موجودہ قسم مالی لین دین
سبق: قرض
اللہ عزوجل نے اپنے عدل و حكمت سے لوگوں كے درمیان روزیاں تقسیم فرمائی ہے ، توان كچھ مالدار ہیں تو كچھ غریب ، كچھ صاحب اقتدار تو كچھ محتاج ہیں ، اور ہمیشہ سے لوگوں كی خصلت رہی ہے كہ وہ اپنی ضروریات پوری كرنے كےلئے ایك دوسرے سے قرض لیتے ہیں ، اوراس لئے كہ اللہ كی شریعت كامل وشامل ہے، جس نے قرض سے متعلق متعدد احكام بیان كیا ہے ، اور اللہ نے قرآن كریم كی سب سے طویل آیت میں خصوصیت كے ساتھ قرض كو بیان فرمایا ہے ، اور وہی وہ سورہ بقرہ كی آیت نمبر 282 ہے ، اور اس كا نام قرض والی آیت ركھا گیا ہے ۔
قرض كی تعریف
قرض كہتے ہیں ایسے شخص پر شفقت كھاتے ہوئے مال دینا جو اس سے فائدہ اٹھائے اور اس كا بدل واپس كرے ،
قرض كا حكم
قرض دینے والے كے لئے قرض دینا مستحب ہے اور قرض لینے والے كے لئے قرض لینا مباح ہے ، اور قرض لینا ناپسندیدہ مسئلہ كے باب سے نہیں ہے ، كیونكہ قرض لینے والا مال اس لئے لیتا ہے تاكہ اپنی ضروریات پوری كرنے میں اس سے فائدہ اٹھائے ، اور پھر اس كا بدل واپس كردے۔
رہی بات ایسی حالت كی كہ قرض قرض دینے والے كے لئے نفع لائے تو وہ نفع حرام سود ہے ، گویا كہ وہ اسے مال قرض اس شرط پر دے رہا ہےكہ وہ اسے زیادہ لوٹائے ، اور اسی طرح اگر اس قرض سے دوسرا عقد جوڑ دے جیسے بیع وغیرہ تو وہ بھی حرام ہے ، اس لئے كہ قرض دینا اور بیع كرنا حلال نہیں ۔
لوگوں پر شفقت و نرمی كی خاطر ، نیز ان كے معاملے كو آسان بنانے ، اور ارباب حاجت كی درد مندی كے لئے اسلام نے قرض كو جائز بنایا ،اور یہ قرض دینے والے كے لئے تقرب الہی كے ابواب میں سے ایك اہم باب ہے،اور حاجت جتنی سخت ہوتی ہے تو اس كا ثواب بھی اتناہی بڑا ہوتا ہے ۔
قرض چاہے چھوٹا ہو یا بڑا ہو اسے لكھ كر اور اس پر گواہ بنا كر اس كی توثیق كرنا مستحب ہے ، تو اس كی نوعیت ، مقدار اور مدت تحریر كی جائےگی، تاكہ قرض كی حفاظت ہو سكے اور قرض لینے والے كی موت یا اس كے بھولنے یا انكار كی صورت میں اپںے حق كے ضائع ہونے سے قرض دینے والا مطمئن ہو سكے ، جیسا كہ اللہ تعالی نے قرض والی آیت میں فرمایا: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى فَاكْتُبُوهُ وَلْيَكْتُبْ بَيْنَكُمْ كَاتِبٌ بِالْعَدْلِ وَلَا يَأْبَ كَاتِبٌ أَنْ يَكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللَّهُ فَلْيَكْتُبْ وَلْيُمْلِلِ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ وَلَا يَبْخَسْ مِنْهُ شَيْئًا} [البقرة: 282] ( اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب آپس میں ایک مقرر مدت تک قرض کا لین دین کرو تو اسے لکھ لو اور ایک لکھنے والا تمھارے درمیان انصاف کے ساتھ لکھے اور کوئی لکھنے والا اس سے انکار نہ کرے کہ لکھے جیسے اللہ نے اسے سکھایا ہے، سو اسے لازم ہے کہ لکھ دے اور وہ شخص لکھوائے جس کے ذمے حق (قرض) ہو، اور اللہ سے ڈرے جو اس کا رب ہے اور اس میں سے کچھ بھی کم نہ کرے)اور اسی آیت میں اللہ تعالی نے مزید فرمایا: {وَلَا تَسْأَمُوا أَنْ تَكْتُبُوهُ صَغِيرًا أَوْ كَبِيرًا إِلَى أَجَلِهِ ذَلِكُمْ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ وَأَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَأَدْنَى أَلَّا تَرْتَابُوا} [البقرة: 282].(اور اس سے مت اکتائو وہ چھوٹا (معاملہ) ہو یا بڑا کہ اسے اس کی مدت تک لکھو۔ یہ کام اللہ کے نزدیک زیادہ انصاف والا اور شہادت کو زیادہ درست رکھنے والا ہےاور زیادہ قریب ہے کہ تم شک میں نہ پڑو)۔
قرض كے صحیح ہونے كی شرطیں
دوسرے سے مالی قرض لینے والے كے لئے اس كے ادا كرنے كا عزم كرنا واجب ہے ،اور یہ آدمی پر حرام ہے كہ وہ لوگوں كے اموال لے اور وہ اسے انہیں واپس دینے كی نیت نہ ركھتا ہو ، اور جب قرض كے ادائیگی كا وقت آجائے تو اس كا واپس كرنا واجب ہے، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، وہ نبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت كرتے ہیں كہ آپ نےفرمایا: "مَنْ أخَذَ أمْوَالَ النَّاسِ يُرِيدُ أدَاءَهَا أدَّى اللهُ عَنْهُ، وَمَنْ أخَذَ يُرِيدُ إِتْلافَهَا أتْلَفَهُ اللهُ". (البخاري 2387)(جو کوئی لوگوں کا مال قرض کے طور پر ادا کرنے کی نیت سے لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی طرف سے ادا کرے گا اور جو کوئی نہ دینے کے لیے لے، تو اللہ تعالیٰ بھی اس کو تباہ کر دے گا)۔
قرض واپسی كے داخل ہونے كے وقت مقروض كی حالتیں
بینكوں میں مال جمع كرنے كا حكم
مقروض پر جرمانہ عائد كرنے كی شرط جائز نہیں ہے جب وہ وقت محدد پر ادائیگی میں تاخیر كرے ، اس لئے كہ یہ سود ہے ، اور اس شرط كے پائے جانے كےساتھ قرض لینا جائز نہیں ، گرچہ قرض لینے والے كو یہ گمان ہو كہ وہ جرمانہ عائد ہوئے بغیر ہی وقت مقررہ پروہ ادا كرنے پر قادر ہے ، اس لئے اس كا ایسے عقد میں داخل ہونا ہے جس میں سود كی پابندی ہے ،
قرض واپسی كے وقت اچھا دینا
قرض كی ادائیگ میں - بایں طور كہ وہ كسی چیز كو قرض دے ، اور وہ اس سے عمدہ ، یا بڑا یا زیادہ اسے لوٹائے ، اچھا لوٹانا مستحب ہے ، اگر پہلے سے كوئی شرط نہیں ہے ،كیونكہ اس كا شمار حسن قضا و مكارم اخلاق میں سے ہے ، اور اگر عمدہ دینےكی شرط عائد كی گئی ہوتو حرام سود ہے ۔