تعلیم كو فالو اپ كریں

اب تك آپ نے انڑی كے لئے رجسٹریشن نہیں كیا
اپنی ترقی كے فالواپ كے لئے اور پوائنٹس اكٹھا كرنے كے لئے ،اور مسابقے میں شركت كے لئے منصہ تاء میں فورا رجسٹریشن كریں ،رجسٹرد ہونے كے بعد جن موضوعات كی آپ تعلیم حاصل كررہے ہیں آپ اس كی الكڑانك سرٹیفیكیٹ حاصل كریں گے

موجودہ قسم مالی لین دین

سبق: قرض

اس درس میں ہم قرض كے مفہوم اور اسلامی قانون میں اس كے بعض احكام كی جانكاری حاصل كریں گے ،

  • قرض كامفہوم ، اور اس كا حكم اور اس كے صحیح ہونے كی شرطوں كی جانكاری ۔
  • قرض كی ادائیگی كے وقت مقروض كی حالتوں كی جانكاری۔

اللہ عزوجل نے اپنے عدل و حكمت سے لوگوں كے درمیان روزیاں تقسیم فرمائی ہے ، توان كچھ مالدار ہیں تو كچھ غریب ، كچھ صاحب اقتدار تو كچھ محتاج ہیں ، اور ہمیشہ سے لوگوں كی خصلت رہی ہے كہ وہ اپنی ضروریات پوری كرنے كےلئے ایك دوسرے سے قرض لیتے ہیں ، اوراس لئے كہ اللہ كی شریعت كامل وشامل ہے، جس نے قرض سے متعلق متعدد احكام بیان كیا ہے ، اور اللہ نے قرآن كریم كی سب سے طویل آیت میں خصوصیت كے ساتھ قرض كو بیان فرمایا ہے ، اور وہی وہ سورہ بقرہ كی آیت نمبر 282 ہے ، اور اس كا نام قرض والی آیت ركھا گیا ہے ۔

قرض كی تعریف

قرض كہتے ہیں ایسے شخص پر شفقت كھاتے ہوئے مال دینا جو اس سے فائدہ اٹھائے اور اس كا بدل واپس كرے ،

قرض كا حكم

قرض دینے والے كے لئے قرض دینا مستحب ہے اور قرض لینے والے كے لئے قرض لینا مباح ہے ، اور قرض لینا ناپسندیدہ مسئلہ كے باب سے نہیں ہے ، كیونكہ قرض لینے والا مال اس لئے لیتا ہے تاكہ اپنی ضروریات پوری كرنے میں اس سے فائدہ اٹھائے ، اور پھر اس كا بدل واپس كردے۔

رہی بات ایسی حالت كی كہ قرض قرض دینے والے كے لئے نفع لائے تو وہ نفع حرام سود ہے ، گویا كہ وہ اسے مال قرض اس شرط پر دے رہا ہےكہ وہ اسے زیادہ لوٹائے ، اور اسی طرح اگر اس قرض سے دوسرا عقد جوڑ دے جیسے بیع وغیرہ تو وہ بھی حرام ہے ، اس لئے كہ قرض دینا اور بیع كرنا حلال نہیں ۔

قرض كے مشروع ہونے كی حكمت

لوگوں پر شفقت و نرمی كی خاطر ، نیز ان كے معاملے كو آسان بنانے ، اور ارباب حاجت كی درد مندی كے لئے اسلام نے قرض كو جائز بنایا ،اور یہ قرض دینے والے كے لئے تقرب الہی كے ابواب میں سے ایك اہم باب ہے،اور حاجت جتنی سخت ہوتی ہے تو اس كا ثواب بھی اتناہی بڑا ہوتا ہے ۔

قرض چاہے چھوٹا ہو یا بڑا ہو اسے لكھ كر اور اس پر گواہ بنا كر اس كی توثیق كرنا مستحب ہے ، تو اس كی نوعیت ، مقدار اور مدت تحریر كی جائےگی، تاكہ قرض كی حفاظت ہو سكے اور قرض لینے والے كی موت یا اس كے بھولنے یا انكار كی صورت میں اپںے حق كے ضائع ہونے سے قرض دینے والا مطمئن ہو سكے ، جیسا كہ اللہ تعالی نے قرض والی آیت میں فرمایا: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى فَاكْتُبُوهُ وَلْيَكْتُبْ بَيْنَكُمْ كَاتِبٌ بِالْعَدْلِ وَلَا يَأْبَ كَاتِبٌ أَنْ يَكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللَّهُ فَلْيَكْتُبْ وَلْيُمْلِلِ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ وَلَا يَبْخَسْ مِنْهُ شَيْئًا} [البقرة: 282] ( اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب آپس میں ایک مقرر مدت تک قرض کا لین دین کرو تو اسے لکھ لو اور ایک لکھنے والا تمھارے درمیان انصاف کے ساتھ لکھے اور کوئی لکھنے والا اس سے انکار نہ کرے کہ لکھے جیسے اللہ نے اسے سکھایا ہے، سو اسے لازم ہے کہ لکھ دے اور وہ شخص لکھوائے جس کے ذمے حق (قرض) ہو، اور اللہ سے ڈرے جو اس کا رب ہے اور اس میں سے کچھ بھی کم نہ کرے)اور اسی آیت میں اللہ تعالی نے مزید فرمایا: {وَلَا تَسْأَمُوا أَنْ تَكْتُبُوهُ صَغِيرًا أَوْ كَبِيرًا إِلَى أَجَلِهِ ذَلِكُمْ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ وَأَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَأَدْنَى أَلَّا تَرْتَابُوا} [البقرة: 282].(اور اس سے مت اکتائو وہ چھوٹا (معاملہ) ہو یا بڑا کہ اسے اس کی مدت تک لکھو۔ یہ کام اللہ کے نزدیک زیادہ انصاف والا اور شہادت کو زیادہ درست رکھنے والا ہےاور زیادہ قریب ہے کہ تم شک میں نہ پڑو)۔

قرض كے صحیح ہونے كی شرطیں

١
قرض عبارت كے ساتھ مكمل ہو ، اور وہ ایجاب و قبول ہے ، یا وہ جو ان دولفظوں كے قائم مقام ہو ۔
٢
اگریمنٹ كرنے والے _قرض دینے یا لینے والے_ بالغ ، عاقل ، سوجھ بوجھ والے ، اور خود مختارہوں ، اور دینے و لینے كی صلاحیت ركھنے والے ہوں ۔
٣
اور شریعت میں قرض كا مال جائز ہو ،
٤
اور قرض كے مال كی مقدار متعین ہو ۔

دوسرے سے مالی قرض لینے والے كے لئے اس كے ادا كرنے كا عزم كرنا واجب ہے ،اور یہ آدمی پر حرام ہے كہ وہ لوگوں كے اموال لے اور وہ اسے انہیں واپس دینے كی نیت نہ ركھتا ہو ، اور جب قرض كے ادائیگی كا وقت آجائے تو اس كا واپس كرنا واجب ہے، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، وہ نبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت كرتے ہیں كہ آپ نےفرمایا: "مَنْ أخَذَ أمْوَالَ النَّاسِ يُرِيدُ أدَاءَهَا أدَّى اللهُ عَنْهُ، وَمَنْ أخَذَ يُرِيدُ إِتْلافَهَا أتْلَفَهُ اللهُ". (البخاري 2387)(جو کوئی لوگوں کا مال قرض کے طور پر ادا کرنے کی نیت سے لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی طرف سے ادا کرے گا اور جو کوئی نہ دینے کے لیے لے، تو اللہ تعالیٰ بھی اس کو تباہ کر دے گا)۔

قرض واپسی كے داخل ہونے كے وقت مقروض كی حالتیں

١
یہ كہ اس كے پاس بالكل كچھ بھی نہ ہو ، تو اس كی تنگی كو دیكھتے ہوئے اسےمہلت دینا واجب ہے ، جیسا كہ اللہ تعالی نے فرمایا: {وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ وَأَنْ تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ} [البقرة: 280].( اور اگر کوئی تنگی والا ہو تو آسانی تک مہلت دینالازم ہے اور یہ بات کہ صدقہ کر دو تمھارے لیے بہتر ہے، اگر تم جانتے ہو)۔
٢
اس كے پاس قرض سے زیادہ مال ہو ، تو یہ اس پرقرض كی ادائیگی لازم ہے ، اس طور پرمقروض مالدار پر ادائیگی كے وقت كے داخل ہونے كے بعد تاخیر كرنا حرام ہے ، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مَطْلُ الغَنِيِّ ظُلمٌ". (البخاري 2288، ومسلم 1564).(مالدار کی طرف سے (قرض ادا کرنے میں) ٹال مٹول کرنا ظلم ہے)۔
٣
قرض كے مقدار ہی اس كے پاس مال ہو ، ایسی صورت میں بھی اسے قرض ادا كرنا لازم ہے ۔
٤
اس كے پاس قرض سے كم مال ہو ، تو یہ مفلس ہے اس پر حجر كیا جائےگا(یعنی اس سے مزید مالی لین دین سے اسے روك دیا جائےگا ) جب اس سے سارے قرض خواں یا ان میں سے كچھ اس سے قرض كی ادائیگی كا مطالبہ كریں تو ان میں سے ہر ایك كے درمیان ان كے قرض كے اعتبار سے اس كے مال كو تقسیم كردیا جائےگا۔

بینكوں میں مال جمع كرنے كا حكم

١
ایسے اسلامی بینك جو شرعی احكام كے مطابق لین دین كرتے ہیں ان میں مال جمع كرنا جائز ہے ۔
٢
رہی بات ان سودی لین دین كرنے والے بینكوں میں مال جمع كرنا تو یہ حالتوں سے خالی نہیں ہے؛ پہلی حالت یہ ہےكہ اس میں مال جمع كرنا فائدہ كے مقابل ہو ، تو یہ شكل حرام كردہ سود كی ہے ، اس لئے اس میں مال جمع كرنا جائز نہیں ،دوسری حالت یہ ہے كہ بلا فائدہ والے سیونگ اكاونٹ میں مال جمع كرنا ،تو یہ بھی جائز نہیں ہے كیونكہ اس میں سودی لین دین میں بینك والے كے مال استعمال كرنے پر تعاون ہے ،لیكن حقیقی ضرورت كی حالت میں یہ مستثنی ہے ، اس طور سے كہ جب مال جمع كرنے والے كو اپنے كے ضائع یا چوری ہونے كا اندیشہ ہو ، اور اپنے مال كی حفاظت كے لئے اسے كوئی جائز بدیل نہ ملے تو ایسی صورت میں ضرورت كے پیش نظر اس میں مال ڈپازٹ كرنا جائز ہے ۔

مقروض پر جرمانہ عائد كرنے كی شرط جائز نہیں ہے جب وہ وقت محدد پر ادائیگی میں تاخیر كرے ، اس لئے كہ یہ سود ہے ، اور اس شرط كے پائے جانے كےساتھ قرض لینا جائز نہیں ، گرچہ قرض لینے والے كو یہ گمان ہو كہ وہ جرمانہ عائد ہوئے بغیر ہی وقت مقررہ پروہ ادا كرنے پر قادر ہے ، اس لئے اس كا ایسے عقد میں داخل ہونا ہے جس میں سود كی پابندی ہے ،

قرض واپسی كے وقت اچھا دینا

قرض كی ادائیگ میں - بایں طور كہ وہ كسی چیز كو قرض دے ، اور وہ اس سے عمدہ ، یا بڑا یا زیادہ اسے لوٹائے ، اچھا لوٹانا مستحب ہے ، اگر پہلے سے كوئی شرط نہیں ہے ،كیونكہ اس كا شمار حسن قضا و مكارم اخلاق میں سے ہے ، اور اگر عمدہ دینےكی شرط عائد كی گئی ہوتو حرام سود ہے ۔

كامیابی سے آپ نے درس مكمل كیا


امتحان شروع كریں