تعلیم كو فالو اپ كریں

اب تك آپ نے انڑی كے لئے رجسٹریشن نہیں كیا
اپنی ترقی كے فالواپ كے لئے اور پوائنٹس اكٹھا كرنے كے لئے ،اور مسابقے میں شركت كے لئے منصہ تاء میں فورا رجسٹریشن كریں ،رجسٹرد ہونے كے بعد جن موضوعات كی آپ تعلیم حاصل كررہے ہیں آپ اس كی الكڑانك سرٹیفیكیٹ حاصل كریں گے

موجودہ قسم حج

سبق: حج كا معنی اور اس كے فضائل

حج مناسك كی ادائیگی كے لئے ایك متعین وقت میں اللہ عزو جل كی عبادت كی خاطر مكہ مكرمہ كا قصد كرنا،اوریہ اسلام كے اركان میں سے پانچواں ركن ہے ،اس درس میں آپ كو حج كا معنی اور اس كے فضائل بتائے جائیں گے۔

  • حج كے معنی كی جانكاری ۔
  • حج كے واجب ہونے كی شرطوں كی جانكاری ۔
  • حج كے فضائل كی جانكاری ۔

حج كا معنی

حج مناسك كی ادائیگی كے لئے مخصوص وقت میں اللہ كے حرمت والے گھر كا قصد كرنا،اور یہ افعال و اقوال دونوں شكلوں میں ہے جیسا كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آیا ہے،جیسے احرام باندھنا ،سات چكر خانہ كعبہ كا طواف كرنا،اور صفا و مروہ پہاڑی كے درمیان سات چكر سعی كرنا ،میدان عرفات میں وقوف كرنا ،اور منی میں رمی جمر كرنا،وغیرہ ، اور اللہ كی توحید كے اعلان سے اس میں بندوں كے لئے عظیم فوائد ہیں ،اور حجاج كے لئے عظیم بخشش ہے ،اور مسلمانوں كے درمیان آپسی پہچان ہے ، دین كے بہت سارے احكام كی تعلیم ہے ، وغیرہ۔

حج كا حكم

حج اركان اسلام كا پانچواں ركن ہے ،اگر مستطیع ہے تو ہر مسلمان مرد وعورت پر زندگی میں ایك بار واجب ہے ،اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿ وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ﴾ [آل عمران: 97].(اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر جو اس کی طرف راه پا سکتے ہوں اس گھر کا حج فرض کر دیا گیا ہے۔ اور جو کوئی کفر کرے تو اللہ تعالیٰ (اس سے بلکہ) تمام دنیا سے بے پرواه ہے)

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ خطبہ پڑھا ہم پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اور فرمایا:: «أيها الناس قد فرض الله عليكم الحج، فحُجُّوا»، فقال رجل: أكل عام يا رسول الله؟ فسكت، حتى قالها ثلاثاً، فقال رسول الله ﷺ: «لو قلتُ: نعم لوجبت، ولما استطعتم» (مسلم 1337).(”اے لوگو! تم پر حج فرض ہوا ہے سو حج کرو۔“ ایک شخص نے کہا کہ ہر سال یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم چپ ہو رہے اس نے تین بار یہی عرض کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال واجب ہوتا اور پھر تم سے نہ ہو سکتا)

اور جب استطاعت حاصل ہو جائے توایك مسلمان پر حج كی ادائیگی میں پہلے كرنا واجب ہے۔

حج كا وقت

حج كے زمانی و مكانی دونوں میقات ہیں :

زمنی میقات

حج كے متعین مہینے ہیں ہمارے لئے انہیں مہینوں میں حج كا احرام باندھنا صحیح ہے ، اور یہ مہینے ہیں :شوال ، ذوالقعدہ ، اور ذی الحجہ ، حج كے تمام اعمال ماہ ذی الحجہ كے آٹھ تاریخ سے تیرہ تاریخ كے درمیان ہے ،اور ماہ ذی الحجہ اسلامی كیلنڈر كے اعتبار سے قمری مہینے كا بارہواں مہینہ ہے ،

مكانی میقات

یہ وہ جگہیں ہیں كہ كسی بھي حاجی یا عمر ہ كرنے والے كےلئے جو باہر سے مكہ مكرمہ آئے بغیر احرام كے ان جگہوں كو كراس كرنا اس كے لئے جائز نہیں ہے ،اہل مدینہ كا میقات ذوالحلیفہ ہے، اور اہل شام كا میقات جحفہ ہے ،اور اہل نجد كا میقات قرن منازل ہے، اور اہل یمن كا میقات یلملم ہے، اور اہل عراق كا میقات ذات عرق ہے ، اور یہی حاجیوں كے میقات ہیں ،اور یہ ان آنے والوں كے لئے ہے جو ان كے باشندگان نہیں ہیں ، جو حج و عمرہ كا ارادہ كریں ،اور یہ جگہیں اہل مہارت كے طریقے سے اور نئے نقشوں كے ذریعہ كے معلوم كئے جائیں گے ،

حج واجب ہونے كی شرطیں:

١
اسلام
٢
عقل
٣
بلوغت
٤
آزادی
٥
استطاعت
٦
عورت كے ساتھ محرم كا پایا جانا جو سفر میں اس كے ہمراہ ہو

پہلی شرط : اسلام

حج مسلمان پر واجب ہے كافر پر واجب نہیں،اورنہ ہی اس كا حج درست ہے ،اس لئے كہ عبادت كے صحیح ہونےكے لئے اسلام شرط ہے

دوسری شرط : عقل

پاگل پر حج واجب نہیں اور نہ ہی اس كا حج صحیح ہے،اس لئے كہ عقل وجوب اور صحیح ہونے كےلئے شرط ہے، جیسا كہ علی رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے كہ نبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: « رفع القلم عن ثلاثة: عن النائم حتى يستيقظ، وعن الصبي حتى يحتلم، وعن المجنون حتى يعقل » (أبو داود 4403).(صحیح)(قلم تین آدمیوں سے اٹھا لیا گیا ہے: سوئے ہوئے شخص سے یہاں تک کہ وہ بیدار ہو جائے، بچے سے یہاں تک کہ وہ بالغ ہو جائے، اور دیوانے سے یہاں تک کہ اسے عقل آ جائے)

تیسری شرط : بلوغت

بچے پر حج واجب نہیں جیسا كہ علی رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے كہ نبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: « رفع القلم عن ثلاثة: عن النائم حتى يستيقظ، وعن الصبي حتى يحتلم، وعن المجنون حتى يعقل » (أبو داود 4403).(صحیح)(قلم تین آدمیوں سے اٹھا لیا گیا ہے: سوئے ہوئے شخص سے یہاں تک کہ وہ بیدار ہو جائے، بچے سے یہاں تک کہ وہ بالغ ہو جائے، اور دیوانے سے یہاں تک کہ اسے عقل آ جائے)

اگر بچہ حج كرے تو اس كا حج صحیح ہے ، لیكن وہ حج حجۃ الاسلام كے لئے كافی نہ ہوگا،اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "إذا حج الصبي فهي له حجة حتى يعقل، وإذا عقل فعليه حجة أخرى" (مستدرك الحاكم 1769).(تو جب كوئی بچہ حج كرے تو اس كےلئے وہ حج ہے یہاں تك كہ وہ بالغ ہو جائے ، اور جب بالغ ہو جائے تو اس پر دوسرا حج واجب ہے )

چوتھی شرط : آزادی

غلام پر حج واجب نہیں ، وہ اپنے آقا كی خدمت میں مشغول ہونے كی وجہ سے معذور ہے، اور اگر غلام اپنے آقا كی اجازت سے حج كرلے تو اس كا حج صحیح ہے ،لیكن وہ حجۃ الاسلام كے لئے كافی نہ ہوگا ، جیسا كہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے فرماتے ہیں كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وَأَيُّمَا عَبْدٍ حَجَّ ثُمَّ أُعْتِقَ فَعَلَيْهِ حَجَّةٌ أُخْرَى" السنن الكبرى للبيهقي (8613).(جس غلام نے بھی حج كیا پھر اسكے بعد وہ آزاد كردیا گیا تو اس پر دوسرا حج واجب ہے )

پانچویں شرط :مستطیع ہونا

قادر مستطیع پر حج واجب ہے ،اور وہ صحت مند بدن والا ہو ، سفر كرنےپر قادر ہو ، اور توشہ و سواری اس كے پاس ہو جس كے ذریعہ سے حج كی ادائیگی پر جانا ممكن ہو ،اور عورت كے حج كرنے میں استطاعت میں سے اس محرم كا پایا جانا جو سفر حج میں اس كے ساتھ ہواس لئے كہ حج یا غیر حج كے لئے بغیر محرم سفر كرنا اس كے لئے جائز نہیں

اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿ وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا ﴾ [آل عمران: 97].( اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر جو اس کی طرف راه پا سکتے ہوں اس گھر کا حج فرض کر دیا گیا ہے)

جو شخص اپنے مال كے اعتبار سے قادر ہو ، اور كسی مرض كی وجہ سے بدن سے لاچار ہو ،اور اس كے شفا كی امید بھی نہ ہو، یا بڑھاپے كی وجہ سے عاجر ہو تو اس پر واجب ہے كہ اپنی جانب سے حج كرنے كے لئے كسی كو نائب بنادے،فضل بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ ایك شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت كیا ،تو اس نےكہا: اے اللہ كے رسول !میرے باپ كو اسلام اس وقت ملا جبكہ وہ اتنے بوڑھے ہیں كہ اپنی سواری پر بیٹھ نہیں سكتے،تو كیا میں ان كی طرف سے حج كرسكتا ہوں ؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا كیا خیال ہے اگر ان پر قرض ہوتا ،تو تم ان كی طرف سے اسے ادا كرتے ،كیا یہ انہیں كفایت كرتا، تو انہوں نےكہا: ہاں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اپنے باپ كی طرف سے حج كرو،(مسند أحمد 1812).

حج كے لئے مسلمان كی استطاعت كی حالتیں:

١
بذات خود حج كی طاقت ركھے، یعنی بذات خود عام صورت سے زائد مشقت كےبغیر اللہ كے گھر پہنچنے پر قادر ہو ، اور اس كے پاس اس كے لئے ضرورت بھر كا مال ہو ،تو اس وقت بذات خود حج كے فریضہ كی ادائیگی اس پر واجب ہے ،
٢
بذات خود تو نہیں لیكن بذات غیر اس كی استطاعت ركھتا ہو ، اور وہ اس طرح سے كہ بذات خود تو بیماری یا بڑھاپے كی وجہ سے قدرت نہ ركھتا ہو، لیكن اس كی طرف سے دوسرا حج كرنے والا دستیاب ہو ،اور حج بدل كے لئے اسے مال دے سكتا ہو، تو جواس كی جانب سے حج بدل كرے اس كو مال دینا لازم ہے ،
٣
ایسا شخص جو نہ تو بذات خود اور نہ بذات غیر حج كرنے كی استطاعت ركھتا ہے ،تو جب تك یہ غیر مستطیع ہے اس وقت تك اس پر حج واجب نہیں ہے ،اس كی مثال ایسے ہے جیسے كسی كے پاس اتنا مال نہ ہو جو بال بچوں پر خرچ یا اپنی ضروریات پر خرچ كرنے كے بعد بچے ،تو ایسے شخص پر مال جمع كرنا لازم نہیں كہ حج كے لئے مستطیع ہو سكے ،لیكن جیسے ہی وہ مستطیع ہو گا ویسے ہی اس پر حج واجب ہو جائےگا ۔

چھٹی شرط :سفر میں عورت كے ساتھ محرم كا ہونا

عورت پر حج كے واجب ہونے كی شرط محرم كا پایا جانا ہے ، كسی بھی عورت پر حج اسی وقت واجب ہے جب كہ حج میں اس كے ساتھ اس كے محارم میں سے كوئی ایك اس كے ساتھ ہو، اور محرم یہ ہیں:اس كا شوہر ، یا جس سے اس كا شادی كرنا ہمیشہ كے لئے حرام ہو جیسے باپ ، دادا، بیٹا ، پوتا ، بھائی ، تھتیجے ، چچا اور مامو ۔

اگر عورت نے بغیر محرم كے حج كیا اس طریقے سے كہ اس كی ذات محفوظ ہے تو اس كا حج صحیح ہے اور كافی ہے ، لیكن بغیر محرم كی وجہ سے گنہ گار ہے ۔

حج كے فضائل

حج كے متعلق كئی فضائل و خیرات وارد ہوئی ہیں ، انہیں میں سے چند یہ ہیں :

1-یہ افضل الاعمال میں سے ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے پوچھا کہ کون سا کام بہتر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "إيمان بالله ورسوله" قيل: ثم ماذا؟ قال: "جهاد في سبيل الله". قيل: ثم ماذا؟ قال: "حج مبرور" (البخاري 1519 مسلم 83).( کہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔ پوچھا گیا کہ پھر اس کے بعد؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔ پھر پوچھا گیا کہ پھر اس کے بعد؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حج مبرور)

2-معافی كا عظیم موسم ہے

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : «مَنْ حَجَّ لِلَّهِ، فَلَمْ يَرْفُثْ وَلَمْ يَفْسُقْ، رَجَعَ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ» (البخاري 1521، مسلم 1350)، (جس شخص نے اللہ کے لیے اس شان کے ساتھ حج کیا کہ نہ کوئی فحش بات ہوئی اور نہ کوئی گناہ تو وہ اس دن کی طرح واپس ہو گا جیسے اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔) یعنی گناہوں سے پاك ہوكر واپس آیا جیسا كہ ابھی ابھی اس كی ماں نے جنا ہے ،

3-جہنم سے آزادی كا بڑا موقعہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ما من يوم أكثر من أن يعتق الله فيه عبدًا من النار من يوم عرفة" (مسلم 1348). ”عرفہ سے بڑھ کر کوئی دن ایسا نہیں ہے جس میں اللہ تعالیٰ بندوں کو آگ سے اتنا آزاد کرتا ہو جتنا عرفہ کے دن آزاد کرتا ہے )

4- اس كا بدلہ جنت ہے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "الحج المبرور ليس له جزاء إلا الجنة" (البخاري 1773، مسلم 1349).( اور حج مبرور کی جزا جنت کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔) یہ فضائل اور ان كے علاوہ یہ اس كے لئے ہیں جنكی نیت سچی اور نیك ہو ، اور جس كے راز پاگ ہوں ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كی اتباع صحیح ہو ۔

كامیابی سے آپ نے درس مكمل كیا


امتحان شروع كریں