تعلیم كو فالو اپ كریں

اب تك آپ نے انڑی كے لئے رجسٹریشن نہیں كیا
اپنی ترقی كے فالواپ كے لئے اور پوائنٹس اكٹھا كرنے كے لئے ،اور مسابقے میں شركت كے لئے منصہ تاء میں فورا رجسٹریشن كریں ،رجسٹرد ہونے كے بعد جن موضوعات كی آپ تعلیم حاصل كررہے ہیں آپ اس كی الكڑانك سرٹیفیكیٹ حاصل كریں گے

موجودہ قسم مالی لین دین

سبق: ادھار لین دین

ادھار لین دین كے مفہوم اور اس كے بعض احكام كی جانكاری ہم اس درس میں حاصل كریں گے۔

  • عاریہ (ادھار لین دین ) سے مراد كی معرفت ۔
  • عاریہ سے جڑے ہوئے احكام كی معرفت ۔
  • عاریہ اور ودیعہ ( امانت ركھنے) كے درمیان فرق كی معرفت ۔

ادھار لین دین كا مفہوم

عاریہ كہتے ہیں بلاعوض كسی چیز سے فائدہ اٹھانا ، اوراسے عاریہ كا نام اس لئے دیا گیا كیونكہ یہ عوض سے الگ تھلك ہے ۔

عاریہ (ادھار لین دین ) كا حكم

عاریہ (ادھار لین دین ) بروتقوی پر تعاون كے قبیل سے ہے ، اور یہ كتاب و سنت اور اجماع و قیاس سے مشروع ہے ، اور عاریہ كا عقد جائز عقود میں سے ہے اور یہ الزامی نیہں ہے ، دونوں فریق میں سے ہر ایك كے لئے اس كو كالعدم كرنا جائز ہے ، اور عاریہ مستحب تقرب ہے ، كیونكہ اس میں لوگوں پر احسان ، اور ان كی ضرورتوں كی تكمیل ہوتی ہے اور اس سے محبت پیدا ہوتی ہے، اور مالك كے اس سے بے نیاز ہونے اور اسے لینے كی ضرورت سے یقینی ہو جاتا ہے ،اور یہ ان تمام قول و لفظ سے واقع ہو جاتا ہے جو اس كی طرف اشار ہ كرتے ہیں ۔

عاریہ (ادھار لین دین ) كی مشروعیت كی حكمت

آدمی سامانوں میں سے كچھ سامان سے فائدہ اٹھانے كا ضرورت مند ہوتا ہے اور وہ اسے كے مالك بننے كی استطاعت نہیں ركھتا ،اور نہ ہی اسے كے پاس اتنے مال ہوتے ہیں كہ وہ اس كی اجر ت دے سكے ، اور اس كے مقابل كچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو ان سامانوں كو فری دینے یا ضرورت مندوں كو صدقہ كرنے پر اپنے اندر قوت نہیں پاتے گرچہ وہ اس بات سے راضی ہوتے ہیں كہ وقتی طور پر كوئی ان سے فائدہ اٹھالے اور پھر انہیں واپس كردے ، اور عاریہ دونوں فریق كے اس مقصد كو پورا كرتا ہے ،

اللہ كی رحمت میں سے ہے كہ اس نے ادھار لین دین كو ادھار لینے والے كی ضرورت كی تكمیل كے لئے جائز بنایا ، اور ساتھ ہی ساتھ ادھار دینےوالے كو اجر سے نوازا ، كیونكہ اس نے اپنے بھائی كے لئے سامان باقی رہتے ہوئے منافع پنچایا ،

اللہ تعالی نے فرمایا : {وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ} [المائدة: 2].(اور نیکی اور تقویٰ پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو)۔

انس بن مالك رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں مدینے پر (دشمن کے حملے کا) خوف تھا۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے ایک گھوڑا جس کا نام مندوب تھا مستعار لیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر سوار ہوئے (صحابہ بھی ساتھ تھے) پھر جب واپس ہوئے تو فرمایا، ہمیں تو کوئی خطرہ کی چیز نظر نہ آئی، البتہ یہ گھوڑا سمندر کی طرح (تیز دوڑتا) پایا)۔

عاریہ كے صحیح ہونے كی شرط

١
سامان اپنے باقی رہنے كے ساتھ قابل انتفاع ہو ۔
٢
وہ نفع جائز ہو، اس لئے شراب منتقل كرنے كے لئے گاڑی ادھار دینا جائز نہیں ۔
٣
ادھار دینے والاتبرع كی صلاحیت ركھتا ہو ، اور جس چیز كو ادھار دے رہا ہے یا تو اس كا مالك ہو یا اسے ادھار دینے كی اجازت حاصل ہو ۔
٤
اور ادھار لینے والا تصرف كی اہلیت ركھتا ہو ۔

عاریہ كے اركان

١
ادھار دینے والا:وہی سامان كا مالك ۔
٢
ادھار لینے والا: وہی جو سامان سے فائدہ اٹھائے ،
٣
ادھار لیا گیا سامان : وہی ادھار میں لی گئی چیز چاہے وہ جانور ہو یا مشین وغیرہ ۔
٤
غبارت : اور وہی وہ لفظ یا اشارہ یا فعل ہے جو ادھار دینے كو واضح كرے ۔

ادھار لینے والے پر عاریہ كی حفاظت كرنا ، اس كا خیال ركھنا ، صحیح ڈھنگ سے اس كا استعمال كرنا اور صحیح سالم انداز میں مالك كو اسے واپس كرنا واجب ہے ، اور اگر ادھار لینےوالے كے ہاتھ سے وہ استعمال كے بغیر ہی ضائع ہو گیا تو وہ اس كا ضامن ہے چاہے اس نے كوتاہی كی ہو یا نہ كی ہو ، رہی بات جب وہ استعمال سے ضائع ہو جائے جس میں اسے اجازت تھی تو اس كی كوئی ذمہ داری نہیں ، سوائے اس كے كہ ادھار لینے والے نے حد سے تجاوز كی ہو یا اس نے كوتاہی كی ہو تو پھر وہ ذمہ دار ہو گا۔

عاریہ واپس كرنے كا حكم

ادھار لینے والے پر واجب ہے كہ وہ اپنی ضرورت پوری كرلینے كے بعد ادھار لئے گئے سامان كو واپس كردے ، اور اسے ایسے ہی صحیح سالم واپس كرے جیسے اس نے لیا تھا ، اس كے لئے اس سامان كا روكنا یا اس كا انكار كرنا جائز نہیں ، اگر اس نے ایسا كیا تو وہ خائن اور گنہ گار ہے ،

ادھار دینے والا جب چاہےعاریہ كے واپسی كا مطالبہ كرسكتا ہے جب تك كہ ادھار لینے كے نقصان كا وہ سبب نہ بنے ، بصورت دیگر اگر اس كا واپس لینا ادھار لینے والے كے ضرر كا سبب بنے تو نقصان ختم ہونے تك اسے قبضہ میں لینے میں تاخیر كرے جیسے كہ اس نے ادھار پر زمین دی پھر ادھار لینے والے نے اس میں زراعت كی ، تو زمین ادھار دینے والا اس زمین كو واپس لینے كا مطالبہ ادھار لینے والے سے اس وقت تك نہیں كرسكتا جب تك كہ وہ اس كی فصل كو كاٹ نہ لے ۔

اللہ تعالی نے فرمایا: {إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ إِنَّ اللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا} [النساء: 58].( اللہ تعالیٰ تمہیں تاکیدی حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انہیں پہنچاؤ! اور جب لوگوں کا فیصلہ کرو تو عدل وانصاف سے فیصلہ کرو! یقیناً وه بہتر چیز ہے جس کی نصیحت تمہیں اللہ تعالیٰ کر رہا ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ سنتا ہے، دیکھتا ہے )۔

عاریہ (ادھار لین دین ) میں اور ودیعہ (امانت ركھنے) میں فرق

١
عاریہ كا منكر چور كی طرح ہے، اس پر اس كا ہاتھ كاٹا جائے گا ، لیكن ودیعت كے منكر كا نہیں
٢
عاریہ ایك آدمی اپنی ضرورت كے لئے لیتا ہے اور وہ اس كا ضامن ہوتا ہے ، لیكن ودیعہ ایك آدمی اسے اللہ كی قربت كے حصول كےلئے لیتا ہے ، تو وہ امین ہے اور اس پر كوئی تاوان نہیں ہے ، مگر جب وہ حد سے تجاوز كرجائے یا وہ كوتاہی كا شكار ہو ۔

جس سے اعارہ ختم ہوتا ہے :

١
موقت اعارہ میں مدت ختم ہو جائے
٢
ادھار دینے والا اعارہ سے رجوع كرلے ، اور اس كی چند حالتیں ہیں
٣
دو عقد كرنے والوں میں سے كسی ایك كا پاگل ہوجانا۔
٤
بے وقوفی یا محتاجی كی وجہ سے دو عقد كرنے والوں میں سے كسی ایك كا حجر (انكار) كردینا
٥
دو عقد كرنے والوں میں سے كسی ایك كا مرجانا
٦
ادھار لی گئی چیز كا ہلاك ہو جانا ۔
٧
ادھار لی گئی چیز كسی دوسرے كا حق ہونا ۔

كامیابی سے آپ نے درس مكمل كیا


امتحان شروع كریں