موجودہ قسم حج
سبق: حج كا طریقہ
حج كی تین قسمیں ہیں ، اور وہ یہ ہیں : تمتع ، قران ، افراد ، اور حاجی كے لئے ہے كہ ان تین حج كی قسموں میں سے كسی ایك كا انتخاب كرے ، تاكہ اسی كے ساتھ اپنا حج ادا كرے ۔
عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ہم نکلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «من أراد منكم أن يُهِلَّ بحج وعمرة فليفعل، ومن أراد أن يُهِلَّ بحج فلْيُهِلَّ، ومن أراد أن يُهِلَّ بعمرة فلْيُهِلَّ » (مسلم 1211). (”جو چاہے حج و عمرہ دونوں کا احرام باندھے (نیت كرے) جو چاہے حج کا وہ اس كا احرام باندھے ، اور جو چاہے عمرہ کا تو وہ اس كا احرام باندھے )
تمتع
تمتع كا طریقہ :حج كے مہینے میں عمرہ كا احرم باندھے ( نیت كرے ) اور اپنے احرام باندھنے كے وقت یہ كہے : (لبيك اللهمّ عمرة متمتعاً بها إلى الحج) (اے اللہ میں حاضر ہوں اور عمرہ كی نیت كرتا ہوں حج تك فائدہ اٹھاتے ہوئے) اس كے بعد عمرہ ادا كرے اور اس سے فارغ ہو جائے ، پھر وہ حلال ہو جائے (یعنی احرام اتار دے ) پھر فائدہ اٹھائے ان تمام چیزوں سے جو حالت احرام میں اس كے اوپر حرام تھیں ،پھر وہ آٹھ ذی الحجہ كو مكہ سے دوبارہ احرام باندھے ،اور وہ احرام كی حالت میں عید كے دن جمرہ عقبہ كو پتھر مارنے تك باقی رہے ،اوراس پر حج تمتع كی قربانی ہے ،اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ﴾ [البقرة: 196].( تو جو شخص عمرے سے لے کر حج تک تمتع کرے، پس اسے جو قربانی میسر ہو اسے کر ڈالے)
قران
حج قران كا طریقہ :وہ حج وعمرہ دونوں كا ایك ساتھ احرام باندھے ، اور احرام باندھنے كے وقت یہ كہے : (لبيك اللهمّ عمرة وحجاً) (اے اللہ !میں حاضر ہوں حج و عمرہ دونوں كے لئے ) پھر جب وہ مكہ پہونچے تو طواف قدوم كرے ،اور اس پر صرف ایك سعی ہے یا تو اسے طواف قدوم كے بعد اسے پہلے كرلے ، یا طواف افاضہ كے بعد اسے موخر كركے كرے،اورنہ سر منڈائے اورنہ ہی احرام اتارے، بلكہ وہ اپنےاحرام میں قربانی كے دن جمرہ عقبہ كی رمی كے بعدتك باقی رہے ، اس كے بعد پھر حلق كرائے ، اورحج قران والے پر بھی قربانی ہے ،
افراد
حج افراد كا طریقہ:صرف حج كا احرام باندھے ،اوراحرام باندھنے كے وقت یہ كہے : (لبيك حجاً) (اے اللہ ! میں حاضر ہوں صرف حج كی نیت سے )اور جب مكہ پہونچے تو طواف قدوم كرے ،اوراس پر ایك ہی سعی ہے ، یا تو اسے طواف قدوم كے بعد پہلے كرلے یا طواف افاضہ كے بعد تاخیر كركے كرے ،اور نہ سر منڈائے اور نہ ہی اپنا احرام كھولے ،بلكہ قربانی كے دن جمرہ عقبہ كی رمی كے بعد تك اسی حالت میں باقی رہے ، پھر سر منڈائے اور حج افراد كرنے والے پر قربانی نہیں ہے ۔
مسلمان پر یہ ضروری ہے كہ حج كی ادائیگی وہ اسی كیفیت پر كرے جس پر ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے كیا ہے، اور اسی كا اپنے صحابہ كرام رضوان اللہ علیہم كو حكم دیا ہے ،جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا : رأيت النبي ﷺ يرمي على راحلته يوم النحر، ويقول: «لتأخذوا مناسككم، فإني لا أدري لعلي لا أحج بعد حجتي هذه» (مسلم 1297).(میں نے دیکھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کہ وہ جمرہ عقبہ کو کنکر مارتے تھے اپنی اونٹنی پر سے قربانی کے دن اور فرماتے تھے: ”سیکھ لو مجھ سے مناسک اپنے حج کے اس لیے کہ میں نہیں جانتا کہ اس کے بعد حج کروں)
حاجی جب میقات پر پہونچے اور حج كا احرام باندھنا چاہے تو اس كےلئےمشروع ہے كہ وہ اپنے سارے كپروں كو اتار دے ،اور غسل كرے ، اپنی داڑھی و سر میں خوشبو لگائے ، اور لباس احرم زیت تن كرے ،اور اگر فرض نماز كا وقت ہےتو اسے ادا كرے ، اور اگر دو ركعت پڑھنا چاہتا ہے تو تحیۃالوضو كی نیت سے دوركعت پڑھ لے ۔
جب نماز سے فارغ ہوجائے تو احرام باندھے پھر حج كی جس قسم میں وہ داخل ہونا چاہتا ہے دل سے اس كی نیت كرے پھر :
پھر تلبیہ كثرت سے پڑھے ، اور وہ یہ ہے : "لبيك اللهم لبيك، لبيك لا شريك لك لبيك، إن الحمد والنعمة لك والملك لا شريك لك" (حاضر ہوں ، اے اللہ !میں حاضر ہوں،حاضر ہوں ، تو لا شریك ہے ، میں حاضر ہوں ، بیشك ہر قسم كی تعریف تیرے لئے ،اور تما م نعمتیں تیری طرف سےہیں ، اوربادشاہت بھی تیری ہی ہے ، تو لا شریك ہے ، میں حاضر ہوں ) مرد حضرات تلبیہ بلند آواز سے پكاریں گے ، اور عورت اس قدر كہے گی كہ اس كے بغل میں بیٹھی خاتون سن سكے ، اور مردوں تك آواز نہ جائے اور وہ اپنے حالت احرام میں احرام كی تمام ممنوع چیزوں سے دور رہے گآ
حاجی كے لئے مستحب ہے كہ مكہ میں داخلے كے وقت غسل كرے ،اور اگر وہ حج تمتع كی نیت كیا ہے تو مسجد حرام جاكر عمرہ ادا كرے ،اور حج قران و افراد كرنے والوں كے لئے طواف قدوم كرنا مستحب ہے ۔
جب وہ مسجد حرام میں داخل ہو تو پہلے اپنا داہنا پیر بڑھائے ، اور مسجد میں داخل ہونے والی دعا پڑھے ، اور جب كعبہ كے پاس پہنچ جائے تو طواف شروع كرنے سے پہلے تلبیہ پكارنا بند كردے ، اور مرد كے لئے یہ ہے كہ اپنی چادر كو اپنے داہنے كندھے كے نیچے سے اپنے بائیں كندھے كے اوپر ڈال لے ،
پھر حجر اسود كی طرف بڑھے اور تاكہ طواف شروع كرے ،داہنے ہاتھ سے حجر اسود كو چھوئے اور اسے بوسہ دے ،اور اگر یہ میسر نہ ہو تو حجر اسود كی طرف چہرہ كرے اور ہاتھ سے اس كی طرف اشارہ كردے،اور بیت اللہ كو اپنے بائیں جانب كردے ،اور سات چكر طواف كرے ،اور ابتدائی تین چكروں میں رمل كرے یعنی چھوٹے چھوٹے قدم ركھ كر تیز چلے ۔
جب ركن یمانی كے پاس پہونچے تو اس پر چومے بغیر ہاتھ پھیرے ، اور اگر یہ نہ ہو سكے تو اس كی طرف ہاتھ سے اشارہ نہ كرے،اور ركن یمانی اور حجر اسود كے درمیان یہ پڑھے : ﴿ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾. (اے اللہ تو ہمیں دنیا وآخرت كی بھلائی سے نوازدے ، اور ہمیں جہنم كے عذاب سے بچالے )
اور جب جب حجر اسود كے سامنے سے گذرے گا تواللہ اكبر كہےگا اور اپنے تمام باقی طواف میں جو ذكر ، دعا ، اور قراءت قرآن پسند كرے وہ كرتا رہے ،
اور جب طواف كے سات چكر مكمل كرلے توچادر كو دونوں كندھوں پر ڈال لے ، پھر مقام ابراہیم كے پہیچھے چلا جائے اگر آسانی ہوتو ورنہ مسجد میں كسی بھی جگہ دو ركعت نماز پڑھے ،اور پہلی ركعت میں سورہ فاتحہ پڑھنے كےبعد ﴿قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ﴾ پڑھے اور دوسری ركعت میں سورہ فاتحہ پڑھنے كے بعد ﴿قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ﴾ پڑھے۔
پھر اس كے بعد مسعی ( سعی كی جگہ) كی طرف نكل جائے اور جب صفا پہاڑی كے قریب پہونچے تو اللہ كا یہ فرمان پڑھے : ﴿ إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ ﴾ (صفا اورمروہ اللہ ك شعائر میں سے ہیں ) اور یہ كہے ، میں وہیں سے شروع كررہا ہوں جہاں سے اللہ نے شروع كیا ہے ،
صفا پہاڑی سے سعی شروع كرے ، صفا پہاڑی پر چڑھ جائے اور قبلہ رخ ہو جائے ، اور دونوں ہاتھ اٹھاكر اللہ كی تعریف كرے اور دعا كرے ،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم كی یہ دعا تھی : " لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير، لا إله إلا الله وحده، أنجز وعده، ونصر عبده، وهزم الأحزاب وحده"،اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، وہ تن تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کے لیے بادشاہت ہے، اور اسی کے لیے حمد ہے، او وہ ہر چیز پر قادر ہے، صرف الله تنہا عبادت كے لائق ہے ، اللہ نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا، اپنے بندے کی مدد کی، اور اکیلے ہی جتھوں کو شکست دی) پھر اس كے بعد جو دعا چاہے كرے ،اور اسے تین بار دھرائے ۔
پھر صفا پہاڑی سے نیچے اترے اور مروہ پہاڑی كا رخ كرے ،اور چلتا رہے یہاں تك كہ جب دونوں گرین لائٹ كے بیچ میں پہنچے تو مرد كے لئے مستحب ہے كہ حسب استطاعت دلكی چال چلے ،اور عورت كے لئے دونوں لائٹو كے بیچ میں تیز چلنا مشروع نہیں ہے ،اور عام چال پورے مسعی میں چلتی رہے گی
اور پھر لگاتار چلتا رہے گا یہاں تك كہ مروہ پہاڑی تك پہنچ جائے ، پھر پہاڑی پر چڑھ جائے ، اور قبل رخ ہو جائے ، اور اپںے دونوں ہاتھوں كو اوپر اٹھائے اوروہی دعا پڑھے جو صفا پہاڑی پر پڑھی تھی ، بس یہ نہ كہے گا ، كہ میں وہیں سے شروع كررہا ہوں جہاں سے اللہ نے شروع كیا ہے ،
پھر مروہ پہاڑی سے نیچے اتركر صفا پہاڑی كا رخ كر كے چل پڑئے ، پھر جب دونوں لائٹو كے مقابل پہونچے تو دلكی چال چلے ،اورصفا پہاڑی پر وہی كرے گا جو مروہ پہاڑی كے پاس كیا ہے ، اور اسی طریقے سے سات چكر مكمل كرےگا ، اس میں جانا ایك چكر اور واپس آنا دوسرا چكر مانا جاتا ہے،اور جتنا ہو سكے ذكر و دعا كرنا سعی كے دوران مستحب ہے ،اور یہ كہ دونوں حدث اكبر واصغر سے پاك ہو ۔
حج تمتع كرنے والے كے لئے دو سعی لازم ہے ،ایك سعی عمرہ كا اور دوسراسعی حج كا ،اور حج قران و افراد كرنے والے پر ایك ہی سعی ہے ،یا تو وہ اسے طواف قدوم كے بعد پہلےكرلے یا طواف افاضہ كے بعد اسے كرے ۔
حاجی جب سعی مكمل كرلے تو یا سر منڈوا لے یا بال چھوٹے كرالے ،اگر وہ حج تمتع كرنے والا ہو ،اور مرد كے حق میں حلق كروانا افضل ہے،اور اگر اس نے اس میں بال چھوٹا كرایا اورحلق كو حج كے لئے چھوڑ دیا تو یہ اچھا ہے ،اور عورت اپنے تمام بالوں كو اكٹھا كرے گی اور آخر سے انگلی كے ایك پور كے برابر كاٹ دے گي ، اور جب حج تمتع كرنے والے نے یہ سارے كام كر لیئے تو اس كا عمرہ مكمل ہوگیا اور احرام سے جتنی چیزیں حرام ہوئی تھیں وہ سب حلال ہوگئیں ،اور اگر حج افراد یا حج قران كرنے والا ہے تو سعی كرنے كے بعد نہ حلق كرائے گا اور نہ ہی بال چھوٹے كرائے گا ،بلكہ احرام ہی كی حالت میں باقی رہے گا
یوم ترویہ وہی ذی الحجہ كا آٹھواں دن ہے ، جس میں حج كے اعمال شروع ہوتے ہیں ،تو جو حج تمتع كرنے والےہیں وہ جس جگہ مكہ میں ہیں وہیں سے اس دن كے چاشت كے وقت دوبارہ حج كا احرام باندھیں گے ،پہلے غسل كریں ، خوشبو لگائیں، اور لباس احرام زیب تن كریں ، اور نماز پڑھیں، پھر حج كی نیت كریں اور تلبیہ پكاریں اور اس طرح كہیں : لبيك اللهم حجاً،لیكن حج افراد و قران كرنے ولے اپنے پرانے احرام ہی میں رہیں گے ، پھر حاجی ظہر سے پہلے منی كے لئے روانہ ہو جائے گا ،اور وہیں ٹھہرے گا اور وہیں رات گذارے گا ، اور وہیں ظہر ، عصر اور مغرب و عشاء كی نمازیں پڑھے گا ،بغیر جمع كئے چآر ركعت والی نمازوں میں قصركرے گا ، اور وہیں نو تاریخ والی فجر كی نماز بھی پڑھے گا،اور كثرت سے تلبیہ ، ذكر اور قرآن كی تلاوت كرے گا
جب عرفہ كے دن یعنی ذی الحجہ كے نوواں دن كا سورج طلوع ہو جائے تو حاجی منی سے عرفات كی طرف پورے اطمنان وسكون كے سا تھ اللہ كا ذكر كرتے اور تلبیہ پكارتے ہوئے روانہ ہو جائے ،اگر اسے آسانی ہوتو زوال كے وقت نمرہ پہونچے ، ورنہ میدان عرفات میں داخل ہو جائے اس میں كوئی حرج نہیں ہے،اور جب سورج مائل ہو جائے تو ظہر اور عصر كی نماز قصر اور جمع كے ساتھ ادا كرے ،اور جمع تقدیم كرے ، اسے كے بعد فارغ ہوكر ذكر اور دعا اور اللہ سے گریہ و زاری میں لگ جائے ،اور اسے جو بسند ہو اپنے دونوں ہاتھوں كو اٹھاكر قبلہ رخ ہو كراس كی دعا كرے ،
عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:«ما من يوم أكثر من أن يعتق الله فيه عبداً من النار، من يوم عرفة، وإنه ليدنو، ثم يباهي بهم الملائكة، فيقول: ما أراد هؤلاء؟» (مسلم 1348).(”عرفہ سے بڑھ کر کوئی دن ایسا نہیں ہے جس میں اللہ تعالیٰ بندوں کو آگ سے اتنا آزاد کرتا ہو جتنا عرفہ کے دن آزاد کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ قریب ہوتا ہے اور فرشتوں پر بندوں کا حال دیکھ کر فخر کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ یہ کس ارادہ سے جمع ہوئے ہیں؟)
اور عرفات میں وقوف كا وقت زوال سے شروع ہوتا ہے ، اور جیسے ہی سورج غروب ہوگا تمام حجاج میدان عرفات سے مزلفہ كے لئے روانہ ہو جائیں گے،اور جس كا یہ وقت فوت ہوجائے اور وہ _گرچہ ایك منٹ كےلئے ہی صحیح_دس ذی الحجہ كے فجر سے پہلے عرفہ میں وقوف پا لے تو اس نے حج پا لیا، اور اس كا وقوف صحیح ہے ،اور لیكن جس كا وقوف فجر سے پہلے فوت ہو جائے تواس كا حج فوت ہو گیا
اور جب حاجی میدان مزدلفہ پہنچ جائے تو پہلے وہ مغرب و عشاء كی نماز پڑھے ، دونوں نمازوں كو جمع كركے قصر كے ساتھ پڑھے ، ایك اذان اور دو اقامتوں كے ساتھ ، اور پوری رات مزدلفہ میں گذارے ،اور جب فجر كا وقت ہو جائے تو فجر كی نماز وہیں پڑھے ،اور قبلہ رخ ہوكر ہاتھ اٹھا كر اللہ كے ذكر و دعا میں لگا رہے یہاں تك كہ صبح خوب روشن ہو جائے۔
جب ذی الحجہ كی دس تاریخ كی صبح خوب روشن ہو جائے تو حاجی سورج نكلنے سے پہلے منی كی طرف روانہ ہو جائے ، اور اپنے چلنے كے دوران كنكریاں چن لے ، سات كنكریا جو چنے كے دانےسے تھوڑے بڑے ہوں ،اور جب جمرہ عقبہ پہنچ جائے تو مكہ سے قریب جمرہ كو سات كنكریاں مارے ، اور ہر كنكری كے ساتھ اللہ اكبر پكارے ،اور جب اس سے فارغ ہو جائے تو قربانی كا جانور ذبح كرے ،پھر اپنے سر كو منڈوادے یا پھر بال چھوٹے كرا لے،اور عورت اپنے بال كے اخیر سے انگلی پور كے برابر كاٹ لے ،اور حاجی كے لئے خوشبو لگانا مستحب ہے ،پھر اس كے بعد وہ مكہ جائے اور طواف افاضہ كرے ،اور یہ حج كے اركان میں سے ہے ،اور سعی كرے ، پھر اس كے بعد منی واپس آئے گیارہ كی راتیں منی میں گذارے ۔
ایام تشریق میں حاجی كے لئے واجب ہے كہ وہ گیارہ و بارہ كی راتیں منی میں گذارے ، اور اگر تاخیر كرنے كا ارادہ ہو تو تیرہ كی رات بھی منی میں گذارے،اور تینوں جمرات كو كنكریاں مارے
جمرات كو كنكریاں مارنے كا طریقہ
پہلے جمرہ جو مسجد خیف سے جڑا ہے ایك كے بعد ایك مسلسل سات كنكریاں مارے ،اور ہر كنكری كے ساتھ اللہ اكبر كہے، اور پھر تھوڑا آگے بڑھے اور جو چاہے لمبی دعا كرے، پھر درمیان والے جمرہ كو مسلسل سات كنكریاں مارے ، اور ہر كنكری كے ساتھ اللہ اكبر كہے ،پھر شمال كی طرف ہٹ كر قیلہ رخ ہوكر ہاتھ اٹھاكر ٹھہر كر دعا كرے ،پھر جمرہ عقبہ كو اللہ اكبر كہتے ہوئے مسلسل سات كنكریاں مارے ، پھر وہاں سے مڑ جائے اور اس كے بعد كوئی دعا نہ كرے ۔
اور جب بارہ تاریخ كو كنكری مارنے كا كام مكمل كرلے تو اگر چاہے تو جلدی كرتے ہوئے منی سے نكل جائے ،اوراگر چاہے تو تاخیر كرے اور تیرہ تاریخ كی رات بھی منی میں گذارے اور زوال كے بعد تینوں كو كنكری مارے ،جیسے كہ پہلے كیا ، اور تیرہ تاریخ تك منی میں ٹھہرنا افضل ہے
اور جب اپنے شہر جانےكے لئے مكہ سے نكلنے كا ارادہ كرے تو طواف وداع كئے بغیر نہ نكلے ،اور طواف وداع كو اللہ كے گھر كا آخری عہد قرار دے جب سفر كے لئے كوچ كا ارادہ كرے ، ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے فرماتے ہیں كہ اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لا ينفرن أحد حتى يكون آخر عهده بالبيت». (مسلم 1327).(کوئی شخص کوچ نہ کرے جب تک چلتے وقت طواف نہ کر لے بیت اللہ کا ) اور طواف وداع حائضہ عورت كے لئے معاف ہے ۔