سے معذور ہو تو مسجد میں باجماعت نماز چھوڑنا اور تنہا نماز پڑھنا اس كے لئے مباح و جائز ہے

5-گھر میں مسجد بنانا

جب فرض نماز كسی عذر سے فوت ہوجائے تو اس كی ادائیگی اور نوافل كی ادائیگی كی خاطر ايك مسلمان كے لئے اپنے گھر میں مسجد بنانا مستحب ہے ، اور اس كی رہنمائی ہمیں نبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عتبان بن مالك رضی اللہ عنہ كی حدیث سے مل رہی ہے جس كی روایت امام مسلم نے كی ہے ،كہ عتبان رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ذكر كیا كہ ان كی نگاہ كمزور ہوگئی ہے، اورجب پانی كا تیز بہاؤ آتا ہے اور میرے اور میری قوم كے درمیان ایك وادی ہے تو میں اپنی قوم كی مسجد تك جانے كی طاقت نہیں پاتا ہوں ،اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے گھر آنے اور اس میں نماز ادا كرنے كی درخواست كی ،تاكہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم كی نماز ادا كی گئی جگہ كو مسجد بنالیں ، آپ كی درخواست پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور وہاں آپ نے دو ركعت نماز ادا فرمائی

اور اسی طرح میمونہ رضی اللہ عنہا كے گھر میں ان كی ایك مسجد تیھی ،اور عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ كے گھر میں بھی ان كی ایك مسجد تھي،ہمارے مناسب ہے كہ ان نئے وقوع پذیر مسائل سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے گھروں میں ایك مسجد بنالیں

6-گھروں میں باجماعت نماز كی مشروعیت

جب مسجد میں نماز باجماعت ادا كرنا مشكل ہوجائے تو گھروں میں باجماعت نماز ادا كرنا مشروع ہے ،اور اس سے جماعت كا ثواب حاصل ہوگا،امام كے ساتھ نماز فوت ہونے كی صورت میں گھر میں نماز باجماعت قائم كرنے كا ثبوت بہت سے صحابہ سے ملتے ہیں ،جیسے عبداللہ بن مسعود ، و انس رضی اللہ عنہما اور ان دونوں كے علاوہ بھی ،

7-امامت كا حقدار كون؟

جب آپ گھر میں نماز باجماعت پڑھیں تو گھر والے كا امامت كرانا بہتر ہے ،اگر وہ امامت كے لئے آگے نہ بڑھے تو قرآن كے سب سے زیادہ پڑھنے والا ان كی امامت كرائے،اور اگر اس میں لوگ برابر ہوں تو نماز كے احكام كو زیادہ جاننے والا امامت كرائے ،اور اگر اس میں لوگ برابر ہوں تو ان میں جو عمر میں بڑا ہو وہ ان كی امامت كرائے

8-مقتدی كے كھڑے ہونے كی جگہ:

جب ایك مسلمان اپنے گھر میں نماز ادا كرے تو اگر مقتدی مردہے اور تنہا ہے تو سنت ہے كہ امام كے داہنے جانب كھڑا ہو ،اور اگر مرد مقتدین كی تعداد ایك سے زائد ہوتو سنت یہ ہے كہ وہ امام كے پیچھے كھڑے ہوں ،اور اگر عورت مقتدی ہو تو وہ پیچھے كھڑی ہوگی اور اگر مرد و عورتیں سب جمع ہو جائیں تو مرد حضرات امام كے پیچھے اور عورتیں ان كے پیچھے كھڑی ہوں گی

موقع:

ان جدید مسائل كے درپیش ہونے سے ہمیں ایك عظیم موقع ہاتھ لگا كہ ہم اپنے اہل خانہ كو نماز كی كیفیت او ر اس كی شروط كی تعلیم دے سكیں،اور انہیں طہارت اور اس سے جڑی مسائل كے احكام كو سمجھا سكیں ،اور انہیں اس كی وصیت كر سكیں

9-عورتوں كی نماز باجماعت

عورتوں كا گھروں میں جماعت كے ساتھ نماز پڑھنا مسنون ہے ،اور اس كا ثبوت ام ورقہ ، عائشہ ، اور ام سلمۃ رضی اللہ عنہن سے ملتا ہے ،اور عورتوں كا گھروں میں نماز باجماعت ادا كرنے كا اللہ كی جانب سے بڑا اجر و فضل ہے ،اور عورتوں كی امامت كرنے والی خاتون ان كے صف كے درمیان كھڑی ہوگی

10- متعدی بیماری كے شكار شخص كا جماعت و محفلوں میں جانا

وبائی بیماری كے شكار شخص پر لوگوں كے محفلوں میں جانا حرام ہے ،، كیونكہ اس سے لوگوں كو نقصان لاحق ہوگا ، اللہ تعالی فرماتا ہے : ﴿وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِينًا﴾. (الأحزاب: 58).( اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایذا دیں بغیر کسی جرم کے جو ان سے سرزد ہوا ہو، وه (بڑے ہی) بہتان اور صریح گناه کا بوجھ اٹھاتے ہیں)

ثابت شدہ شرعی اصول ہے :کسی کو نقصان پہنچانا جائز نہیں نہ ابتداء ً نہ مقابلۃ ً اس لئےاس بیماری كا شكار شخص كے لئے صحت مندوں سے گھلنا ملناجائز نہیں ،جیسا كہ اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: «لاَ يُورِدَنَّ مُمْرِضٌ عَلَى مُصِحٍّ» (البخاري 5771، ومسلم 2221). (کوئی شخص اپنے بیمار اونٹوں کو کسی کے صحت مند اونٹوں میں نہ لے جائے)

11-دوران نماز ماكس كا استعمال كرنا

دوران نماز نمازی كے لئے منہ ڈھكنا مكروہ ہے ،اور الل كے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے،لیكن ضرورت كے پیش نظر یا متعدی بیماری كے نقصان پہونچنے كے اندیشے كی وجہ سے ماكس وغیرہ كا استعمال كرسكتے ہیں

12-جمعہ كے دن كے احكام

نماز باجماعت كے معطل ہونے كی صورت میں جمعہ كے دن كے احكام باقی رہیں گے ،اس لئے نماز فجر میں سورہ سجدہ و سورہ انسان كی تلاوت مشروع رہے گي ،اور عصر كےبعد آخری لمحات میں دعاكی قبولیت كے وقت میں دعا باقی رہے گي ، اور جمعہ كے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر كثرت سے درود پڑھنا اور سورہ كہف كی تلاوت كرنا بھی باقی رہے گا،اس لئے كہ ان احكام كی شرعیت اصل ہے ، یہ نماز جمعہ كے تابع نہیں ہے

13-مصافحہ نہ كرنا

دونوں ہاتھ كی ہتھیلیاں ملا كے مصافحہ كرنا سنت ہے ، اللہ كے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : «ما من مسلمَين يلتَقِيانِ فيتَصافَحان إلا غُفِرَ لهما قبلَ أن يَفْتَرِقَا». (أبو داود 5212)،(حسن) (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب دو مسلمان آپس میں ملتے اور دونوں ایک دوسرے سے مصافحہ کرتے ہیں تو ان دونوں کے ایک دوسرے سے علیحدہ ہونے سے پہلے ہی ان کی مغفرت ہو جاتی ہے“۔) اگر مسلمان مصافحہ كرنے سے متعدی بیماری سے ڈرے تو صرف زبان سے سلام كرنے پر اكتفا كرلے،اور امید كی جاتی ہے كہ باذن اللہ اس كےلئے مصافحہ كا ثواب لكھا جائےگا

كامیابی سے آپ نے درس مكمل كیا


امتحان شروع كریں