تعلیم كو فالو اپ كریں

اب تك آپ نے انڑی كے لئے رجسٹریشن نہیں كیا
اپنی ترقی كے فالواپ كے لئے اور پوائنٹس اكٹھا كرنے كے لئے ،اور مسابقے میں شركت كے لئے منصہ تاء میں فورا رجسٹریشن كریں ،رجسٹرد ہونے كے بعد جن موضوعات كی آپ تعلیم حاصل كررہے ہیں آپ اس كی الكڑانك سرٹیفیكیٹ حاصل كریں گے

موجودہ قسم مالی لین دین

سبق: كرایہ پر دینا یا اجرت پر ركھنا

اس درس میں ہم اجارہ كے مفہوم اور اسلامی قانون میں اس كے بعض احكام كی جانكاری حاصل كریں گے،

  • اجارہ كا معنی اور اس كا حكم ،اور اس كی تشریع كی حكمت۔
  • اجارہ كے معاہدے اور اس كی شرطوں كی معرفت ۔
  • مزدوری اور مزدور كے قسموں كی معرفت۔
  • جن حالتوں میں اجارہ كا معاہدہ ختم ہو جاتا ہے اس كی معرفت ۔

اجارہ كا مفہوم

كسی عمل پر معاہدہ كرنا ، یا معلوم عوض دے كر مباح معلوم منفعت جو عین معلوم كے قبیل سے ہو یا كسی كے ذمہ میں ہو معلوم مدت تك كے لئے معاہدہ كرنا۔

اسلامی قانون میں كرایہ داری كا حكم

كرایہ پر دینا جائز اور مباح ہے ، اور اس كی دلیل قرآن عزیز اورسنت و اجماع امت ہے ، اور یہ فریقین كی جانب سے لازم اگریمنٹ ہے جب وہ پائے تكمیل كو پہنچ جائے ،اور یہ ہر لفظ سے واقع ہو جائے گا جو بھی اس كی طرف اشارہ كریں؛جیسے كوئی كہے كہ میں نے آپ كو اجرت پر ركھا یا كرایہ پر دیا ، یا اسی جیسے الفاظ جو عرف میں بولے جاتے ہیں ۔

كرایہ داری كے جواز كی چند دلیلیں

اللہ تعالی نے فرمایا: {قَالَتْ إِحْدَاهُمَا يَا أَبَتِ اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ} [القصص: 26].( ان دونوں میں سے ایک نے کہا کہ ابا جی! آپ انہیں مزدوری پر رکھ لیجئے، کیونکہ جنہیں آپ اجرت پر رکھیں ان میں سے سب سے بہتر وه ہے جو مضبوط اور امانت دار ہو )۔

عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا : "اسْتَأْجَرَ رَسُولُ اللهِ ﷺ وَأبُو بَكْرٍ رَجُلاً مِنْ بَنِي الدِّيلِ، هَادِياً خِرِّيتاً، وَهُوَ عَلَى دِينِ كُفَّارِ قُرَيْشٍ، فَدَفَعَا إِلَيْهِ رَاحِلَتَيْهِمَا، وَوَاعَدَاهُ غَارَ ثَوْرٍ بَعْدَ ثَلاثِ لَيَالٍ، فأتاهما بِرَاحِلَتَيْهِمَا صُبْحَ ثَلاثٍ" (البخاري 2264)(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بنو دیل کے ایک ماہر راہبر سے مزدوری طے کر لی تھی۔ وہ شخص کفار قریش کے دین پر تھا۔ ان دونوں حضرات نے اپنی دونوں اونٹنیاں اس کے حوالے کر دی تھیں اور کہہ دیا تھا کہ تین راتوں کے بعد صبح سویرے ہی سواروں کے ساتھ غار ثور پر آ جائے، تو وہ تیسری كی صبح كو ان دو انٹنیوں كو لیكر آپ دونوں كے پاس حاضر ہوا)۔

كرایہ داری كے مشروع ہونے كی حكمت

لوگوں كے معاش میں كرایہ داری كے بہت سے فوائد ہیں؛ كاری گروں كو كام كی ضرورت ہوتی ہے ، اور رہائش كے لئے گھر كی ، اور جگہوں كی خرید و فروخت كی ، اور ایسے ہی حمل و نقل سواری و نفع اٹھانے كے لئے جانوروں ، گاڑیوں اور مشینوں كی ضرورت ہوتی ہے ، اور بہت سے لوگ ایسےہیں جو ان چیزوں كے خریدنے كی طاقت نہیں ركھتے ہیں،ایسی حالت میں اجارہ كا جائز كرنا لوگوں كی آسانی اور وسعت كےلئے بڑا اہم ہے ، اور دونوں فریقوں كے تھوڑے سے مال كے عوض فائدہ اٹھانے كے ساتھ ساتھ ان كی ضروریات پوری ہونے كےلئے معاون و مددگار ہے ۔ فلله الحمد والمنة

اجارہ (كرایہ داری) كی قسمیں

١
وہ ایك متعین چیز ہو ، جیسے گھر ، یا دكان وغیرہ ۔
٢
ایك معلوم عمل پر مبنی ہو ؛بایں طور پر كہ گھر تعمیر كرنے كےلئے یا زمین كی جوتائی كےلئے یا دیگر كام كے لئے ایك شخص كو اجرت پرركھے۔

مزدور كی قسمیں

١
خاص مزدور
٢
مشترك مزدور

نجی یا خاص مزدور

اجیر وہی ہے جسے آدمی اپنے پاس كام كرنے كے لئے ایك مقررہ مدت كے لئے اجرت كے مقابل ركھے ، اس كے لئے غیر مستاجر كے پاس كام كرنا حلال نہیں ، اگر اس نے اس مقررہ مدت میں كسی غیر كے پاس كام كیا تو اس كے عمل كے مقدار اس مزدوری گھٹادی جائے گی ، اور وہ اس وقت اجرت كا حقدار ہوگا جب وہ اپنے آپ كو اس كے حوالے كردے ،اور عمل پرلگ جائے ،اور مدت مكمل ہونے سے پہلے اگر اجرت پر ركھنے والا شخص اجارہ كو كالعدم كردے تو اسے كامل اجرت دی جائے گی، جب كہ مرض یا بے بسی وغیرہ كا عذر نہ ہو،اگر ایسی بات ہے تو جتنی مدت اس نے عمل كی ہے صرف اسی كی اجرت دی جائے گی۔

مشتركہ مزدور

ایك سے زائد لوگ جس فائدہ میں مشترك ہوں ؛ جیسے لوہار ، پلمبر، رنگریز ،ٹیلر(درزی) جب یہ اپنے خاص حساب پر كام كررہے ہوں اور جو بھی ان سے كام كرنے كا مطالبہ كرے اس كے كام كو پكڑرہے ہوں ، تو ایسی صورت میں جس نے انہیں اجرت پر ركھا ہے اسےدوسروں كے كام سے روكنے كا حق نہیں ، اور صرف عمل كے مقابل ہی وہ اجرت كا مستحق ہوگا ۔

كرایہ داری كے معاہدہ كے اركان

١
دو معاہدہ كرنے والے
٢
عبارت
٣
فائدہ
٤
مزدوری

دو اگریمنٹ كرنے والے

اور ان دونوں سے مراد معاہدہ كے فریق (جسے اجرت پر ركھا گیا اور جس نے اجرت پر لیا ) جنہیں ایجاب و قبول كا حق ہے ۔

عبارت

یعنی ایجاب و قبول، وہ تصرف جو معاہدہ كے قانونی یا روایتی شكل میں قائم ہونے كی عبارت كو ثابت كرتا ہے ۔

منفعت

وہی اجارہ (كرایہ داری) كے معاہدہ كا مقصود ہے ؛چاہے وہ منفعت كی چیز آدمی ہو یا جانور ہو یا كوئی عینی چیز ہو ،تو یہی ہے جس پر معاہدہ ہوا ہے ۔

مزدوری

یہی وہ عوض ہے جو كہ كسی عینی چیز یا آدمی كے مقابل دیا جاتا ہے ، اور یہی وہ بیع كے عقد میں قیمت كے مقابلے میں ہوتا ہے ،

اجارہ (كرایہ داری ) كے صحیح ہونے كی شرطیں

١
دونوں معاہدہ كرنے والے جائز تصرف والے ہوں ، اس طور سے كہ معاہدہ كرنے والے پر یہ شرط لگائی جائے گی وہ بالغ و عاقل ہو بے وقوف نہ ہو ، اور تمیز كرنے والا ہو، اس لئے غیر ممیز بچے یا پاگل سے اجارہ كا اگریمنٹ كرنا درست نہیں ، ضروری ہے كہ معاہدہ كرنے والادكھانے كی صلاحیت سے مالا مال ہو ، یعنی پابند بنانے اور پابند ہونے كی صلاحیت كا مالك ہو ،
٢
منفغت كی جانكاری جیسے گھر كی رہائش یا آدمی كی خدمت
٣
مزدوری كی معرفت
٤
منفعت جائز ہو حرام نہ ہو ، اس لئے گانے كے لئے اجارہ درست نہیں ، یا گھر كو گرجا گھر بنانا یا اس دكان كو شراب بیچنے كی جگہ بنانا ۔
٥
كرایہ پر دی گئی جگہ كی مشاہدے یا صفت كے ذریعہ معرفت ، اور یہ كہ اس اجزاء پر نہیں بلكہ اس كے نفع پر معاہدہ كیا جائے ، اور یہ كہ وہ اسے سپرد كرنے كی طاقت ركھتا ہو، اور وہ جائز منفعت پر مشتمل ہو ، اور اجرت پر دینے والے كی ملكیت ہو ، یا اسے ایجار دینے كی اجازت حاصل ہو ۔
٦
كرایہ داری دونوں فریقوں كی رضامندی سے ہو
٧
دو فریقوں كے درمیان ایجاب و قبول حاصل ہو
٨
كرایہ كی مدت كی معرفت جیسے ایك مہینہ یا سال یا انہیں دونوں جیسے ۔
٩
ایجار میں دی گئی چیز ایسے عیب سے محفوظ ہو كہ جس سے فائدہ اٹھاتے وقت خلل واقع ہو جائے

اجرت كے واجب ہونے كا وقت

اجرت معاہدہ سے واجب ہو جاتی ہے ، اور اجارہ كی مدت ختم ہونےكے بعد اجرت ادا كرنا واجب ہے

اور اگر وہ دونوں جلدی یا تاخیر یا قسط وار پر راضی ہو جائیں تو یہ جائز ہے ، اور مزدور اپنی مزدوری كا اس وقت حقدار ہو جاتا ہے جب وہ ٹھیك سے اپنا كام مكمل كرلے ۔

اگر ایجار پر لی گئی جگہ كو كرایہ پر دی گئی ہو تو منفعت پورا ہونے كے بعد وہ اجرت كا حقدار ہوگآ ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ نبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت كرتےہیں كہ آپ نے فرمایا: «قالَ اللهُ: ثَلاثَةٌ أنَا خَصْمُهُمْ يَوْمَ القِيَامَةِ: رَجُلٌ أعْطَى بِي ثُمَّ غَدَرَ، وَرَجُلٌ بَاعَ حُرّاً فَأكَلَ ثَمَنَهُ، وَرَجُلٌ اسْتَأْجَرَ أجِيراً فَاسْتَوْفَى مِنْهُ وَلَمْ يُعْطِ أجْرَهُ». (البخاري 2227)( اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ تین طرح کے لوگ ایسے ہوں گے جن کا قیامت کے دن میں مدعی بنوں گا، ایک وہ شخص جس نے میرے نام پر عہد کیا اور وہ توڑ دیا، وہ شخص جس نے کسی آزاد انسان کو بیچ کر اس کی قیمت کھائی اور وہ شخص جس نے کوئی مزدور اجرت پر رکھا، اس سے پوری طرح کام لیا، لیکن اس کی مزدوری نہیں دی)۔

كرایہ كا معاہدہ ختم ہونے كی حالتیں

١
مقررہ ایجار دی گ‍ئی چیز كا ہلاك ہونا ؛جیسے گھر ، یا گاڑی اور اسی جیسی چیزیں ۔
٢
كرایہ كی مدت ختم ہونا
٣
معاہدہ توڑ دینا ، بایں طور پر كہ دو فریقوں میں سے ایك دوسرے سے معاہدہ توڑنے كا مطالبہ كرے اور وہ اسے توڑ دے ۔
٤
غیر مساجركے سبب كرایہ پر لی گئی چیز كے اندر عیب پیدا ہونا ؛جیسے گھر منہدم ہو جانا ، مشین خراب ہوجانا ، اور اسی طرح،

كرایہ داری دو فریقوں میں سےكسی ایك كی موت كی وجہ سے كالعدم نہیں ہوگی ، اور ایسے ہی ایجار میں لی گ‍ئی چیز كے بیچ دینے سے ایجار ختم نہیں ہوگا ، لیكن اگر كسی كو خاص عمل كے لئے اجرت پر ركھا گیا تھا ، پھر وہ مر جائے تو اجارہ كالعدم ہو جائے گا ، اور جب اجارہ كی مدت ختم ہو جائے گی تو ایجار پر لینے والا اپنا ہاتھ اٹھالے گا ، اور اگر ایجار میں دی گئی چیز قابل نقل ہے تو اسے ایجار دینے والے كیے حوالے كردیا جائے گا ۔

كرایہ داری اور بیع كے درمیان كے بعض فرق

١
اجارہ میں جس چیز پر معاہدہ ہوا ہے یعنی منفعت وہ ایك بار میں پورا نہیں ہوتا ، لیكن رہی بات بیوع میں تو بیچی گئی چیز ایك ہی بار میں پوری ہو جاتی ہے ۔
٢
ایسا نہیں ہے كہ ہر چیز جس كا اجارہ دینا جائز ہو اس كا بیچنا بھی جائز ہو ، اس طرح سے كہ آزاد آدمی كا اجارہ جائز ہے ، كیونكہ یہاں اجارہ كام كا ہے ، اور جبكہ اس آزاد آدمی كا بیچنا جائز نہیں كیونكہ وہ كوئی مال نہیں ہے ۔
٣
باوجود اس كے كہ اجارہ بیع كے قبیل سے ہے ، اس لئے كہ یہ الگ ہوجاتا ہے كیونكہ اس كی جگہ منفعت كی بیع ہے نہ كی اصل چیز كی ، جیسا كہ بیع میں ہوتا ہے ۔
٤
اجارہ مستقبل میں تكمیل و اضافہ كو قبول كرتا ہے اور رہی بات بیع كی تو وہ صرف تكمیل كے ساتھ ہی ہوتا ہے ۔

كامیابی سے آپ نے درس مكمل كیا


امتحان شروع كریں