تعلیم كو فالو اپ كریں

اب تك آپ نے انڑی كے لئے رجسٹریشن نہیں كیا
اپنی ترقی كے فالواپ كے لئے اور پوائنٹس اكٹھا كرنے كے لئے ،اور مسابقے میں شركت كے لئے منصہ تاء میں فورا رجسٹریشن كریں ،رجسٹرد ہونے كے بعد جن موضوعات كی آپ تعلیم حاصل كررہے ہیں آپ اس كی الكڑانك سرٹیفیكیٹ حاصل كریں گے

موجودہ قسم حدیث اور سنت

سبق: نبی اكر م صلی اللہ علیہ وسلم كی سنت

دین اسلام دو بنیادی مصادر پر قائم ہے ،پہلا قرآن كریم اور دوسرا سنت نبویہ مطہر ہ ہے،اور اس سبق میں آپ كو سنت نبویہ كی حقیقت اور اسلام میں اس كے مقام و مرتبہ كے متعلق جانكاری دی جائے گی

*سنت نبوی كے فضیلت كی معرفت*شریعت سازی میں سنت كے مقام كی معرفت*سنت كے شریعت ساز ہونے كی عظمت كا دلی طور پراحساس كرنا

سنت نبوی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كی سنت وحی ہے جسے اللہ نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم كی طرف وحی فرمائی ہے،اور سنت رسول، اللہ كی كتاب قرآن عزیزكے ساتھ ساتھ دین اسلام كی بنیاد اور اس كا مصدر ہے ،اور یہ دونوں آپس میں لا الہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ كی شہادت كے جڑنے كی طرح باہم جڑے ہوئے ہیں،اور جو سنت پر ایمان نہیں ركہتا وہ قرآن پر ایمان نہیں ركھتا ہے

سنت كی تعریف

سنت نبویہ كی تعریف :ہر وہ قول ، فعل،اور تقریر،یا آپ كی خلقت كی صفت ، یا اخلاق كی خوبی نبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم كی طرف منسوب كی جائے ، تقریر كا مطلب ہے كہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم كے سامنے كوئی عمل صحابہ نے كیا لیكن آپ نے اس كا انكار نیہں فرمایا

سنت نبویہ كا درجہ

دین اسلام میں سنت نبوی كا عظیم مرتبہ و مقام ہے ،اور جن چیزوں سے سنت كا مقام و مرتبہ واضح ہوتا ہے وہ درج ذیل ہیں:

1-سنت شریعت سازی مین دوسرا مصدر و اصل ہے

قرآن كے بعد سنت دین كا دوسرا مصدر و مرجع ہے ،جیسا كہ مقدام بن معدی كرب فرماتے ہیں كہ اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا« ألا إني أوتيت الكتاب ومثله معه، ألا إني أوتيت القرآن ومثله معه، ألا يوشك رجل ينثني شبعاناً على أريكته يقول: عليكم بالقرآن، فما وجدتم فيه من حلال فأحلوه، وما وجدتم فيه من حرام فحرموه » مسند أحمد ( 17174). خبردار! مجھے قرآن دیاگیا اور اسی جیسا اس كے ساتھ اور دیا گيا ، اس کے ساتھ اسی کے مثل ایک اور چیز بھی (یعنی سنت)، قریب ہے کہ ایک آسودہ آدمی اپنے تخت پر ٹیک لگائے ہوئے کہے : قرآن کو لازم پکڑو، جو کچھ تم اس میں حلال پاؤ اسی کو حلال سمجھو، اور جو اس میں حرام پاؤ، اسی کو حرام سمجھو،

یہ اللہ كی جانب سے وحی ہے

سنت نبوی اللہ كی طرف سے آپنے نبی كے لئے وحی تھی ،جیسا كہ اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿ وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى، إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى، عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَى﴾ [النجم:3-5]. اور نہ وه اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں* وه تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے * اسے پوری طاقت والے فرشتے نے سکھایا ہے

سنت قرآن كے تفسیر و توضیح ہے

سنت نبوی میں قرآن كی توضیح و بیان ہے، اللہ كا ارشاد ہے: ﴿وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ﴾ [النحل:44]. یہ ذکر (کتاب) ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے کہ لوگوں کی جانب جو نازل فرمایا گیا ہے آپ اسے کھول کھول کر بیان کر دیں، شاید کہ وه غور وفکر کریں

قرآں كریم كی بہت ساری آیتیں بہت سارے معاملات و مسائل میں مجمل احكام كے ساتھ آئیں ہیں ،تو ان كی تفصیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول كے ذریعہ یا پھر اس كی تفصیل آپ نے قرآن كریم كے مطابق عملی شكل میں پیش كیا ہے ، مثال كے طور پر اللہ كا یہ فرمان : ﴿وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ﴾ [النور: 56].نماز کی پابندی کرو، زکوٰة ادا کرو اور اللہ تعالیٰ کے رسول کی فرمانبرداری میں لگے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے ، اس آیت كریمہ میں نماز قائم كرنے اور زكاۃ ادا كرنے كا حكم اجمالی طور پر آیا ہے ،لیكن اس كی تفصیل اور توضیح سنت میں آئی ہے ،بایں طور پر كہ پانچ نمازوں كے اوقات ، او ران كی كیفیت اور ان كے تمام احكام سنت نے واضح كیا ہے ،اور ایسے ہی زكاۃ كے احكام كو بھی سنت نے تفصیل سے بیان كیا ہے

سنت نبی كی حفاظت اللہ نے فرمائی ہے

سنت نبوی اس ذكر كے قبیل سے ہے جس كی حفاظت كی ذمہ داری اللہ نے لی ہے ،اللہ كا ارشاد ہے: ﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ﴾ [الحجر: 9]. ہم نے ہی اس قرآن کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کے محافﻆ ہیں ۔ ذكر : كہتے ہیں ان تمام چیزوں كا نام ہے جو اللہ نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن و سنت كی شكل میں نازل فرمائی ہے۔

سنت كے حفظ كے یہ مظا ہر ہیں كہ اللہ تعالی نے سنت نبویہ كے لئے ایسے علماء پیدا كئے جنہوں نے سنت كے جمع و تدوین كے راستے میں انتہائی كوشش كی ، اور اس كی روایت كو ضیط كرنے والے قواعد و ضوابط تیار كئے ، اور جو اس میں جھوٹ ، وہم ، غلط سرایت كئے ان كو چھانٹ كر الگ كیا ،اور انتہائی احتیاط كے ساتھ اسے لكھا،اور پوری مضبوطی سے اسے حفظ كیا،اور نقل كرنے اور روایت كرنے والوں كے حالات كو اچھی طرح چھانٹا و پھٹكا۔

اللہ نے سنت كی حفاظت كی ذمہ داری لی،ایسے علماء و روایت كرنے والوں كے ذریعہ جنہیں اللہ نے اپنے نبی كی سنت كے حفظ كے لئے مسخر و تابع كردیا تھا

سنت نبوی كی حجیت

قرآن كریم كے بعد شریعت سازی میں نبوی سنت ہی دوسرا مصدر ہے ، اور اللہ كا دین اس وقت تك مكمل نہ ہوگا جب تك كہ كتاب و سنت كو ایك ساتھ نہ پكڑا جائے

احكام شریعت كے استنباط میں سنت بنیادی و اساسی مصدر ہے ،اور اس كے تقاضے پر عمل كرنا واجب ہے ، اعتقادی مسائل اور شرعی احكام میں

قرآن كریم كے احكام كی وضاحت و بیان كے لئے سنت آتی ہے ،اور كبھي احكام كے تشریع میں وہ مستقل و الگ ہے ،تو سنت بھی قرآن كی طرح حلال و حرام كی تعیین میں اپنا مقام ركھتا ہے

قرآن كریم كے دلائل اور احادیث نبویہ سنت كی حجیت كو ثابت كرتے ہیں ،اور اسلامی شریعت سازی میں سنت كے مقام كو ثابت كرتے ہیں ،بہت سی آیتیں اور متعدد احادیث سنت كو تھامنے اور اس سے دلیل پكڑنے نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كی اطاعت كے واجب ہونے پر دلالت كرتی ہیں،جیسا كہ اللہ كا فرمان ہے : ﴿ وَمَا آتَاكُمْ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا ﴾ [الحشر: 7].اور تمہیں جو کچھ رسول دے لے لو، اور جس سے روکے رک جاؤ

مقدام بن معدیکرب کندی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قریب ہے کہ کوئی آدمی اپنے آراستہ تخت پر ٹیک لگائے بیٹھا ہو اور اس سے میری کوئی حدیث بیان کی جائے تو وہ کہے: ”ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ کی کتاب کافی ہے، ہم اس میں جو چیز حلال پائیں گے اسی کو حلال سمجھیں گے اور جو چیز حرام پائیں گے اسی کو حرام جانیں گے“، تو سن لو! جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے وہ ویسے ہی ہے جیسے اللہ نے حرام قرار دیا ہے“۔( ابن ماجه (12).صحیح

سنت كی اتباع

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے اقوال و افعال و احوال كی اطاعت اور اتباع كو اللہ نے بندوں پر واجب قرار دیا ہے ،اللہ كا ارشاد ہے : ﴿قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ﴾ [آل عمران: ٣١]. کہہ دیجئے! اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو، خود اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناه معاف فرما دے گا اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے واﻻ مہربان ہے ایك اور مقام پر اللہ نے فرمایا: ﴿وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ﴾ [الأعراف :158 ].اور ان کا اتباع کرو تاکہ تم راه پر آجاؤ

عرباض رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کے طریقہ کار کو لازم پکڑنا، تم اس سے چمٹ جانا، اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لینا، اور دین میں نکالی گئی نئی باتوں سے بچتے رہنا، اس لیے کہ ہر نئی بات بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے( أبو داود (4607). (صحیح)

جو كچھ رسول اللہ نے كیا یا فرمایا اسے مضبوطی كے ساتھ تھامنے كانام اتباع ہے ،اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم كے طریقوں پر چلنا،اور جن كاموں كے كرنے كا حكم ہےاس كی اتباع كرنا ، اور جن كاموں سے منع كیا گیا ہے ان سے اجتناب كرنا، اوردین كو لاگو كرنا اور اسے عملی شكل دینا

تمام واجبات میں اتباع واجب ہے ، اور تمام مستحبات میں اتباع مستحب ہے

سنت كے اتباع كی فضیلت

سنت كی اتباع كرنے كے بہت فضائل ہیں اور اس كے متعدد ثمرات ہیں ، اور اسی قبیل سے یہ ہے

سنت كی پیروی اور اسے لازم پكڑنے سے ان جماعتوں كی پیروی كرنے والے لوگوں سے نجات مل جاتی ہے جن فرقے كے لوگوں كو نبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہنمی ہونے كا وعدہ كیا ہے ، جیسا كہ عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت کے ساتھ ہو بہو وہی صورت حال پیش آئے گی جو بنی اسرائیل کے ساتھ پیش آ چکی ہے، (یعنی مماثلت میں دونوں برابر ہوں گے) یہاں تک کہ ان میں سے کسی نے اگر اپنی ماں کے ساتھ اعلانیہ زنا کیا ہو گا تو میری امت میں بھی ایسا شخص ہو گا جو اس فعل شنیع کا مرتکب ہو گا، بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں بٹ گئے اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی، اور ایک فرقہ کو چھوڑ کر باقی سبھی جہنم میں جائیں گے، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ کون سی جماعت ہو گی؟ آپ نے فرمایا: ”یہ وہ لوگ ہوں گے جو میرے اور میرے صحابہ کے نقش قدم پر ہوں گے“۔( الترمذي (2641).(حسن) (تراجع الالبانی 249، والصحیحہ 1348)»

سنت كو لازم پكڑنے سے ہدایت اور گمراہی سے سلامتی حاصل ہوتی ہے ،اللہ كا ارشاد ہے: ﴿وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ﴾ [الأعراف :158 ]. اور اس کی پیروی کرو، تاکہ تم ہدایت پاؤ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں كہ اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: « إني قد تركت فيكم شيئين لن تضلوا بعدهما: كتاب الله وسنتي» مستدرك الحاكم (319).میں نے تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑی ہیں ، ان دونوں كے ہوتے ہوئے تم كبھی گمراہ نہیں ہوگے : ایك قرآن كریم ہے اور دوسری میری سنت (والألبانيُّ في ((صحيح الجامع)) (3232)

عمل صالح اس وقت تك مقبول نہیں ہوتا جب تك كہ وہ سنت كے موافق نہ ہو ، اس لئے یہ ضروری ہے كہ بندہ جو بھی عمل كرے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم كی سنت كے مطابق ہو ،جیسا كہ ‏‏‏‏ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص ایسا کام کرے جس کے لیے ہمارا حکم نہ ہو (یعنی دین میں ایسا عمل نکالے) تو وہ مردود ہے۔“( مسلم (1718).

سنت كی اتباع میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب او ر منسوب ہونا ہے ،اور سنت سے دوری اختیار كرنانبی سے دوری بنانا ہے ،جیسا كہ حدیث میں ہے: انس بن مالک نے بیان کیا کہ تین حضرات (علی بن ابی طالب، عبداللہ بن عمرو بن العاص اور عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہم) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے گھروں کی طرف آپ کی عبادت کے متعلق پوچھنے آئے، جب انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بتایا گیا تو جیسے انہوں نے اسے کم سمجھا اور کہا کہ ہمارا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا مقابلہ! آپ کی تو تمام اگلی پچھلی لغزشیں معاف کر دی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ آج سے میں ہمیشہ رات بھر نماز پڑھا کروں گا۔ دوسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ روزے سے رہوں گا اور کبھی ناغہ نہیں ہونے دوں گا۔ تیسرے نے کہا کہ میں عورتوں سے جدائی اختیار کر لوں گا اور کبھی نکاح نہیں کروں گا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ان سے پوچھا کیا تم نے ہی یہ باتیں کہی ہیں؟ سن لو! اللہ تعالیٰ کی قسم! اللہ رب العالمین سے میں تم سب سے زیادہ ڈرنے والا ہوں۔ میں تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہوں لیکن میں اگر روزے رکھتا ہوں تو افطار بھی کرتا ہوں۔ نماز پڑھتا ہوں (رات میں) اور سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے نکاح کرتا ہوں۔ «فمن رغب عن سنتي فليس مني» میرے طریقے سے جس نے بے رغبتی کی وہ مجھ میں سے نہیں ہے۔(البخاري (5063).

سنت سے چمٹے رہنے سے فتنے اور دردناك عذاب سے نجات ملتی ہے ، اللہ كا ارشاد ہے: ﴿فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴾ [النور: 63].نو جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہیئے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آ پڑے یا انہیں درد ناک عذاب نہ پہنچے

سنت كی اتباع او ر اس سے چمٹے رہنے میں دونوں جہان كی سعادت مندی و كامیابی حاصل ہوتی ہے ،اللہ كا ارشاد ہے: ﴿وَمَنْ يُطِعِ اللهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللهَ وَيَتَّقْهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ﴾ [النور: 52]. جو بھی اللہ تعالیٰ کی، اس کے رسول کی فرماں برداری کریں، خوف الٰہی رکھیں اور اس کے عذابوں سے ڈرتے رہیں، وہی نجات پانے والے ہیں

كامیابی سے آپ نے درس مكمل كیا


امتحان شروع كریں