موجودہ قسم حدیث اور سنت
سبق: سنت كی تدوین اور اس كی اہم كتابیں
علمائے اسلام نے سنت كی تدوین كا اہتمام كیا ، اس كے حفظ میں اپنی عمریں فنا كردیں ،صحیح اور ضعیف كو الگ الگ كیا ،اور ان كے راویوں كے احوال بیان كیا ، جس كی پوری تاریخ انسانیت میں نظیر نہیں ملتی
تدوین سنت كا معنی و مطلب
تدوین كا مطلب ہے ،نبی اكرم محمد صلی اللہ علیہ وسلم كے قول یا فعل یا تقریر جو بھی آپ سے وارد ہوئی ہیں انہیں لكھنا یا ریكارڈ كرنا، اور انہیں كتابوں میں یا اپنی تصنیفات میں اكٹھا كرنا
تدوین سنت اور حدیث كے لكھنے كا عمل متعدد مراحل سے گذرا ہے ،جس كی تفصیل یہ ہے :
پہلا مرحلہ:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ كے صحابہ كے عہد میں لكھنےكا عمل ، اور یہ پہلی صدی ہجری كی بات ہے ،آغاز اسلام میں اللہ كے نبی نے احادیث لكھنے سے منع فرمایا تھا كیونكہ اسے كے قرآن میں خلط و ملط ہونے كا ڈر تھا
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مت لکھو میرا کلام اور جس نے لکھا کچھ مجھ سے سن کر تو وہ اس کو مٹا دے مگر قرآن کو نہ مٹائے۔ البتہ میری حدیث بیان کرو اس میں کچھ حرج نہیں “
نبی صلی اللہ علیہ وسلم كی احادیث دلوں میں محفوظ كی جاتی تھیں ،اور اسے سامنے روایت بیان كركے نقل كیا جاتا تھا ،بعد میں رسول اللہ نے بعض صحابہ كو لكھنے كی اجازت دے دی
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں میں ہر اس حدیث کو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنتا یاد رکھنے کے لیے لکھ لیتا، تو قریش کے لوگوں نے مجھے لکھنے سے منع کر دیا، اور کہا: کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہر سنی ہوئی بات کو لکھ لیتے ہو؟ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بشر ہیں، غصے اور خوشی دونوں حالتوں میں باتیں کرتے ہیں، تو میں نے لکھنا چھوڑ دیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی سے اپنے منہ کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: ”لکھا کرو، قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس سے حق بات کے سوا کچھ نہیں نکلتا“۔أبي داود [3646]. (صحیح)
ولید بن مسلم كی حدیث میں ہے جو اوزاعی سے روایت كرتے ہیں كہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:، انہوں نے کہا کہ جب اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ فتح کرا دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے سامنے کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا (ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول كا پورا خطبہ ذكر كرنے كے بعد فرمایا)پھر ابوشاہ یمن کے ایک صحابی نے کھڑے ہو کر کہا، یا رسول اللہ! میرے لیے یہ خطبہ لکھوا دیجئیے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو حکم فرمایا کہ ابوشاہ کے لیے یہ خطبہ لکھ دو۔ میں نے امام اوزاعی سے پوچھا کہ اس سے کیا مراد ہے کہ ”میرے لیے اسے لکھوا دیجئیے“ تو انہوں نے کہا کہ وہی خطبہ مراد ہے جو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (مکہ میں) سنا تھا۔( البخاري (2434)، ومسلم (1355).
دوسرا مرحلہ:
عہد تابعین كے اواخر میں سنت كی تدوین ، دوسری صدی ہجری میں ،سنہ بنویہ كی عام تدوین كی كتابت بالكل الگ تھلك رہی ،لیكن اس كی كوئی متعین ترتیب نیہں تھی، اور جس نے سب سے پہلے اس كا اہتمام كیا وہ امیرالمومنیں عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ تھے ،آپ نے دو اماموں ابن شہاب زہری ،اورابو بكر بن حزم كو سنت جمع كرنے كا حكم دیا،اور لوگوں كو لكھا :جہاں كہیں بھی حدیث رسول نظر آئے اسے یكجا كرو اور اسے محفوظ كرلو، كیونكہ مجھے علم كے ختم ہونے اور علماء كے كوچ كرجانے كا اندیشہ ہے
ان كے حكم پر جس نے سب سے پہلے حدیث كی تدوین كی وہ امام زہری رحمہ اللہ ہیں ،اور یہی سے سنت اور احادیث كے تدوین كے عمل كا آغاز بشكل عام ہوا
مرتب تصنیف شدہ كتابوں كی شكل میں سنت كی تالیف ، علمی ابواب كے طریقے سے جیسے ایمان ، علم ، طہارت ، صلاۃ وغیرہ ہے ،یا سند كے طریقے سے جیسے مسند ابی بكر پھر عمر پھر اس كے بعد اسی طرح
اور اسی مرحلے میں امام مالك بن انس كی كتاب موطا كی تصنیف ہے اور یہ دور ترتیب اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم كے اقوال صحابہ و تابعین كے اقوال اور ان كے فتاوے كی آمیزش سے الگ رہے
اس مرحلے میں حدیث رسول كو تصنیف كی شكل دی گئی ،اور صحابہ و تابعین كے اقوال كی آمیزش اور ملاوٹ كے بغیر اس كے جمع و ترتیب كا كام ہوا، ہاں كچھ معمولی جگہوں پر جہاں ضرورت پڑی اس كا ذكر كردیا گیا ہے ،اور اس دور كا آغاز تیسری صدی ہجری كے شروع میں ہوا،اور اس مرحلے كی سب سے مشہور تصنیف امام احمد اور امام حمیدی كی مسند ہے، اور ان دونوں كے علاوہ بھی ہے
تیسری صدی ہجری كے درمیان میں حدیث كی تدوین اپنے انتہا كو پہنچ گئی ،جس میں امام بخاری نے اپنی صحیح ، مسلم نے اپنی صحیح، كی تالیف كی ، اور سنن میں كتابیں تصنیف كی گئیں جیسے سنن ابی داود ، سنن الترمذی ، سنن النسائی ، و سنن ابن ماجہ،و سنن دارمی ، ان كےعلاوہ اور دیگر مشہور كتابیں
سنت بنوی كو موضوع پر لكھي گئیں چھ كتابوں كو بڑی شہرت ملی ،اور وہ یہ ہیں:صحيح البخاري، وصحيح مسلم، و سنن أبي داود، وابن ماجة، والنسائي، والترمذي.
سنت كی بعض كتابیں كافی مشہور ہوئی جیسے ، سنن دارمی، مسند امام احمد ، موطا امام مالك
چھ كتابوں كا تعارف
وہ چھ مشہور كتابیں جس كو امت نے قبول كیا ہے وہ چھ یہ ہیں :
صحیح بخاری (ت،256،ھ)
وہ جامع كتابوں میں سے ہے جسے مولف نے رسول اللہ كی حدیثیں جو عقائد ، عبادات ، معاملات ، غزوات ،تفسیر ،و فضائل كے باب میں ہیں جو اسے ملییں سب كو جمع كردیا ہے ،اور اس میں صحیح كا التزام كیا ہے اور وہ قرآن كریم كے بعد سب سے صحیح كتاب ہے
2-صحیح مسلم (ت261ھ)
وہ جامع كتاب ہے جس میں مولف نے صحیح ہی كا التزام كیا ہے، لیكن ان كے نزدیك صحیح قرار دینے كے شروط امام بخاری كے شروط سے ہلكے ہیں ، وہ بخاری كے بعد دوسری كتاب ہے
3- سنن ابی داود(ت،275ھ)
اور وہ سنن كی كتابیں ہیں جن كے مولفین نے فقہی ابواب پر مرتب كیا ہے اور اپنی اس كتاب میں دو درجے كی حدیثوں صحیح و حسن كو جمع كیا ہے،اور بہت كم ضعیف حدیثوں كو وارد كئے ہیں
4- سنن ترمذی (ت، 279ھ)
یہ جامع كتابوں میں سے ہے جومولف عقائد ، عبادات ، معاملات ، غزوات ، تفسیر اور فضائل كے بات میں حدیثیں موصول ہوئیں انہیں جمع كیا ، اور اس میں صحت كا التزام نہیں كیا ،بلكہ اس میں صحیح ، حسن ، اور ضعیف بھی ہیں
5-سنن نسائی(ت303ھ)
اور یہ ساتھ ہی فقہی ابواب پر مرتب ہے ، اور اس میں صحیح ، حسن اور ضعیف حدیثیں ہیں
6-سنن ابن ماجہ (ت273ھ)
اور یہ بھي فقہی ابواب پر مرتب ہیں ، اور اس میں صحیح، حسن ، ضعیف ، اور بعض ضعیف مردود روایتیں بھی ہیں
امام حافظ ابو الحجاج المزی (ت، 742ھ) نے فرمایا:
اور رہی بات سنت كی تو اللہ تعالی نے اس كے لئے جانكار حفاظ ، ماہرین علماء ، قابل ناقدین،كو توفیق بخشی ، جو اس میں تحریف كرنے والے غالی لوگوں كی نفی كرتے ، باطل پرست كو ہٹاتے ،جاہلوں كی تاویلات كو اس سے دور كرتے ہیں، اسی كے پیش نظر انہوں نے مختلف انداز كی كتابیں لكھیں ،اور تمام پہلووں اور متعدد مثالوں كو سامنے ركھ كر اس كی تدوین میں فن كاری كی ،ان كا مطمع نظر سنت كی حفاظت اور اسے ضائع ہونے كا خوف تھا، اور تصنیف كے اعتبار سے سب سے عمدہ ،تالیف كے اعتبار سے سب سے ممتاز ،سب زیادہ درست و صحیح، سب سے كم خطا والا ، عمومی نفع كا حامل ،زیادہ فائدہ پہونچانے والا،بڑی بركتوں والا،آسان ترین خرچ والا ، مخالفین و موافقین كے نزدیك سب سے حسیں قبول والا،عام و خاص كے نزدیك اعلی مقام والا ہے وہ ہے ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل البخاری كی صحیح، اور اسكے بعد ابو الحسین مسلم بن حجاج النیسابوری كی صحیح، پھر ان دونوں كے بعد سنن كی كتابیں ہیں ،سنن ابی داودسلیمان بن اشعث سجستانی ، ان كے بعد ابو عیسی محمد بن عیسی ترمذی كی جامع ہے،پھر اس كےبعد ابو عبدالرحمن احمد بن شعیب نسائی كی سنن ہے ، پھر ان كےبعد ابو عبداللہ محمد بن یزید قزوینی جو ابن ماجہ كے نام سے مشہور ہین ان كی سنن،گرچہ یہ ان سب كے مقام تك نہیں پہوہچتے ہیں
ان كتب ستہ میں سے ہر ایك كی اپنی خصوصیت ہے جسے اس فن كے ماہریں سمجھتے ہیں ،لوگوں یہ كتابیں شہرت حاصل كرچكی ہیں، اور بلاد اسلامیہ میں پھیل چكی ہیں ،اور ان سے بڑے فائدے حاصل كئے جا چكے ہیں ،اور طالب علم ان كے پڑھنے كے حریص ہیں ،(تهذيب الكمال [1 / 147].
علم حدیث كا اہتمام كرنے والے اور اس كے متخصص اہل علم كے ذریعے حدیث كے درجے كو اس كے صحیح مقبول یا ضعیف مردود ہونے كی حیثیت سے ایك مسلمان كے لئے جانكاری حاصل كرنا ممكن و آسان ہے، علماء نے احادیث كو اس كے سند و متن ، اور قبول و انكار و رد كے حالات كو سامنے ركھ كر اس كا دراسہ كیا ہے
اس باب میں بہت سی كتابیں تالیف و تصنیف كی گئی ہیں ،ایسے ہی بہت سی اپلیكشنس اور ایسی قابل اعتماد الكٹرانك منصات (پلیٹ فارم) پائے جارہے ہیں جوضعیف احادیث كو صحیح احادیث سے الگ سمحھنے میں مددگار ہیں
بہت سے اپلیكیشنس اور الكٹرانك پلیٹ فارم ہیں جو آپ كو احادیث كا درجہ متعین كرنےمیں مدد كرتے ہیں
الدرر السنیہ ویب سائٹ پر الموسوعہ الحدیثیہ ہے جس پر لاكھوں حدیثیں موجود ہیں ،ان پر پہلے ، بعد والے اور موجودہ دور كے محدثین علماء كے حكم موجود ہیں،اس لنك كے ذریعہ وہاں تك آپ كی رسائی ممكن ہے (https://dorar.net/hadith)